بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ملک کی سنگین معاشی صورتحال سے صرف عوام ہی متاثر ہیں کیونکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں امیر‘ امیر تر ہوتا جا رہاہے اور غریب آدمی مسلسل غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔ ملک میں امیر و غریب کی تفریق بہت زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طرف عام شہری غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور دیگر بحرانوں سے شدید متاثر ہے تو دوسری طرف اشرافیہ کروڑوں روپے صرف سیروتفریح اور عیاشیوں پر لگا دیتی ہے۔ متوسط طبقے نے اپنی چھوٹی اور پرانی گاڑیاں کھڑی کرکے موٹرسائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر شروع کر دیا ہے جبکہ ملک کی ایلیٹ اور بزنس کلاس میں خاندان کے ہر فرد کے پاس چار چار لگژری گاڑیاں ہیں جن کے روزانہ پٹرول کا خرچ ہی ایک عام گھرانے کے ماہانہ بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگلے روز قومی اسمبلی نے 14ہزار 480ارب روپے کا مالی سال 2023-24ء کا وفاقی بجٹ منظور کر لیا اور سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں فنانس بل 2023ء کی کثرتِ رائے سے منظوری دی گئی۔ عید الاضحی میں صرف دو دن باقی ہیں‘ سرکاری ملازمین کو تو تنخواہیں مل چکی ہیں لیکن ملک بھر میں تقریباً ستر فیصد پرائیویٹ اور ڈیلی ویجز کارکنان تاحال اجرت کے منتظر ہیں لہٰذا آج ہم وفاقی بجٹ پر تبصرہ بھی کریں گے اور عام آدمی پر اس کے اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
جیسا کہ اوپر کہا ہے کہ ہمارے ملک میں غریب مہنگائی کی چکی میں مسلسل پس رہا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9ہزار 200ارب سے بڑھا کر 9ہزار 415ارب روپے مقرر کر دیا ہے۔ اس بات میں بھی شک نہیں کہ امورِ مملکت چلانے کے لیے حکومت کے بھی بڑے مسائل ہوتے ہیں لیکن حکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو ہر حال میں ریلیف فراہم کرے۔ بجٹ میں پنشن ادائیگی 761ارب سے بڑھا کر 801ارب روپے کر دی گئی۔ این ایف سی کے تحت 5ہزار 276ارب کے بجائے 5ہزار 390ارب روپے ملیں گے۔ فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت 215ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ بی آئی ایس پی پروگرام کے لیے 459ارب کے بجائے 466ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 900ارب روپے ہو گا۔
کچھ روز قبل‘ جب روس سے تیل بردار جہاز پاکستان پہنچا تو حکومت نے عوام کو بڑی خوش خبریاں سنائیں کہ اب پٹرول 30سے 40روپے فی لٹر تک سستا ہو جائے گا۔ مہنگائی کے ستائے عوام بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے لیکن حکومت نے وقت آنے پر عوام کو ریلیف دینے کے بجائے صرف اتنا رحم کیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے برقرار رکھیں۔ اب بجٹ میں وزیرِ خزانہ نے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کر دی جو قومی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے ترمیم منظور کر لی۔ جس کے تحت پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی حد 50روپے فی لٹر سے بڑھا کر 60روپے فی لٹر کر دی گئی ہے۔ ترمیم کے مطابق وفاقی حکومت کو 60روپے فی لٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا یعنی جب پٹرولیم مصنوعات عالمی منڈی میں سستی بھی ہوں گی تو حکومت لیوی میں اضافہ کرکے اپنا کھاتہ پورا کرلے گی۔ بجٹ میں سرکاری افسران پر ایک سے زائد پنشن لینے پر پابندی عائدکردی گئی ہے۔ اجلاس کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انکشاف کیا کہ ملک میں بعض لوگ بیک وقت تین تین اعلیٰ عہدوں کی پنشن لیتے رہے‘ یہ غریب ملک پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ اب حکومت نے سرکاری افسران کے ایک سے زائد پنشن لینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ پابندی گریڈ 17سے 22تک کے سرکاری افسران کے لیے ہے۔ گریڈ 17سے نیچے کے سرکاری اہلکاروں پر اس پابندی کا نفاذ نہیں ہو گا۔ ایک سے زائد پنشن کا مسئلہ پرانا ہے جسے حل کرنا معاشی بحران کے شکار ملک کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے لیکن دوسری طرف پنشنروں کی پنشن میں مناسب اضافے کے حوالے سے بھی غور کیا جانا چاہیے کیونکہ ای او بی آئی سمیت لاکھوں بزرگ پنشنرز کے لیے گزر بسر انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔
