ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انہی ممالک نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور توانائی بحرانوں پر قابو پایا ہے جنہوں نے سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال یقینی بنایا ہے۔ ایسے بیشتر ممالک مسلم تو نہیں لیکن وہاں کے لوگوں نے اپنا نظام الاوقات اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنایا۔ وہاں فجر کی نماز تو پڑھی جاتی ہے یا نہیں لیکن لوگ اپنے کام و کاروبار کے لیے علی الصباح گھروں سے نکل جاتے ہیں اور طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی اپنے کام میں مگن ہو جاتے ہیں۔ یہ قومیں دن بھر خوب محنت کرتی ہیں، دن کی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں اور پھر شام کو مغرب کی نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں‘ غروبِ آفتاب سے قبل اپنے کام کاج سے فارغ ہو جاتی ہیں۔ یوں انہیں مصنوعی روشنیوں، برقی قمقموں اور زیادہ پاور والی سٹریٹ لائٹس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور انہیں بجلی کے بغیر ہی دن کی روشنی میں کام کرنے کے لیے کم از کم بارہ گھنٹے میسر آ جاتے ہیں جو دنیا بھر میں کسی بھی عام کاروبار کے لیے کافی ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں کسی بھی شخص کے کام کرنے کے اوقات عمومی طور پر آٹھ گھنٹے مقرر ہیں اور اگر کوئی فرد زائد کام کرے یعنی اوور ٹائم لگائے‘ تو بھی وہ بارہ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں بھی متعدد بار دکانیں اور کاروباری مراکز رات کو جلد بند کرنے کے حوالے سے فیصلے ہوئے، کئی بار ان پر عمل درآمد بھی شروع ہوا مگر پھر آہستہ آہستہ ہم دوبارہ غلط ڈگر پر چڑھ گئے۔
وفاقی حکومت نے توانائی کی بچت کے لیے ایک بار پھر دکانیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں دکانیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ ہوا۔ کمرشل ایریاز بھی 8 بجے بند ہو جائیں گے۔ پالیسیاں تو ہم پہلے بھی بہت بناتے رہے ہیں لیکن اصل بات تو عمل درآمد کی ہے۔ اللہ کرے کہ اب ہی حکومت اس پر سو فیصد عمل کرانے میں کامیاب ہو جائے؛ البتہ اس کے لیے عوام کو بھی حکومت کا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ کوئی بھی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہم بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریاں نہ سمجھیں۔ دراصل توانائی بچت پالیسی کا اعلان موجودہ حکومت نے گزشتہ برس کے اواخر میں کیا تھا لیکن اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مخالف سیاسی جماعت کی حکومتیں ہونے کے باعث اس قومی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس سے قبل بھی بجلی شارٹ فال کے فوری اور آسان حل کے لیے حکومت نے کئی بار سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے اور رات کو 70 فیصد تک غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کے لیے کاروباری مراکز رات کو جلد بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، کئی بار اس پالیسی پر کامیابی سے عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن پھر نجانے کیوں اس فیصلے پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ حالانکہ یہ واحد پالیسی تھی جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہو سکتی تھی بلکہ قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر سے پہلے کھلتی ہی نہیں اور پھر کم از کم نصف شب تک تمام بازار اور شاپنگ مالز کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی کا لوڈ 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
وفاقی حکومت نے دسمبر 2022ء میں ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات 10 اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ساتھ ہی کفایت شعاری کیلئے بھی پلان دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے وفاقی وزرا نے کہا تھا کہ دنیا میں واحد ملک پاکستان ہی ہے جہاں رات دیر تک مارکیٹس کھلی رہتی ہیں، تاجر بھی ہمارے بھائی ہیں، لیکن ہمیں توانائی بحران حل کرنے کے لیے اپنے کاروبار میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہو گا۔ توانائی کی بچت کا یہ قومی پروگرام سنگین معاشی صورتحال کے تناظر میں ہمارا معاون ثابت ہو گا جبکہ ہمیں اپنی عادتوں میں بھی تبدیلی لانا ہو گی۔ بلاشبہ توانائی کی بچت اور کفایت شعاری پروگرام میں ملک کی معاشی نجات ہے، توانائی کی بچت کے سوا ہمارے پاس سردست کوئی راستہ نہیں ہے‘ ہمیں اپنے وسائل کے ضیاع کو بہرصورت روکنا ہو گا۔
