پاکستان دنیا کے ان چند بڑے ممالک میں شامل ہے جو وسیع و عریض اور انتہائی زرخیز زرعی رقبے کے مالک ہیں۔ ہمارے ملک کی تقریباً پچاس فیصد افرادی قوت بالواسطہ و بلاواسطہ شعبہ زراعت ہی سے منسلک ہے۔ دنیا کا ایک بڑا نہری نظام ہمارے پاس ہے۔ ملک کے طول و عرض میں قدرت کی طرف سے ہمیں ایسی گرم، سرد اور معتدل آب و ہوا میسر ہوتی ہے جس میں ہر طرح کی فصلیں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہیں۔ گرمی، سردی، پت جھڑ، ساون، بہار یعنی سبھی موسم اور اتنے کثیر زرعی وسائل و مواقع ہونے کے باوجود پاکستان کو زرعی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں جو محض لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ ہماری نااہلی اورنالائقی کی مثال بھی ہے۔ پاکستان کی زرعی درآمدات سالانہ 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں اور ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم، چینی، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ موجودہ معاشی صورتِ حال میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری زرعی درآمدات، پٹرولیم درآمدات کے لگ بھگ ہونے کو ہیں تو ان حالات میں زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت کا جائزہ لینا ایک فطری عمل اور ایک بنیادی ضرورت بن جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کا زرعی شعبہ بانجھ اور زرعی رقبہ قابلِ کاشت نہیں رہا؟ یا پھر جدید وسائل کے نامناسب استعمال کی وجہ سے ہم زرعی پسماندگی کا شکار ہیں؟ درحقیقت ہم قدرت کے دیے ہوئے بے پناہ زرعی وسائل کو بروئے کار لا کر نہ صرف زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ زرعی اجناس برآمد کر کے کثیر زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم پاکستان کی اہم روایتی فصلوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں گندم، کپاس، گنا اور چاول وغیرہ کی منظور شدہ اقسام کی پیداواری صلاحیت پر بڑی بحث ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں تحقیقی اداروں سے جاری ہونے والی اقسام کم پیداواری صلاحیت کی حامل ہیں۔ ایک آدھ فصل کی حد تک تو یہ بات شاید درست ہو لیکن زیادہ تر فصلوں کی اقسام ہمارے ہاں بہترین پیداوار کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا ہمارے کاشتکار ان اقسام کو ان کی بھرپور صلاحیتوں کے مطابق بروئے کار لا رہے ہیں؟ پاکستان میں کپاس کی منظور شدہ اقسام کی پیداواری صلاحیت 40 من فی ایکڑ سے زائد ہے جبکہ ملک کی فی ایکڑ اوسط پیداوار ساڑھے چھ من سے بھی کم ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ اقسام بالکل اچھے نتائج نہیں دے رہیں، ہمارے کاشتکار جانتے ہیں کہ زیادہ تر دیہات کے ترقی پسند کسان انہی اقسام سے کم و بیش 30 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں کپاس کی سالانہ تقریباً 5 ملین بیلیں درآمد کی ہیں، اگر ہماری فی ایکڑ اوسط پیداوار محض 4 من فی ایکڑ تک ہی بڑھ جائے تو ہماری کاٹن درآمد صفر ہو جائے گی اور اس کا قومی معیشت کے علاوہ ٹیکسٹائل کی صنعت پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ کپاس کی پیداوار 4 من فی ایکڑ تک بڑھانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اگر کاشتکار کو جدید پیداواری ٹیکنالوجی کی سمجھ بوجھ ہو، مارکیٹ میں تصدیق شدہ اور خالص زرعی مداخل موجود ہوں اور ان کے حصول کے لیے کسانوں کے پاس مناسب مالی وسائل ہوں اور انہیں ان کے حصول کے لیے خوار نہ ہونا پڑے تو فی ایکڑ پیداوار اس سے بھی زیادہ بڑھائی جا سکتی ہے۔
یہی صورتِ حال دیگر اجناس کی ہے۔ تقریباً ساڑھے چار من فی ایکڑ گندم کی پیداوار بڑھانے سے ہم 4 ملین ٹن اضافی گندم حاصل کر سکتے ہیں جس کی قدر کم و بیش 2 ارب ڈالر ہے۔ چاول ہم پہلے ہی برآمد کر رہے ہیں۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھنے سے اضافی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ یہاں تیل دار اجناس (سرسوں، سورج مکھی، سویا بین) کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ کم و بیش 4 ارب ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ تیل دار اجناس کی سالانہ درآمدات پر خرچ ہو رہا ہے۔ ان درآمدات کو تیل دار اجناس کے زیر کاشت رقبے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کر کے کم کیا جا سکتا ہے۔ زیر کاشت رقبہ بڑھانے کے لیے مخلوط کاشت ایک کامیاب راستہ ہے، خصوصاً موسمی مکئی میں سویا بین کی مخلوط کاشت کر کے 8 سے 10 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔
صوبہ پنجاب میں 12 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر موسمی مکئی کاشت ہو رہی ہے۔ مخلوط کاشت سے 10 ملین ٹن سویابین حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سویا بین پاکستان میں نئی متعارف ہونے والی فصل ہے جس پر تحقیق جاری ہے۔ اگر ہم کوئی ایسی ورائٹی تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جسے بہاریہ مکئی میں بھی کاشت کیا جا سکے تو یہ ایک انقلابی قدم ہو گا۔دالوں کی مخلوط کاشت کے بھی وسیع امکانات موجود ہیں، خصوصاً گنے کی فصل میں دالوں کی مخلوط کاشت سے دالوں کے زیرِ کاشت رقبے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے جس سے دالوں کی درآمدات میں کمی کی جا سکتی ہے۔ موسمی کماد میں مونگ اور ماش جبکہ ستمبر کماد میں چنے اور مسور کی دالیں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہیں۔
وطن عزیز میں تقریباً 20 ملین ایکڑ قابلِ کاشت رقبہ غیر آباد ہے جس کی آباد کاری ممکن ہے۔ غیر آباد رقبے کو آباد کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پانی کی عدم دستیابی ہے۔ یہ مسئلہ ڈیموں اور نئے آبی ذخائر کی تعمیر سے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا طریقہ آباد زرعی رقبے کو ہموار کرنا ہے، زرعی زمینوں کو ہموار کر کے تقریباً 50 فیصد تک پانی بچایا جا سکتا ہے، ہموار زمینوں سے پیداوار بھی 10 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ زمین کی ملچنگ، بیڈ کاشت اور ڈرپ آبپاشی جیسے جدید ذرائع سے بھی 60 فیصد تک پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم نئے ڈیمز اور آبی ذخائر بنا لیں یا کاشتکاری کے اُن طریقوں کو اپنا لیں جن سے پانی کی نمایاں بچت ہوتی ہے تو پھر غیر آباد رقبوں کو آباد کرنا قدرے آسان ہو جائے گا۔
خیبر پختونخوا میں 70 ملین سے زائد زیتون کے جنگلی درخت موجود ہیں جن پر زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کو پیوند کیا جا سکتا ہے۔ اگر مقامی لوگوں کی شمولیت سے ہم پیوند کاری میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان زیتون کا تیل برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ جنگلی زیتون کے علاوہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں زیتون کے باغات بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً پوٹھو ہار کا علاقہ زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں قرار دیا جا چکا ہے۔ پوٹھوہار میں تقریباً ڈیڑھ ملین پودے لگائے جا چکے ہیں اور مزید بھی لگائے جا رہے ہیں۔ چولستان کا علاقہ انگور کی کاشت کے لیے موزوں قرار دیا جا چکا ہے، جہاں انگور کی کاشت کی حوصلہ افزائی کر کے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیا جا سکتا ہے، اس سے نہ صرف صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ جنوبی پنجاب کے مقامی لوگوں کی سالانہ آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔
پاکستان میں زرعی زمینیں وراثتی قانون کے تحت نسل در نسل تقسیم ہوتی جا رہی ہیں جس سے فی کس ملکیتی رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹے زرعی یونٹس کو زرعی پیداواریت کے منافی سمجھا جاتا ہے لیکن اس صورتحال کو حکمت عملی کے ذریعے کامیابی میں بدلا جا سکتا ہے۔ چین میں فی کس ملکیتی رقبہ دنیا میں سب سے کم‘ محض اڑھائی ایکڑ ہے لیکن وہاں ویلیو ایڈیشن کی مدد سے کاشتکاروں کی سالانہ آمدن بڑھائی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے وسیع تر امکانات موجود ہیں کیونکہ یہاں دیہی افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ زراعت میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کر کاشتکاروں کو نہ صرف خسارے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ بیروزگاری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کریں اور یہ جان لیں کہ ہمیں اپنی معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے زراعت کے شعبے پر نئے سرے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے لیے حکومت، انتظامیہ اور زراعت کے شعبے سے وابستہ محکموں کو خصوصی توجہ دینا ہو گی اور ہمیں اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہو گا۔ (جاری)