2018ء کے بعد سے امریکی ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے اوراب تو حالات اس سطح پرپہنچ چکے ہیں کہ ملکی کرنسی کی قدر بحال ہونے کے دور دور تک آثار بھی نظر نہیں آرہے۔ موجودہ وفاقی وزیرخزانہ جب وطن واپس آئے تھے تو انہوں نے قوم کو بہت جلد بڑی خوش خبریاں سنانے کے اعلانات کیے تھے مگر آج تک پاکستانی قوم ان خوش خبریوں کا انتظار کررہی ہے۔ ڈالر کی مسلسل اونچی اڑان اور پاکستانی روپے کی بے قدری سے شاید برآمدکنندگان اور بیرونِ ملک مقیم افراد ہی خوش ہوں کیونکہ ان کاسرمایہ بیٹھے بٹھائے بڑھ رہاہے لیکن عام پاکستانی اور درآمد کنندگان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہِ راست اثر ان اشیا کی قیمتوں پر پڑتا ہے جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیںمثلاً کمپیوٹرز، گاڑیاں اور موبائل فونز وغیرہ۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے ان تمام اشیا کی قیمتوں میں فوراً اضافہ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے( آئی ایم ایف) اور عالمی بینک سمیت غیر ملکی قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ ہم نے ادائیگی ڈالروں میں کرنا ہوتی ہے لہٰذا ڈالر جتنا مہنگا ہوتا جاتا ہے، اسی حساب سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم بھی بڑھتا جاتاہے۔روپے کی مسلسل بے قدری سے جہاں ایک طرف غیرملکی قرضے خطرناک حد تک بڑھتے جارہے ہیں‘ دوسری طرف آئی ایم ایف اپنی شرائط بھی مزید سخت کرتا چلا جارہاہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ پاکستان کو ان مشکل حالات میں بلیک میل کیا جارہاہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کے نویں جائزہ کے لیے بیشتر شرائط پوری کر دی ہیں، نویں جائزے پرسٹاف لیول معاہدے کی خاطر 170 ارب روپے ٹیکس منی بجٹ کے ذریعے لگائے گئے۔پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ 9 فروری کو ہونا تھا جوآج (9مئی) تک بھی نہ ہوسکا اورمسلسل تاخیر کا شکار ہے۔آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاسوں کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے،آئی ایم ایف کے17 مئی تک کے اجلاس میں پاکستان کا معاملہ ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔اس کا مطلب ہے کہ سٹاف لیول معاہدہ نہ ہونے پر عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈنگ بھی نہیں ہو گی۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ ہونے پر بجٹ سازی کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔آئی ایم ایف دوست ملکوں کی فنڈنگ کی یقین دہانی پر بھی مطمئن نہیں ہوا، جبکہ پاکستان نے مزید ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ کا پروگرام بھی دیا مگر وہ بھی ناکافی قرار دیا گیا۔عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان میں پالیسی ریٹ مزید بڑھانے کا مطالبہ کردیاہے،حالانکہ اس وقت پاکستان میں شرحِ سود پورے براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق افراطِ زر میں استحکام لانے کیلئے پالیسی ریٹ مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔عالمی ادارے کی آئوٹ لک رپورٹ کے مطابق رواں برس مہنگائی کی اوسط شرح 27 فیصد تک رہے گی، موجودہ مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو صفر اعشاریہ 5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق اس سال پاکستان کا بجٹ خسارہ 6.8 فیصد جبکہ اگلے سال 8.3 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے۔ پاکستان میں اس وقت شرح سود 21 فیصد ہے۔
گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران امریکی ڈالر انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ‘ دونوں میں مہنگا ہوا ہے۔ انٹر بینک میں ڈالر 16 پیسے مہنگا ہونے کے بعد 283 روپے 75 پیسے کا ہو گیا جبکہ گزشتہ کاروباری ہفتے کے اختتام پر انٹر بینک میں ڈالر 283 روپے 59 پیسے پر بند ہوا تھا۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 50 پیسے مہنگا ہونے کے بعد 287 روپے 50 پیسے کا ہو گیا۔گزشتہ کاروباری ہفتے کے اختتام پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر 287 روپے کا تھا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں گزشتہ روز کاروبار کا منفی رجحان دیکھنے میں آیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 412 پوائنٹس کی کمی سے 41 ہزار 829 پر آ گیا۔گزشتہ کاروباری ہفتے کے اختتام پر 100 انڈیکس 42 ہزار 241 پوائنٹس پر بند ہوا تھا۔