اب حکومت نے بڑھتے ہوئے توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے دوبارہ بعض اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے توانائی شعبے کی اصلاحات کو بجٹ کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کے زیر صدارت توانائی شعبے کے حوالے سے بجٹ تجاویز پر اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم سے کم کر کے مرحلہ وار متبادل ذرائع سے بجلی کے نئے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔آئندہ بجٹ میں لائن لاسز اور بجلی چوری کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات شامل کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے جبکہ ونڈ اور شمسی توانائی کے منصوبوں کو بھی بجٹ میں شامل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اجلاس میں بجلی کے لائف لائن اور کم کھپت والے صارفین پر بلوں کا کم سے کم بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، نیز وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ پاور ٹرانسمیشن کے منصوبوں کی جلد تکمیل یقینی بنائی جائے، لائن لاسز اور بجلی کی چوری کے سدباب کیلئے آئندہ بجٹ میں ٹرانسفارمر میٹرنگ منصوبے کو شامل کیا جائے اور ملک بھر میں جاری سولرائزیشن کے منصوبوں کی رفتار کو تیز کیا جائے، برآمدی صنعتوں کی ترجیحی بنیادوں پر توانائی کی ضروریات پوری کی جائیں، بجٹ میں پن بجلی کے جاری منصوبوں کی جلد تکمیل کو ترجیح دی جائے۔ اجلاس میں سرکاری عمارتوں کی سولرائزیشن کے ملک گیر جاری منصوبوں پر پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بتایا گیا کہ سرکاری عمارتوں کی سولرائزیشن کے بڈنگ کے چار مرحلے مکمل کیے جا چکے ہیں، متعدد عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ اجلاس کو برآمدی صنعتوں کو بلاتعطل گیس اور بجلی فراہم کرنے کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔
بلاشبہ وفاقی حکومت کے دونوں فیصلے موجودہ حالات اور ملکی ضروریات کے عین مطابق ہیں لیکن ان پر حکومت کو خراجِ تحسین اسی وقت پیش کیا جا سکے گا جب ان پر عمل درآمد بھی ہو گا کیونکہ جیسے پہلے عرض کی‘ ہمارے ہاں اچھی اچھی پالیسیاں تو پہلے بھی بنتی رہی ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کے نفاذ کے اعلانات بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان پر صحیح طریقے سے عملدرآمد نہیں ہو پایا جس کی وجہ سے ان کی افادیت غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ اس وقت گرمی کا زور خاصا بڑھ چکاہے کیونکہ جون اور جولائی پاکستان میں گرم ترین مہینے ہوتے ہیں۔ جوں جوں گرمی مزید بڑھے گی‘ بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوتا جائے گا جس سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھتا چلا جائے گا کیونکہ ہمارے پاس بجلی ضرورت سے کہیں کم دستیاب ہے۔ حکومت نے دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان پہلے بھی کئی بار کیا ہے لیکن کاش! اب ہی ایسا ہو جائے اور رات آٹھ بجے تک میڈیکل سٹورز کے علاوہ تمام کاروبار بند ہو جائیں، ریسٹورنٹس اور شادی ہالز بھی مقررہ وقت پر بند کر دیے جائیں۔ اس اقدام سے نہ صرف توانائی کی بچت ہو گی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا، بجلی سستی ہو گی بلکہ ہماری قوم میں نظم وضبط بھی پیدا ہو گا۔
آج کل ہمارے ملک میں خصوصاً بڑے شہروں میں کوئی کاروبار دوپہر بارہ بجے سے پہلے کھلتا ہی نہیں اور پھر رات بارہ سے پہلے بند نہیں ہوتا‘ جس کی وجہ سے ہمیں شام کے بعد 70 فیصد تک اضافی بجلی کی ضرورت پڑتی ہے، اس وقت برقی روشنیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں کمرشل بجلی کا استعمال گھریلو بجلی سے کہیں زیادہ ہے، لہٰذا اگر حکومت توانائی بچت پالیسی پر مکمل طور پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہو گئی تو سمجھ لیں کہ ہم تونائی بحران کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مشکلات سے بھی نکل سکتے ہیں اور ہمارے پاس ضرورت سے زائد اور سستی بجلی موجود ہو گی۔ اب تو حکومت کو صوبوں میں مخالف سیاسی جماعتوں کا بھی سامنا نہیں ہے‘ کاش اب ہی اس پالیسی پر عملدرآمد ہو جائے۔