اپوزیشن کے رکن عبدالاکبر چترالی کی جانب سے اسمبلی میں پیش کی گئی ایک ترمیم بھی منظور کر لی گئی ہے‘ حکومت نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی‘ اس کے مطابق چیئرمین قائمہ کمیٹیوں کو صرف 1200سی سی تک کی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہو گی جبکہ اس وقت 1300سے 1600سی سی تک کی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ معاشی اور توانائی بحرانوں کے شکار اس ملک میں عام آدمی کے ہزاروں بنیادی مسائل ہیں جن پر اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی کو تحاریک پیش کرنی چاہئیں کیونکہ 1200اور 1300سی سی گاڑیوں میں اتنا فرق نہیں اور اس سے شاید قومی خزانے میں بھی کوئی بڑی بچت نہیں ہوگی‘ اگر معزز رکن اس کے بجائے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کوئی تحریک پیش کرتے تو شاید انہیں عوام میں بھی زیادہ پذیرائی ملتی۔ قومی اسمبلی نے ایک اور ترمیم بھی منظور کی جس کی میرے جیسے ایک عام فہم شخص کو تو ابھی تک سمجھ ہی نہیں آئی اور اس بارے میں فنانس کے کسی ماہر صحافی سے رہنمائی لینی پڑے گی۔ قومی اسمبلی میں پرانے پنکھوں پر 2 ہزار روپے فی پنکھا ٹیکس عائد ہو گا‘ پرانی ٹیکنالوجی والے پنکھوں‘ پرانے بلب پر یکم جنوری 2024ء سے اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کی ترمیم منظور کر لی گئی ہے۔ ترمیم وفاقی وزیرِ خزانہ نے پیش کی۔ ترمیم کے مطابق پرانی ٹیکنالوجی والے پنکھوں پر یکم جنوری 2024ء سے 2ہزار روپے فی پنکھا ٹیکس عائد ہوگا‘ پرانے بلب پر یکم جنوری 2024ء سے 20فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ اس ترمیم نے ایک عام شہری کو مزید پریشان کر دیا ہے کہ کیا اب آئندہ موسم گرما میں اپنے تمام پرانے پنکھے اتار کر باہر پھینکنا ہوں گے اور ان کی جگہ نئے پنکھے اور بلب خریدنا پڑیں گے؟ حکومت بھی بعض اوقات ایسے فیصلے کرتی ہے جنہیں عوام کے ساتھ مذاق ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں سولر سسٹم کے خام مال کی درآمدکے لیے ریلیف ضرور دیا ہے لیکن ابھی تک ملک میں سولر سسٹم عام نہیں ہوا‘ جب سستا شمسی نظام ملک بھر میں دستیاب ہوگا بلکہ رائج ہو چکا ہوگا تو اس کے بعد تو پرانے پنکھوں اور پرانے بلبوں پر ٹیکس نفاذ شاید ممکن بن پائے لیکن موجودہ حالات میں جب ایک عام آدمی اپنے اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر رہا ہے تو ان حالات میں لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی خریدنے پر مجبور کرنا شاید مناسب نہیں۔
جیسا کہ اوپر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا ذکر کیا گیا کہ روسی تیل پاکستان پہنچنے کے باوجود عوام کو پٹرولیم مصنوعات پر تاحال کوئی ریلیف نہیں دیا گیا اور اب تو بڑی عید بھی سر پر آن پہنچی ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ قوم کو اس موقع پر بڑی خوش خبری دے اور ماضی قریب کے اعلانات کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30سے 40روپے فی لٹر تک کمی کر کے عوام کو عید کا تحفہ دیا جائے۔ وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو چاہیے کہ بجٹ تو پاس کروا لیا ہے‘ اب آئی ایم ایف کی تمام شرائط بھی مان لیں اور امید ہے کہ قرض کے حوالے سے بھی جلد بریک تھرو ہو جائے گا لہٰذا اب کم ازکم سستے روسی تیل کا فائدہ ہی عوام تک پہنچا دیں‘ ویسے بھی یہ الیکشن سال ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود حکومت کو ہوگا۔