آئی ایم ایف نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس وقت ہمارے ہمسایہ ممالک کی معیشت بھی تنزلی کا شکارہے،معاشی ترقی میں بھارت کو پچھاڑنے والا بنگلہ دیش بھی آئی ایم ایف سے مدد مانگنے پر مجبور دکھائی دیا، لیکن چونکہ اس کی معاشی صورتحال ہم سے بہترہے لہٰذا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کے بورڈ نے بنگلہ دیش کے لیے 4.7 بلین ڈالر کے امدادی پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد بنگلہ دیش آئی ایم ایف کی نئی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش کسی زمانے میں جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت تھا اور صرف دو سال قبل بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کے معاملے میں بھارت کو مات دی تھی مگر پھر بنگلہ دیش معاشی بدحالی کا شکارہونے لگا اوراسے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا پڑ گیا۔ ایک وقت تھا کہ بنگلہ دیش اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر پر فخر کرتا تھا لیکن اب اسے بھی ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش کی معیشت کے زوال کی وجہ طویل عرصے سے معاشی تنزلی‘ اداروں کی کمزوری اور سیاسی مرکزیت ہے۔بنگلہ دیش کی معیشت کو ایک طرح سے خطرہ ہے اور اگر اس کا صحیح طریقے سے انتظام نہ کیا گیا تو وہ دبائو میں آجائے گی۔ اگر موجودہ حالات کو درست طریقے سے نہ سنبھالا گیا تو یقینا بنگلہ دیش کی معیشت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ معیشت کی تین اکائیاں ہیں؛ گھریلو آمدن‘ صنعتی آمدن اور حکومتی آمدن جبکہ اس وقت بنگلہ دیش میں ان تینوں ہی کو مالی مدد کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے اور آئی ایم ایف کے بنگلہ دیش کو مجوزہ قرض پر پوری دنیا میں بات ہو رہی ہے۔روس یوکرین جنگ سے پہلے ہی بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر گرنے لگے تھے۔ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے سے بنگلہ دیش میں بھی مہنگائی بڑھی۔بنگلہ دیش میں لوگوں کی گھریلو آمدن کم ہو رہی ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ غیر رسمی شعبوں میں کام کر رہے ہیں اور یہاں کوئی مضبوط سماجی تحفظ کا نظام نہیں ہے۔کورونا کی وبا کے دوران بنگلہ دیش میں لوگوں کی آمدن کم ہو گئی تھی اور انہوں نے اخراجات کے لیے قرض لینا شروع کر دیا تھا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گھرانوں کی معیشت کو تباہ کر دیا اور یہ بحران مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔
موجودہ عالمی معاشی صورتحال میں بظاہر آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور ماہرین اقتصادیات کو متبادل ذرائع کو فروغ دینا ہوگا ۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنی زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے زیرِکاشت رقبے میں اضافہ کرنے کیساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری بنانا ہو گا۔ حکومت زرعی اشیا پر ٹیکس ریٹ سب سے کم کرے اور برآمدات بڑھانے کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں تاکہ ہمارے کسان دوبارہ اس طرف راغب ہو سکیں۔ دوسری طرف ہمیں چائنہ پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) پر کام کی رفتار کو تیز کرناہوگا اور دوست ملک چین کے تحفظات کو فوری طورپر دور کرتے ہوئے اس اہم ترین منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو قومی مفاد کی خاطر فی الفور دور کرناہوگا۔ سی پیک منصوبہ جتنا جلدی مکمل ہوگا‘ پاکستان کے پاس ایک اورمتبادل ذریعہ آمدن اتنی ہی جلدی شروع ہوجائے گا جس کے بعد ہمارا غیرملکی قرضوں پر انحصار خودبخود کم ہوتا چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنی مقامی صنعت کو فروغ دینا ہوگا تاکہ لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور درآمدات میں بھی کمی آسکے۔ پاکستان میں کون کون سے مقامی صنعتوں کو فروغ دے کر ہم اپنی ضروریات پوری کرنے کیساتھ ملکی برآمدات میں نمایاں اضافہ کرسکتے ہیں‘ اس حوالے سے آئندہ کسی کالم میں تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔(جاری)