معاشی صورتحال اور امیر غریب کی تفریق

پاکستان میں معاشی صورتحال انتہائی گمبھیر ہوتی جا رہی ہے، امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب ترین ہوتا جا رہا ہے، لیکن یہ صرف وطن عزیز میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ شاید یہی دنیا کی تاریخ ہے کہ جب بھی کوئی نیا بحران آتا ہے تو وہ کاروباری افراد کے لیے نئے مواقع پیدا کرتا ہے اور نچلا طبقہ مزید پس کر رہ جاتا ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1873ء میں جب امریکی معیشت بدترین کساد بازاری سے گزر رہی تھی، کئی بینک اور کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی تھیں اور سٹاک مارکیٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا‘ اس وقت بھی ایک امریکی سرمایہ دار ''جان ڈی راک فیلر‘‘ کے اثاثے دگنے‘ تگنے ہو رہے تھے۔ اس نے اپنے مقابل کھڑی کئی کمپنیاں خرید لی تھیں۔ اس زمانے میں جب تیل پانی سے بھی سستا ہو چکا تھا‘ وہ آئل ریفائنریاں خرید رہا تھا، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ راک فیلر کا کاریں بنانے والی انڈسٹری پر بھی مکمل کنٹرول ہو گیا۔
اگر ملکِ عزیز کی بات کریں تو ہم نے دیکھا کہ 8 اکتوبر 2005ء کو جب آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں قیامت خیز زلزلے نے تباہی پھیلائی، ہزاروں اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ معذور ہونے کے ساتھ ساتھ بے گھر ہوئے تو ایسے وقت میں بے شمار افراد ایسے تھے جو زلزلے سے قبل انتہائی خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے، کئی کثیر المنزلہ پلازوں، جائیدادوں اور کامیاب کاروباروں کے مالک تھے، نت نئی گاڑیاں ان کے پاس ہوتی تھیں اور وہ ہوا کے دوش پر اڑتے نظر آتے تھے لیکن زلزلے کے ایک جھٹکے نے انہیں زندگی بھر کے لیے معذور اور بھکاری بنا دیا جبکہ اسی زلزلے نے کئی کنگلوں کو کروڑ پتی بھی بنا دیا۔ اسی طرح کورونا وائرس کے دوران جب سماجی فاصلے کے سبب کاروبار بند ہوئے، ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام اور بازاروں کے شٹر ڈائون ہوا تو لاکھوں غریبوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ گئے، لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے اور اگر مخیر حضرات مدد نہ کرتے تو شاید قحط کا خطرہ بڑھ جاتا۔ جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس تباہی پھیلا رہا تھا‘ اس دوران بھی کاروباری طبقے نے لوگوں کی جیب سے اربوں روپے نکال لیے تھے۔ ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا جو اس عالمی وبا کے ابتدائی مرحلے میں صرف 'فیس ماسک‘ کی پیداوار اور فروخت سے ہی ارب پتی بن گئے۔ جب حکومت نے کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کیلئے بازار بند کرائے تو ہزاروں لوگوں نے آن لائن کاروبار شروع کر دیا اور گھر بیٹھے اپنے سرمائے کی بنیاد پر لاکھوں‘ کروڑوں بلکہ اربوں کما لیے۔
برطانوی ادارے آکسفیم نے گزشتہ سال جو رپورٹ جاری کی‘ اس میں بتایا گیا کہ دنیا میں ارتکازِ دولت کے باعث ناہمواریاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ کورونا کے دوران دنیا کی 99 فیصد آبادی کی آمدنی کم ہو گئی جبکہ اس کے مقابلے میں دنیا کے دس امیر ترین افراد کی آمدنی میں دُگنا اضافہ ہو گیا۔ اس دوران دنیا میں مزید 16کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے‘ جہاں غربت کی وجہ سے ہر روز 21 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران صرف خواتین کی کمائی میں 800 ارب ڈالر کی کمی نوٹ کی گئی جبکہ 2019ء کے مقابلے میں کام کرنے والی خواتین میں ایک کروڑ 30 لاکھ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان صنفی فرق‘ جو کورونا سے پہلے 99 سال کا تھا‘ اب بڑھ کر 135 سال کا ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں 50 فیصد گھرانوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ بیماریوں کا علاج کرا سکیں جبکہ ایشیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد کے پاس ایشیا کے 90 فیصد غریب لوگوں سے زیادہ پیسہ ہے۔ اس رپورٹ میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایشیا کے کروڑوں اور اربوں پتی افراد پر اگر دو سے پانچ فیصد ویلتھ ٹیکس لگایا جائے تو لگ بھگ 776 ارب ڈالر کی رقم اکٹھی ہو سکتی ہے جس سے خطے کی 60 فیصد آبادی کو صحت کی بہترسہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔
