نظام انہی سے چل رہاہے

وطن عزیز میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کی اصل باگ ڈور افسر شاہی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس بات میں کچھ زیادہ شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے کیونکہ بیورو کریسی کے وسیع اختیارات، پُرتعیش سہولتیں اور شاہانہ طرزِ زندگی ایک عام آدمی کے سامنے کچھ ایسا ہی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ کسی عام سرکاری محکمے کے گریڈ سترہ کے افسر کی تنخواہ، اس کی گاڑی اور اس کے رہن سہن کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس کے اخراجات اس کی حقیقی آمدن کے مقابلے میں زیادہ ہوں گے اور اثاثہ جات اس سے بھی کہیں زیادہ، جس سے شائبہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ اگرچہ بنا ثبوت کسی پر الزام نہیں دھرا جا سکتا مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اکثر کا دامن صاف نہیں ہوتا۔
چند ماہ قبل ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ سے ملاقات ہوئی۔ وہ روزانہ گھر سے سلاد اور فروٹ چاٹ لاتے اور دن بھر مہمانوں کو پیش کرتے رہتے۔ وہ اُن دنوں پنجاب کے ایک ضلع میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے تھے، ان کے دفتر میں تقریباً دو گھنٹے تک ان سے ملاقات رہی۔ اس دوران کئی سفارشی بھی آئے، شکایت کنندگان بھی پیش ہوئے، سائلین بھی اپنی درخواستیں لے کر حاضر ہوئے اور ان کے کچھ رشتہ دار بھی بڑی توقعات کے ساتھ مبارکباد دینے کے بہانے آئے۔ ڈی سی صاحب کی پہلی خوبی تو یہ دیکھی کہ نہ تو وہ کسی سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی اپنے‘ پرائے میں کوئی فرق کیا بلکہ سب کو وہ آئین و قانون کے مطابق حقائق سے آگاہ کرتے اور قانون کے دائرے سے نکلنے کے لیے اپنی بے بسی اتنی خوبصورتی سے بیان کرتے کہ سامنے والا نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو جاتا۔ سائلین کے دلوں کا حال تو اللہ پاک ہی جانتا ہے لیکن بظاہر سب ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوتے۔
اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے سب کو بے فیض واپس بھیجا بلکہ جائز اور قانونی کام کے لیے آنے والوں کو ان کی توقع سے کچھ زیادہ ہی نوازا۔ یہی ایک اچھے، کامیاب اور ایماندار افسر کی نشانی ہوتی ہے۔ اس ملاقات میں انہوں نے انکشاف کیا کہ اعلیٰ افسران کا مختلف ٹھیکہ جات اور بعض دیگر امور میں مبینہ طور پر دس سے بارہ فیصد (غیر قانونی) کمیشن ہوتا ہے۔ انہوں نے برملا اظہار کیا کہ انہوں نے جب اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو اپنے ماتحت افسران اور عملے سے کہا کہ اکیلا میں اس روایت کو ختم نہیں کر سکتا‘ نہ میرے انکار سے کوئی فرق پڑے گا، اس لیے میرے حصے کا کمیشن مجھے دینے کے بجائے ویلفیئر فنڈ کے طور پر استعمال کیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کانام ضبطِ تحریر میں نہیں لا رہا‘ ورنہ ایسے ایماندار افسران کی تعریف نہ کرنا میرے نزدیک جرم کے مترادف ہے۔ اس تعیناتی کے کچھ ہی ہفتوں بعد خبر ملی کہ وہ تھوک کے حساب سے ہونے والے تبادلوں کی نذر ہو گئے ہیں۔
مذکورہ بالا واقعہ وہ زمینی حقائق ہیں جن سے اکثریت بخوبی واقف ہے۔ اعلیٰ افسران کی ایک نمایاں تعداد اپنے اختیارات اس طرح استعمال کرتی ہے کہ عوام خود کو ان کے سامنے ایک بے بس مخلوق تصور کرتے ہیں اور انہیں حاکم ہی نہیں بلکہ مالک سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں کرپٹ، کمیشن خور اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے افسران کی بڑی تعداد ہے وہیں قابل، ایماندار اور محنتی افسران کی بھی کمی نہیں اور شاید یہ سارا نظام انہی افسران کی بدولت چل رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اوراس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے رہائشی دونوں شہروں کے درمیان سرحدی شاہراہ آئی جے پرنسپل کی اہمیت کیساتھ ساتھ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے اس کی تباہ حالی سے بھی واقف ہیں۔ قریب دوسال قبل اس اہم ترین شاہراہ کی تعمیرِ نو کاکام شروع ہوا لیکن اس کی رفتار ایسی تھی جس نے مقامی لوگوں کو پہلے سے زیادہ پریشان کر کے رکھ دیا۔ پھر چند ماہ قبل اچانک تعمیراتی کام تیزہوا، سڑک کے زیر تعمیر حصے نہ صرف بہت تیزی سے مکمل ہوئے بلکہ اس کے درمیان گرین بیلٹ پر سبز گھاس، پھول اور پودے اس ترتیب اور مہارت سے لگائے گئے جن سے یہ گمان ہوتا کہ یہ چند روز پہلے نہیں بلکہ شاید کم ازکم پانچ‘ سات برس قبل لگائے گئے تھے۔ آئی جے پی روڈ کے دونوں اطراف کوڑے کرکٹ کے ایسے ڈھیر تھے جن سے اتنی بدبو اورتعفن پھیل رہا تھا کہ علاقے سے گاڑی میں بیٹھ کر گزرنا بھی محال ہو چکا تھا لیکن یہ ایک قابلِ تعریف عمل ہے کہ اب نہ صرف وہ گندگی کے ڈھیر صاف ہو چکے ہیں بلکہ اس جگہ پر شجرکاری کی گئی ہے اور چند ہفتے قبل والی متعفن سڑک پر اب قدم رکھتے ہی انتہائی خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ انسان جب یہ اچانک تبدیلی دیکھتا ہے تو سوچنے لگتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ علاقے کی کایا ہی پلٹ گئی۔ اس طرح کے جتنے بھی سوالات پر غور کیا جائے تو جواب میں موجودہ چیف کمشنر اسلام آباد و چیئرمین سی ڈی اے کا نام ہی ملتا ہے جنہوں نے چارج سنبھالتے ہی سب کو متحرک کر دیا۔ انہوں نے تمام بڑے ترقیاتی منصوبوں کے تعمیراتی کام کی رفتار کو پانچواں گیئر لگایا، وفاقی دارالحکومت میں خصوصی شجرکاری مہم کا آغازکیا، وفاقی ترقیاتی ادارے میں اندرونی احتساب کا عمل شروع کیا اور کئی دہائیوں سے غیر فعال دیکھ بھال کے شعبے (maintenance) کو متحرک کرکے تمام سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا جال بچھا دیا۔ اسلام آباد میں فوڈ اتھارٹی قائم یا فعال کرکے یہ بھی بتا دیا گیا کہ اگر کوئی افسر اپنے اختیارات کی روح کو سمجھتا ہو اور ایمانداری کے ساتھ انہیں استعمال کرے تو وہ بیک وقت متعدد مفادِ عامہ کے کام سرانجام دے سکتا ہے۔ یہاں پہلے بھی اربابِ اختیار موجودتھے، تمام مالی و انتظامی وسائل بھی دستیاب تھے بلکہ شاید موجودہ معاشی بحران سے کہیں زیادہ بہتر حالات تھے لیکن اس کے باوجود یہ کام پہلے کیوں نہ ہو سکے؟شاید اس لیے کہ پچھلوں میں کام کرنے کی اہلیت نہیں تھی یا وہ اپنے عہدے کی طاقت کو درست طور پر سمجھ ہی نہیں سکے تھے۔
یہ تو وفاقی دارالحکومت کی کہانی تھی اور ایک سینئر افسر کی‘ جو اس سے قبل بھی متعدد اہم انتظامی عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں لیکن ایسی ہی ایک مثال چند ہفتے قبل بیک وقت دو اضلاع تلہ گنگ اور چکوال میں نظر آئی جہاں پہلی بار ڈپٹی کمشنر تعینات ہونے والی خاتون افسر نے اپنی تعیناتی کے بعد مذکورہ دونوں اضلاع میں پرائس کنٹرول، صفائی اور لوگوں کے مسائل حل کرنے سمیت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے دیگر افسران کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ آج کل مفت سرکاری آٹے کی تقسیم میں جہاں بڑے بڑے اضلاع میں لوگوں کو شدید مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، وہیں مذکورہ دونوں اضلاع کی تمام تحصیلوں میں آٹے کی تقسیم کا عمل انتہائی احسن طریقے سے جاری ہے اور ابھی تک ایک بھی شکایت سامنے نہیں آئی۔ گزشتہ روز پنجاب کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے بتایا کہ صوبے بھر میں مفت آٹے کی تقسیم کے حوالے سے مذکورہ دونوں اضلاع سرفہرست ہیں۔ آبائی ضلع ہونے کے ناتے راقم الحروف نے علاقے کے ہر فرد سے ڈی سی صاحبہ کی تعریف ہی سنی ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے دفتر میں شہریوں کے مسائل سنتی ہیں اور پھر انہیں حل کرنے کے لیے ان مسائل کا فالو اَپ بھی رکھتی ہیں اور یہ سب کچھ کم از کم ان اضلاع کے مکینوں نے پہلی بار دیکھاہے۔
معاشرے میں چونکہ ہر طرح کی سوچ پائی جاتی ہے اور میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں‘ لہٰذا جانتا ہوں کہ اس تحریر کے حوالے سے ہر کوئی اپنے اپنے ظرف کے مطابق فیصلہ صادر کرے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ صرف مذکورہ بالا ہی نہیں بلکہ ان جیسے سینکڑوں قابل اور ایماندار افسران ہمارے اردگرد موجود ہیں جن کی بدولت یہ نظام چل رہا ہے۔ اگر سرکاری و عوامی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی و پذیرائی کی جائے تو اس سے نوجوان افسروں میں مقابلے کا مثبت رجحان پیدا ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ نااہل، کام چور اور بددیانت افسران کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں