ایک زمانہ تھا کہ عوام ریلیف کے اعلانات کے لیے بجٹ کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ایک عام آدمی کی سوچ یہ ہوتی تھی کہ حکومت بجٹ میں امیروں پر ٹیکس لگائے گی اور غریبوں کے لیے مراعات کا اعلان کیا جائے گا۔ پہلے پہل چونکہ سوشل میڈیا کا تو تصور بھی نہیں تھابلکہ ہر جگہ ٹیلی وژن کی نشریات بھی میسر نہیں ہوتی تھیں‘ اس لیے لوگ رات کو ریڈیو کے ذریعے ہی سرکاری اعلانات سنتے اور اگلی صبح اخبارات کے ذریعے بجٹ کی تفصیلات پڑھتے تھے۔ جب حکومتوں نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا شروع کر دیا اور اس کے نتیجے میں مہنگائی بھی بڑھنے لگی تو لوگ بجٹ سے ریلیف کی توقع چھوڑ کر خوف کھانے لگے؛ تاہم صرف سرکاری ملازمین وہ خوش قسمت طبقہ ہے جن کے لیے ہر سال بجٹ خوش خبری کا ذریعہ بنتا ہے۔ سابق حکومت نے تو اپنے دور میں گورنمنٹ ایمپلائز کو مارنے سے بھگایا زیادہ‘ یعنی انہیں ریلیف کم ملا اور احتجاج زیادہ کرنا پڑا اور آخر میں مذاکرات کے نام پر 15 فیصد تک تنخواہیں بڑھا دی گئیں، حالانکہ اس کے مقابلے میں مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا لیکن پھر بھی سرکاری ملازمین کو خوش قسمت ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ نجی شعبہ تو خود ٹیکسوں کے بوجھ تلے اس طرح دب چکا ہے کہ اب پرائیوٹ شعبے میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ایک خواب بن چکا ہے۔
موجودہ حکومت نے بجٹ 2023-24ء میں مزدوروں کی تنخواہ سے متعلق ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کرنے کی منظوری دی ہے، اس سے قبل بجٹ میں کم سے کم تنخواہ 30 ہزار روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وفاقی بجٹ کی تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری (آئی سی ٹی) کی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کی جا رہی ہے۔ اسی طرح گریڈ 1سے16 تک کے سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہ میں 35 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگر موجودہ مہنگائی کے تناسب سے دیکھا جائے تو چھوٹے سے چھوٹے خاندان کا بھی 32 ہزار روپے میں گزارہ ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ شہروں میں رہائش پذیر لوگوں کی اکثریت کرائے کے مکانوں میں رہتی ہے اور آج کل راولپنڈی جیسے شہر میں کسی دور دراز اور تنگ و تاریک گلیوں والے محلے میں بھی چھوٹے سے چھوٹے مکان کا کرایہ دس ہزار روپے سے کم نہیں ہے، جبکہ بجلی اور گیس کا استعمال جتنا بھی کم سے کم کیا جائے اور شہری بچت کے لیے جتنی بھی مشکلات برداشت کرلیں لیکن مہینے بعد بجلی اور گیس کا بل پسینے نکال دیتا ہے۔ اس طرح ایک عام مزدور کی تنخواہ مکان کے کرائے اور یوٹیلیٹی بلوں میں ہی خرچ ہو جاتی ہے۔ کھانے پینے کے اخراجات، کپڑے اور جوتے تو اب عید پر بھی خریدنا ایک خواب بن چکا ہے جبکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا تو آسمان کو چھونے کے مترادف ہوتا جا رہا ہے۔
اگر ہمارے حکمران زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں تو کم سے کم تنخواہ 50 ہزار روپے بھی ناکافی ہے، لیکن یہاں ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ ریٹائرڈ پنشنروں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک کیوں کیا جاتا ہے اور تنخواہوں کے برابر پنشن میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اپنی زندگی کا سب سے اہم حصہ یعنی جوانی ملک و قوم کی خدمت میں گزارنے والے ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل و مشکلات کو ہمیشہ نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا ریٹائرڈ پنشنرز مہنگائی سے متاثر نہیں ہو رہے اور کیا انہوں نے یا ان کے خاندان والوں نے کچھ کھانا پینا نہیں؟ کیا ریٹائرمنٹ لینے والے تمام ملازمین کو حکومت نے گھر بنا کر دے دیے ہیں اور انہیں کرایہ ادا نہیں کرنا پڑتا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ضعیف العمری میں بزرگ شہریوں کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں، وہ کوئی پارٹ ٹائم جاب یا سائیڈ بزنس بھی نہیں کر سکتے، بڑھاپے کی وجہ سے انہیں صحت کے مسائل کا بھی زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی پنشن کا زیادہ تر حصہ علاج معالجے پر ہی خرچ ہو جاتا ہے، لہٰذا ان کے اخراجات زیادہ اور آمدن کے ذرائع محدود ہو جاتے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہئے کہ پنشن میں بھی تنخواہوں کے برابر ہی اضافہ کیا جائے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کی منظوری دینے والی وفاقی کابینہ نے بجٹ میں ریٹائرڈ پنشنرز کی پنشن میں صرف ساڑھے 17 فیصد اضافے کی منظوری دی ہے، جو میرے خیال میں بزرگ شہریوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے کیونکہ ریٹائرڈ ملازمین بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ بھی مہنگائی سے اتنے ہی متاثر ہو رہے ہیں‘ جتنے دوسرے طبقات اور سرکاری ملازمین۔ دوسری جانب وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار کی جا رہی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کسی نے بھی بزرگ شہریوں کے مسائل پر بات نہیں کی اور وفاقی کابینہ میں بیٹھے سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور وڈیروں کو کسی نے بھی نہیں بتایا کہ ایک طرف مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کی جا رہی ہے اور دوسری طرف بزرگ پنشنروں کی کم سے کم پنشن 12 ہزار روپے مقرر کی جا رہی ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ اسی طرح وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ای او بی آئی کی پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔ میرے جیسا ایک عام فہم انسان اسے حکومت کا عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہی قرار دے سکتا ہے کیونکہ طویل عرصہ سے ای اوبی آئی کے پنشنروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اب بھی حکومت کی جانب سے پنشن میں اضافے کی منظوری نہیں دی گئی بلکہ صرف تجویز سامنے آئی ہے حالانکہ سابق حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ ای او بی آئی کی پنشن میں اس سے زیادہ اضافے کی منظوری دے چکی ہے لیکن اس پر عمل درآمد آج تک نہیں ہو سکا جو حکمرانوں کی عوام دوستی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہاں میری مراد صرف موجودہ حکمران نہیں بلکہ تمام وہ سیاستدان ہیں جنہیں پنشنروں کے مسائل نظر ہی نہیں آتے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ہوں یا ای اوبی آئی کے پنشنرز‘ کم سے کم پنشن کی حد بھی 32 ہزار روپے مقرر ہونی چاہئے۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے مطابق مقروض افراد کی بیوائوں کے 10 لاکھ روپے تک کے قرضے حکومت ادا کرے گی جبکہ قومی بچت کے شہدا اکائونٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔ بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔ یقینا موجودہ بجٹ میں کئی باتیں عوامی مفاد کے مطابق اور بہتر ہیں مگر مزید بہتر اقدامات کی گنجائش موجود ہے اور ان پر یقینا کام ہونا چاہیے۔
آخر میں حکام کی توجہ ایک انتہائی اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ جب سے پنشنروں کے اکائونٹس ڈاک خانوں سے بینکوں میں منتقل کیے گئے ہیں‘ بزرگ شہریوں (مرد و خواتین) کو سہولت میسر آنے کے بجائے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مہینے کے ابتدائی دنوں میں جب کوئی بزرگ پنشن لینے کے لیے بینک جاتے ہیں تو وہاں کا عملہ یہ کہہ کر انہیں خالی ہاتھ واپس بھیج دیتا ہے کہ ابھی پنشن نہیں آئی۔ بینک عملے کا یہ موقف سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ کسی بھی پنشنر کا اکائونٹ کھلنے کے وقت پہلی بار تو رقم میں تاخیر ممکن ہے لیکن اس کے بعد تو ایسا نہیں ہونا چاہئے اور مقررہ تاریخ تک پنشن آ جانی چاہیے لیکن شاید عملے کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے اور پنشن کے اضافی بوجھ سے بینکوں کا عملہ خوش نہیں‘ اس لیے اس کی سزا وہ بزرگ پنشنروں کو چکر لگوا لگوا کر دے رہاہے جو لمحہ فکریہ ہے، حکومت کو فی الفور اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