بات پاکستان کی معاشی صورتحال سے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کا جو طوفان برپا ہے‘ اسے روکنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ امریکی ڈالر روز بروز مہنگا ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔ کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرتا جس میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی خبر سے عوام کو جھٹکا نہ دیا جاتا ہو۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں شہریوں نے اپنی گاڑیاں کھڑی کرکے موٹرسائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹس پر سفر شروع کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود سڑکوں پر رش کم نہیں ہوا ہے۔ اب بھی بازاروں میں پارکنگ کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ پٹرول کی قیمت میں ایک سال کے دوران 130 روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ پٹرول 268 روپے فی لیٹر تک پہنچنے کے باوجود پٹرولیم فلنگ سٹیشنوں (پٹرول پمپس) پر گاڑیوں کی طویل قطاریں نظر آتی ہیں اور ایک موٹر سائیکل سوار کو ایک لیٹر پٹرول بھروانے کیلئے کم ازکم پندرہ منٹ لائن میں لگنا پڑتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگرچہ ہمارے ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے مگر اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے پاس روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔
ایک روز قبل ہی پاکستان سپر لیگ (ٹی ٹونٹی) آٹھویں ایڈیشن کے ملتان، کراچی، راولپنڈی اور لاہور میں ہونے والے میچز کے بعد لیگ مرحلہ ختم ہوا اور اب 15 مارچ سے پلے آف مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ اس سیزن میں ہم نے دیکھا کہ جو ٹکٹ پہلے دو سو روپے کا ہوتا تھا‘ اس بار وہ دو ہزار روپے کا تھا، اسی طرح جو ٹکٹ تین سو سے پانچ سو روپے کا ہوتا تھا‘ وہ اس بار چار سے پانچ ہزار روپے کا تھا۔ گزشتہ سال تک جن انکلوژرز کا ٹکٹ ایک ہزار روپے کا ملتا تھا، اس بار وہ آٹھ ہزار سے پندرہ ہزار روپے کا ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود سٹیڈیمز تماشائیوں سے بھرے ہوتے تھے۔ خصوصاً راولپنڈی اور لاہور میں ہونے والے میچز کے دوران سٹیڈیم سے باہر بھی ہزاروں شائقین ٹکٹ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے تھے۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جہاں ملک میں غریب و سفید پوش افراد کی اکثریت دو وقت کی روٹی، یوٹیلیٹی بلز اور بچوں کی فیسیں ادا کرنے سے قاصر ہے‘ وہیں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کے پاس وقت اور پیسہ‘ دونوں کی فراوانی ہے۔
پاکستان میں مہنگائی و بیروزگاری کی وجوہات کیا ہیں‘ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ بظاہر مہنگائی کو کنٹرول کرنا اربابِ اختیار کی ترجیح ہی نہیں ہے۔ ہم روزانہ مارکیٹ میں دیکھتے ہیں کہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس زیادہ تر چھوٹی دکانوں اور پھلوں و سبزیوں کی ریڑھیوں پر چھاپے مار کر نرخ نامے چیک کرتے ہیں، چند سو روپے منافع کما کر رات کو اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرنے والے غریب چھابڑی فروشوں پر گراں فروشی کے مقدمات درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے لیکن روزانہ کروڑوں روپے کی سیل کرنے والے بڑے بڑے شاپنگ مالز اور سٹورز میں کوئی نرخ نامے چیک نہیں کرتا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بڑے سٹورز اور شاپنگ مالز میں محض تیس فی صد اشیا پر ہی ریٹ کی پرچیاں چسپاں ہوتی ہیں جبکہ ستر فیصد آئٹمز کے نرخ کیش کائونٹر پر پہنچنے کے بعد ہی معلوم پڑتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ڈالر ، بجلی اور پٹرول مہنگے ہوتے ہیں تو لامحالہ ان کا اثر تمام اشیائے ضروریہ پر پڑتا ہے، حتیٰ کہ پھل اور سبزیوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ کھیت سے منڈی اور پھر صارف تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹیشن پر بھاری اخراجات آتے ہیں جوسرمایہ کار ہمیشہ عام صارف پر ہی منتقل کرتا ہے۔ اگر حکومت ذرا سی توجہ دے تو نہ صرف مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی چیک کرنے کا میکانزم بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے مگر جس حکومت کی ترجیح میں ہی یہ چیزیں شامل نہ ہوں اس سے کسی ریلیف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں