یورپ براستہ وادیٔ موت

غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے کے خواہشمند افراد کی اندوہناک موت کی خبریں آئے روز میڈیا میں آتی رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات میں شرح میں کمی دکھائی نہیں دیتی۔ روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جانا کوئی بُری بات نہیں لیکن اس کے لیے درجنوں قانونی طریقے موجود ہیں‘ لاکھوں پاکستانی ہر سال حصولِ تعلیم، سیر و تفریح، کھیل، فنی و دیگر تربیت اور روزگار کے سلسلے میں سمندر پار جاتے ہیں۔ بیرونِ ملک بسنے والے کم و بیش ایک کروڑ اوورسیز پاکستانی کثیر زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں جس سے ہماری قومی معیشت کا پہیہ چل رہا ہے لیکن جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے‘ غیرقانونی طریقوں سے بیرونِ ملک خصوصاً یورپ جانے کے شوقین افراد کے حوالے سے خبریں سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں۔
غیرقانونی ذرائع سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے افراد کی ایک نمایاں تعداد اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی موت کی وادی میں دفن ہو جاتی ہے۔ کبھی درجنوں افراد کنٹینروں میں چھپ کر مغربی سرحد پار کرنے کی کوششوں میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں تو کبھی سینکڑوں افراد کشتی ڈوبنے کے باعث منزل سے پہلے ہی اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ کچھ افراد مختلف ممالک کی سرحدوں پر تعینات سکیورٹی فورسز کی بے رحم گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اگر ایسے تمام واقعات کی چھان بین کی جائے تو موت کی وادی کے راستے یورپ جانے کی کوشش کرنے والوں کی اکثریت نیم خواندہ اور اَن پڑھ ہوتی ہے‘ جو انسانی سمگلروں کے جھانسے میں آ کر نہ صرف اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لٹا بیٹھتی ہے اور اپنے پورے خاندان کو ہمیشہ کے لیے مقروض بنا دیتی ہے بلکہ اپنی قیمتی جان تک گنوا کر اپنی فیملی کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کر جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوششوں میں ایک کشتی یونان کے سمندر میں ڈوب گئی۔ برطانوی میڈیا نے اس کشتی میں تقریباً چار سو پاکستانیوں کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا، جبکہ بچ جانے والے افراد نے پاکستانی شہریوں کے ساتھ کشتی میں ذلت آمیز رویے کا بھی انکشاف کیا ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی 9 جون کو لیبیا کے شہر بن غازی سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی، 14 جون کو یونان کے علاقے پلاس سے پچاس نوٹیکل میل دور حادثہ پیش آیا۔ حادثے کا مقام یونان کی حدود میں پانچ کلومیٹر گہرائی والے فشنگ ایریا کے قریب ہے۔ حادثے میں بچ جانے والے ایک مسافر نے بتایا کہ کشتی ڈوبنے سے پہلے ہی پانی نہ ملنے کی وجہ سے اس میں موجود چھ لوگ زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ ڈوبنے سے تین روز پہلے کشتی کا انجن خراب ہوگیا تھا۔ کشتی میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی تھی مگر بچ جانے والوں میں کوئی ایک بھی خاتون یا بچہ شامل نہیں ہے۔
یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے حادثے میں بچ جانیوالے افراد نے بتایا کہ پاکستانی مسافروں کو کشتی کے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا، دوسری قومیت والوں کو کشتی کے اوپری حصے میں جانے کی اجازت تھی مگر پاکستانیوں کو نیچے دھکیل دیا گیا۔ کشتی کے اوپری حصے کے مسافروں کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر نچلے حصے سے کوئی پاکستانی اوپر آنا چاہتا تو اس سے بدسلوکی کی جاتی، خواتین اور بچوں کو بظاہر مردوں کی موجودگی کے سبب بند جگہ پر رکھا گیا۔ کشتی میں 100 سے زیادہ بچے موجود ہونے کا بتایا گیا۔ قومی ذرائع کے مطابق کشتی حادثے میں ڈوبنے والوں میں 300 سے زائد پاکستانی ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایک تخمینے کے مطابق کشتی پر چار سو پاکستانی سوار تھے جن میں سے محض 12 افراد زندہ بچے۔ اب تک کُل 104 افراد کو بچایا جا سکا ہے۔ غیرملکی میڈیا میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کشتی میں پاکستانی، مصری، شامی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 750 تارکین وطن سوار تھے۔ کشتی حادثے میں گوجرانوالہ ریجن کے لاپتا افراد کی تعداد 111 جبکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے لاپتا جوانوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق گوجرانوالہ ریجن کے لاپتا افراد میں زیادہ تعداد گجرات اور گوجرانوالہ کے رہائشیوں کی ہے۔ متاثرہ خاندانوں کے ڈی این اے سیمپلز لیے جانے کا کام جاری ہے۔ دوسری جانب یونان کشتی حادثے کے درج مقدمات کی تعداد 31 ہو گئی ہے۔ 23 مقدمات ایف آئی اے کے تھانہ گوجرانوالہ اور 8 گجرات میں درج کیے گئے ہیں۔ اس حادثے میں ملوث 13 انسانی سمگلرز کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے سات کو گوجرانوالہ اور چھ کو گجرات سے گرفتار کیا۔
یونان میں پیش آئے کشتی کے سانحے پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی وزرا رانا ثنا اللہ، مریم اورنگ زیب، معاونِ خصوصی طارق فاطمی، ڈی جی ایف آئی اے، چیف سیکرٹری آزاد جموں و کشمیر اور متعلقہ اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے اظہارِ برہمی کیا کہ انسانی سمگلروں کی کارروائیاں بروقت کیوں نہ روکی گئیں؟ وزیراعظم نے سوال کیا کہ متاثرہ لوگوں کا جن اضلاع سے تعلق ہے‘ وہاں کی انتظامیہ نے ملوث ایجنٹوں کی کارروائیوں کا بروقت نوٹس کیوں نہ لیا؟ انہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ تحقیقات کی نگرانی اور ذمہ داران کو سزا دلوانے کے لیے ضروری قانون سازی کے لیے تجاویز مرتب کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کشتی واقعے کے ذمہ داران کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ہدایت کی جبکہ تحقیقاتی کمیٹی کو کارروائی مکمل کر کے واقعے کی جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔
اس سے قبل بھی جتنے حادثات اور واقعات پیش آئے یا رپورٹ ہوئے‘ ان پر بھی انکوائری کمیٹیاں بنائی گئیں، مقدمات درج ہوئے، کئی بار انسانی سمگلر بھی گرفتار ہوئے، وزرا اور اعلیٰ سرکاری افسران حادثے کے شکار افراد کے لواحقین سے ملے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے بلند بانگ دعوے بھی کیے لیکن آج تک غیرقانونی طریقے سے ہونے والی یہ انسانی سمگلنگ نہیں رک سکی۔ اگر اس سے پہلے پیش آئے افسوسناک واقعات کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا ملی ہوتی تو شاید اس کشتی حادثے میں سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ اس سے پہلے جب یورپ میں ایک کنٹینر میں دم گھٹنے سے درجنوں پاکستانیوں کی ہلاکت کی خبر آئی تھی‘ اس وقت بھی ایسے ہی اعلانات کیے گئے تھے‘ کئی کارروائیوں بھی ہوئیں‘ کچھ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ مگر کیا فرق پڑا ؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کو بیرونِ ملک روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع تلاش کرنے کے حوالے سے سرکاری ذرائع سے سہولت فراہم کرے۔ یہاں ایسے ادارے بنائے جائیں جو بیروزگار افراد کو فنی تربیت دیں اور انہیں بیرونِ ملک کھپائیں تاکہ ہمارے لوگوں کو بیرون ملک بہتر روزگار آسانی کے ساتھ مل سکے کیونکہ اگر کوئی فرد ہنرمند نہیں ہو گا تو اسے بیرون ملک جا کر بھی اچھی ملازمت نہیں مل سکے گی جبکہ اس کے استحصال کے خدشات بھی نمایاں ہیں۔ ایسی صورت میں یورپ جا کر بھی اس کی زندگی مشکلات کا شکار رہے گی اور اس کو معاوضہ بھی دیگر ورکرز سے کم ملے گا لیکن اگر ان افراد کے پاس کوئی ہنر ہوگا‘ وہ باقاعدہ ضابطے سے باہر جائیں گے تو پھر انہیں متعلقہ شعبے میں ملازمت بھی آسانی سے ملے گی، کام بھی آسان ہوگا اور معاوضہ بھی بہتر ملے گا۔ علاوہ ازیں حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی جائے تاکہ لوگ غیرقانونی ذرائع سے موت کی وادی میں جانے کے بجائے قانونی طریقے سے باقاعدہ ویزہ لے کر بیرونِ ملک جائیں۔ ایسی صورت میں ملک کی بدنامی بھی نہیں ہو گی اور ایسے سانحات سے بھی بچا جا سکے گا۔ علاوہ ازیں ملک میں قانونی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھی آ سکے گا۔ اس اتنے بڑے سانحے پر محض سوگ منانے کے بجائے تحقیقات کے ذریعے مکمل تہہ تک پہنچنا ہو گا اور ذمہ داران کو بہر صورت کیفرکردار تک پہنچانا ہو گا تاکہ آئندہ غیرقانونی انسانی سمگلنگ کے واقعات پیش نہ آ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں