شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
احادیث شریف میں شہادت کو سب سے اعلیٰ نیکی اور بہترین موت قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ حکیم اور احادیث شریف میں شہادت کے لیے بعض خصوصی فضائل کا ذکر ملتاہے، جیسے شہید کا زندہ ہونا، شفاعت کا حق حاصل ہونا اور گناہوں کی مغفرت۔ فقہاء کے مطابق شہید کے لیے غسل اور کفن کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے بدن (میت) کو چھونے پر ''غسل مسِ میت‘‘ بھی واجب نہیں ہوتا۔ البتہ یہ جنگی شہدا کے ساتھ خاص ہے۔ دیگر شہدا ان فضائل میں شامل نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ فقہی اصطلاح میں شہید اُس مسلمان کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے میدان میں کافروں کے ہاتھوں قتل ہو۔ تفسیر نمونہ میں شہادت کیلئے دو معنوں کا ذکرہے؛ خاص معنی وہی فقہی معنی ہے اور عام معنی یہ ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارا جائے یا مر جائے، اسی طرح وہ طالب علم جو طلب علم کی راہ میں دنیا سے چلا جائے، یا کوئی بیماری کے بستر پر جان دیدے اس حال میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی معرفت رکھتا تھا، حملہ آورں کے مقابلے میں اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وغیرہ کو بھی روایات میں شہید گردانا گیا ہے۔
شہادت عربی زبان میں حضوری اور مشاہدہ کے معنی میں مستعمل ہے، اس اعتبار سے شہادت کی کچھ وجوہاتِ تسمیہ بھی ذکر ہوئی ہیں مثلاً رحمت الٰہی کے فرشتے شہید کی فداکاری اور جانبازی کے گواہ ہیں، خدا اور فرشتے اس کے بہشت میں داخل ہونے کی گواہی دیں گے اور وہ اپنے پرودگار کے نزدیک زندہ ہے اور ایسی چیزوں کو مشاہدہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے۔ قیامت کے دن شہید دوسروں کے اعمال پر شاہد ہے۔ آیات اور روایات میں شہادت کے لیے کچھ آثار ذکر ہوئے ہیں۔ قرآنِ حکیم کی روشنی میں‘ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔ اسی طرح شہید قیامت کے دن انبیا کرام اور علما کے ساتھ شفاعت کریں گے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب شہید کے بدن سے خون کا پہلا قطرہ جاری ہوتا ہے تو اس کے حق الناس کے علاوہ باقی تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ شہید کے حقوق العباد کے بارے میں بھی کہا گیا کہ اگر ان کے ادا کرنے میں اس نے قصداً کوتاہی نہیں کی تو اللہ تعالیٰ اس حق کو جبران کرتا ہے اور حق والا اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جو گروہ سب سے پہلے بہشت میں داخل ہو گا‘ وہ شہدا ہیں۔
سورہ آل عمران کی آیات (169تا 171) میں موت کی بہترین صورت شہادت کو قرار دے دیا گیا ہے ۔ یعنی اس سے بڑھ کر موت کی اور کون سی اچھی صورت ہو سکتی ہے کہ جس میں خدا شہیدوں کی شہادت کے بعد کی کیفیت کو بیان کر رہا ہے کہ یہ لوگ شہادت کے بعد خداکے لطف و کرم سے رزق پاتے اور خدا کی عنایات اور فضل سے خوش اور مطمئن ہیں اور اپنے اہلِ خانہ، عزیزوں اور دوستوں کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ ان کا غم اور افسوس نہ کریں اور ان کی فکر نہ کریں ۔ خدا نے انہیں بہترین نعمتوں اور اپنے خصوصی فضل سے ہمکنار کیا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے، ان سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے، پوچھا جائے گا یہ کون ہیں؟ جواب ملے گا: یہ شہدا ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی۔ (طبرانی، مجمع الزوائد)
