روزہ افضل ترین جسمانی و روحانی عبادات میں سے ایک ہے۔ قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں‘ جس طرح پچھلی امتوں پر کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (البقرہ)۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر بھی میں ہی دوں گا۔ لہٰذا اگر کوئی مسلمان سفر یا بیماری کی حالت میں روزہ رکھ سکتا ہو اور یہ سمجھے کہ اس سے اسے زیادہ تکلیف اور دقت نہیں ہو گی تو اسے ضرور روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ کفارہ ادا کرنے یا قضا روزہ رکھنے سے فرض تو پورا ہو جائے گا لیکن شاید وہ رحمتیں یا برکتیں نصیب نہ ہو سکیں جو رمضان المبارک میں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک (خصوصی) خطبہ ارشاد فرمایا: آپﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے، (یہ) مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے۔ جو (خوش نصیب) اس مہینے میں اللہ کی رضا کے لیے کوئی نفلی عبادت انجام دے گا، تو اسے دوسرے مہینوں کے(اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا تو اسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) ستر فرائض کے برابر اجر ملے گا‘‘ (شعب الایمان للبھیقی)
روزے کا بنیادی درس صبر، ایثار اور ہمدردی ہے۔ آ ج کل ہمارا ملکِ عزیز شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے، ان حالات میں ہمارے اردگرد، محلے، خاندان یا برادری میں ایسے ضرورت مندوں کی کمی نہیں جنہیں مزدوری نہ مل سکی ہو یا جو بیروزگار ہو گئے ہوں، لہٰذا ہمیں ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حسبِ استطاعت ان کی بھرپور مدد کرنا ہو گی۔ سب سے زیادہ حق ان لوگوں کا ہے جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں اور جو واقعی مستحق ہیں۔ ایسے سفید پوش خاندانوں کی مالی امداد ضرور کی جائے جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں بھی اپنے اردگرد موجود غربا و مستحقین کو دیگر پر فوقیت دینی چاہئے۔ اگر اس اصول کے تحت ہرکوئی زکوٰۃ و صدقات تقسیم کرے تو پورے ملک میں کوئی بھی بھوکا نہ رہے گا۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ
پبلک ریلیشننگ اور تعلقات بڑھانے کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس میں انہی مخصوص لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو خود بھی اچھی سے اچھی افطاری کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ہمیں ایسی افطار پارٹیوں سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے یہ کھانا اور راشن وغیرہ غریب و مستحق افراد میں تقسیم کرنا چاہئے تاکہ اس سخت معاشی دور میں انہیں کچھ ریلیف مل سکے۔ اسی طرح آج کل حکومت اور انتظامیہ غربا میں مفت آٹا تقسیم کر رہی ہیں‘ اب تک کم و بیش دس افراد لائنوں میں لگ کر‘ بھیڑ اور بھگڈر سے ہلاک ہو چکے ہیں، لہٰذا کوئی ایسا میکانزم بنایا جائے کہ لوگوں کو باعزت طریقے اور سہولت کے ساتھ مفت آٹا مل سکے۔ ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ دس کلوگرام آٹے کا ایک تھیلا حاصل کرنے کی تگ و دو میں خاندان کا واحد کفیل اپنی جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
موجودہ سائنسی دور میں جہاں انسان کے پاس اپنی ذات کے لیے وقت نکالنا اور اپنی صحت پر توجہ دینا مشکل ہو چکا ہے‘ ان حالات میں رمضان المبارک کا ماہِ مقدس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک خاص تحفے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مہینے میں ہم روزہ رکھ کر جہاں اللہ پاک کے حکم کی تعمیل کر کے اس کی لاتعداد رحمتیں اور برکتیں سمیٹ سکتے ہیں، وہیں روزے کی حالت میں قدرتی طور پر پرہیز اور ڈائٹنگ کا فائدہ اٹھاتے نظام انہضام کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ معدے اور پیٹ کی سینکڑوں بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ اپنی جسمانی ساخت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ روزے کا عمل جسمانی چربی کو پگھلاتا اور وزن کو کم کرتا ہے، لیکن وزن میں کمی اس وقت ہو گی جب انسان اپنے حراروں کے حصول (کیلوریک اِن ٹیک) کو محدود رکھے گا۔ اگر وہ رمضان میں مرغن غذائوں کا استعمال زیادہ کرے، چکنائی والی چیزیں زیادہ لے تو وزن کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گا۔
آج پوری دنیا میں وزن کم کرنے کے لیے لوگ مکمل فاقہ کرتے ہیں، یا انہیں مختلف مخصوص غذائوں کی ڈائٹ دی جاتی ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک ایسا مہینہ عطا فرما دیا ہے جس میں ہم اس کے حکم کی تعمیل میں بارہ سے چودہ گھنٹے تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ روزہ خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے حصول کا ذریعہ تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ یہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا ہے، آنکھوں کو روشن کرتا ہے، بصارت کو تیز کرتا ہے۔ روزے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کی قوتِ ارادی کو بڑھاتا ہے،
جو لوگ قوتِ ارادی کی کمزوری کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دماغی اور ذہنی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں‘ روزے ان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکیں۔ روزہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں بھی مفید اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ جب انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمونز جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول ہونے اور جسم کے اندر پانی کی مقدار ایک خاص سطح پر رہنے سے دل کی بیماریاں کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا خدشہ کم ہو جاتا ہے، ایسے افراد میں ہارٹ فیل کے خدشات بھی خاصے کم ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ عمومی حالات میں بھی دل کے مریضوں کو تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا ہے تاکہ ان کی صحت بہتر رہے۔ امریکہ اور یورپ کے متعدد ملکوں میں اب یہ ایک عام طریقۂ علاج بن چکا ہے۔
یقینا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘ جو زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ جدید طبی سائنس جو باتیں آج تحقیقات کے بعد ثابت کر رہی ہے‘ وہ تقریباً ساڑھے چودہ سو برس قبل اسلام بتا چکا ہے، مثلاً پانی بیٹھ کر اور تین سانس میں پینا سنت نبوی ہے لیکن یہ بات جدید سائنس نے بہت بعد میں بتائی کہ پانی بیٹھ کر اور آرام سے پینا ہی صحت کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ اسلامک میڈیکل سائنس کے مطابق انسانی صحت کا راز قرآن حکیم کی تین آیات میں ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی ایک سنسنی خیز تحقیق ہے جسے پڑھ کر ہم ہر بیماری سے بچ سکتے ہیں۔ مصر کے ماہر غذائیات (Nutritionist) اور موٹاپے کے معالج (Bariatric consultant) ڈاکٹر عماد فہمی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انسانی صحت کا راز قرآنِ مجید کی تین آیات میں ہے، وہ آیات یہ ہیں۔
1۔ ''کھائو، پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو‘‘ (سورۃ الاعراف: 31)۔ اس کی تشریح میں ڈاکٹر فہمی کہتے ہیں کہ اکثر ڈاکٹر نشاستہ (carbohydrates) اور چکنائی (fats) سے منع کرتے ہیں حالانکہ یہ دونوں چیزیں انسانی صحت کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، اصل چیز جس سے منع کیا جانا چاہیے‘ وہ حد سے تجاوز ہے؛ یعنی ضرورت سے زیادہ خوراک استعمال نہیں کرنی چاہئے۔
2۔ ''اور (ہم نے) ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی‘‘ (سورۃ الانبیاء: 30)۔ اس کی تشریح میں ڈاکٹر فہمی بتاتے ہیں کہ پیاس لگے یا نہ لگے‘ پانی ضرور پینا چاہیے۔ طبی معیار کے مطابق ہر شخص اپنے وزن کے ہر ایک کلو پر 30 ملی گرام پانی پیئے۔ مثلاً اگر کسی کا وزن 70 کلوگرام ہو تو اسے چاہیے کہ ہر روز 2100 ملی گرام یعنی 2 لیٹر، 100 گرام (تقریباً 8 گلاس) پانی روزانہ پیئے۔ یہ جگر، گردوں اور دل کی اچھی کارکردگی کے لیے بہت ضروری ہے۔
3۔ ''اور رات کو (ہم نے) پردہ پوش اور دن کو معاش کا وقت بنایا‘‘ (سورۃ النباء: 10 تا 11)۔ ڈاکٹر فہمی کہتے ہیں کہ رات کو جلدی سویا جائے اور صبح جلدی اٹھا جائے۔ یہ سب سے بہترین نسخہ ہے جو آپ کو سمارٹ بھی رکھے گا اور آپ بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزاریں اور اسلامی طرزِ معاشرت کو اپنا کر اپنے جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھیں۔ یہ ماہِ مقدس جہاں اللہ پاک کو راضی کرنے کا بہترین موقع ہے وہیں بیماریوں سے نجات کا ایک ذریعہ بھی ہے۔