ہماری ملکی تاریخ میں وطن کی مٹی کا قرض ادا کرنے والے شہدائے پاک فوج کی لازوال قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی کی جنگ کے دوران وطن پر جان نچھاور کرنے والے جانبازوں کو پوری قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ روایتی جنگ ہو یا دہشت گردی کا عفریت‘ پاک فوج نے ہمیشہ وطنِ عزیز کو امن کا گہوارا بنانے کے لیے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔ وطن کی مٹی کے یہ گوہرِ نایاب کبھی سپاہی رضوان محمود کی صورت میں ماں کا فخر بنے تو کبھی میجر دانش نے اپنی قربانی سے وطن کو سرخرو کیا۔ کبھی لانس نائیک محمد عامر نے شہادت کی تمنا کی اور جامِ شہادت کو نوش کیا تو کبھی حوالدار محمد اکرم نے ملک و قوم کے لیے اپنی وفائوں کا حق ادا کیا۔کبھی نائیک عمران کی شہادت نے دل دہلایا تو کبھی کیپٹن کاشان کی ماں کے آنسوئوں اور اس کے والد کے حوصلوں نے کوہِ صبر کو بھی حیران کر دیا۔ کیپٹن عفان کی ذوق خدائی اور لذت آشنائی کوئی دیکھے تو کوئی حوالدار محمد نوید کی جرأت سے سبق سیکھے۔ شہادت پر الحمدللہ کا درس دینے والا جری حوالدار اسلم ہو یا کیپٹن سلمان سرور‘ جس کی زندگی کا مقصد ہی وطن پر جانثار ہونا رہا۔ گویا وہ کیپٹن صغیرعباس کی دکھیا ماں کا غم ہو یا اس کے والد کا حوصلہ یا پھر میجر شجاعت حسین کا وطن کے عشق میں سر بکف ہو کر جام شہادت نوش کرنا۔ یہ سب شہید ہمارے محسن ہیں جنہوں نے اپنا آج پاکستان کے مستقبل پر قربان کر دیا۔ دو دہائیوں سے دہشت گردوں کے خلاف جس بھرپور انداز میں پاک فوج نے کامیاب آپریشنز کیے ہیں‘ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپریشن راہِ راست ہو، ضربِ عضب ہو یا کہ رد الفساد، پاک فوج کے افسران سے لے کر جوانوں تک‘ تمام شہدا کا ایک طویل سفر ہے۔ سلام ہے شہدائے پاک فوج کے لواحقین کو‘ ان والدین کو جنہوں نے اپنے لختِ جگر اس مٹی کی محبت میں بخوشی قربان کر دیے اور اپنے بچوں کی شہادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے۔
تاریخ میں وہی قومیں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتی ہیں جو اپنے شہدا کو ہمیشہ یاد کرتی اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 9 مئی کے واقعات نے پوری قوم کو غمزدہ کر دیا ہے کیونکہ ہمارے وہ محسن‘ جنہوں نے ہماری حفاظت کے لیے اپنی جانیں تک نچھاور کر دیں‘ ہمارے اندر چھپے ہوئے دشمن کے آلہ کاروں نے ان شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرکے پوری پاکستانی قوم کا دل دکھایا ہے۔ ایسا کرنے والے یقینا کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ خبر ہے کہ کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کے مجسمے کو آگ لگانے والے دو ملزمان مردان سے گرفتارکر لیے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزمان نے پہلے مجسمے کو توڑا اور پھر اسے آگ لگا دی تھی۔ اس سے قبل 17 مئی کو اسی واقعے میں ملوث ایک اور ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد مردان میں مظاہرے کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کی بے حرمتی کی گئی تھی، اسے توڑ کر نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ پوری قوم نے ان ملزمان کی گرفتاری کی خبر پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ افراد جلد اپنے کیے کو پہنچیں گے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے ایک روز قبل لاہور کا دورہ کیا، انہوں نے یادگارِ شہدا پر پھول رکھے، اس موقع پر انہیں 9 مئی‘ یوم سیاہ کے واقعات پر بھی بریفنگ دی گئی۔ دورانِ اجلاس شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس موقع پر سپہ سالار عساکر پاکستان نے کہا کہ سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔ انہوں نے جناح ہائوس اور ایک عسکری تنصیب کا دورہ بھی کیا اور کہا کہ پاکستان کی طاقت اس کے عوام ہیں، فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش ریاست کے خلاف عمل ہے جو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اپنے شہدا کی حرمت کے حوالے سے یک زبان ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین سمیت کئی سینئر رہنمائوں کی جانب سے ان واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ پوری قوم نے یک آواز ہو کر جس طرح اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے‘ توقع ہے کہ آئندہ ہمارے کسی دشمن کو بھی ایسی حماقت کی جرأت نہیں ہو گی۔