ملک بھر میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے لاہور سمیت پنجاب اور کے پی کے مختلف شہروں میں سیلابی صورتحال کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کئی قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے حالیہ بارشوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ملک بھر میں 25 جون سے اب تک بارشوں کے باعث 76 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سب سے زیادہ پنجاب میں 48 اور خیبر پختونخوا میں 20 اموات رپورٹ ہوئیں، بلوچستان میں 5 اور آزاد کشمیر میں 3 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اب تک ملک بھر میں 30 مرد، 15 خواتین اور 31 بچے بارشوں کے سبب جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 133 بتائی گئی ہے، جن میں 49 مرد، 38 خواتین اور 48 بچے شامل ہیں۔ اس دوران ملک بھر میں 78 گھروں کو بھی جزوی نقصان پہنچا۔ ابھی بارشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا اور اب مون سون کا دوسرا سپیل شروع ہو گیا ہے جبکہ مختلف شہروں میں شدید بارشوں سے اربن فلڈنگ کا خدشہ بھی موجود ہے۔ یہ صورتحال قدرتی ہے اور محکمہ موسمیات نے اس حوالے سے قوم کو پہلے سے آگاہ بھی کر رکھا ہے جبکہ حکومت اور انتظامیہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہیں۔راولپنڈی؍ اسلام آباد میں بھی اربن فلڈنگ کی پیش گوئی کی گئی ہے؛ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور انتظامیہ کے بروقت اقدامات سے تاحال صورتحال معمول کے مطابق ہے۔
حال ہی میں عالمی محاذ پر بھارت کے خلاف پاکستان کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے، پاکستان نے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کی بنیاد پر عالمی ثالثی عدالت میں کیس دائر کیا تھا۔ عالمی ثالثی عدالت نے 2013ء میں بھارت کو کشن گنگا پروجیکٹ ڈیزائن میں مشروط تبدیلی کی اجازت دی تھی۔ بھارت نے کشن گنگا ڈیم کیس کو عالمی ثالثی عدالت کے دائرۂ اختیار سے نکالنے کی درخواست کی تھی، اب عالمی ثالثی عدالت ہیگ نے پاکستان کی درخواست پر بھارتی اعتراضات مسترد کر دیے ہیں اور اب بین الاقوامی ثالثی عدالت پاکستان کے دعوے کی میرٹ پر سماعت شروع کرے گی۔ ثالثی عدالت کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کے ڈیزائن پر تنازع کے تعین کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ فیصلہ ہمارے روایتی حریف ہمسایہ ملک کو ہضم نہیں ہوا اور اس نے ماضی کی طرح‘ ایک بار پھر آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت نے دریائے راوی میں ایک لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے اجھ بیراج سے دریائے راوی میں 1 لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی چھوڑا، 65 ہزار کیوسک پانی کا ریلا آج راوی میں پہنچے گا، جس کے باعث جسر کے مقام پر دریائے راوی میں کم نوعیت کی سیلابی کیفیت متوقع ہے۔ انتظامیہ کو 20 جولائی تک حساس علاقوں، مرالہ ہیڈ ورکس اور جسر پر مانیٹرنگ جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ عوام کو بارشوں کی پیشرفت اور تازہ ترین صورتحال سے بھی مسلسل آگاہ رکھا جائے گا۔ راوی سے منسلک اضلاع ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس سے قبل این سی او سی نے بھی خبردار کیا تھا کہ لاہور، سیالکوٹ، اور نارووال میں تیز بارشوں کا امکان ہے جس کی وجہ سے دریائے چناب، راوی، ستلج اور منسلکہ نالوں بھمبر، ڈیک، پلکھو اور بسنتر میں طغیانی کا خدشہ ہے۔ گزشتہ روز دریائے راوی میں لاہور کے قریب شاہدرہ کے مقام سے چودہ ہزار کیو سک پانی گزر ا، ریسکیو سروس اور سول ڈیفنس کی ٹیمیں ہنگامی صورتحال سے نمنٹنے کے لیے راوی پر موجود رہیں جبکہ مشترکہ آپریشن بھی مسلسل جاری رہا۔ فیڈرل فلڈ کمیشن نے آئندہ ہفتے کے لیے بھی دریائوں میں سیلاب کی وارننگ جاری کر دی ہے۔ جس کے مطابق 16 جولائی تک دریائوں کے نشیبی علاقوں میں شدید بارشوں کا امکان ہے اور دریائے راوی، ستلج اور چناب میں سیلابی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ دریائے چناب میں سیلاب سے درجنوں دیہات متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ڈپٹی کمشنر گجرات کے مطابق اب تک کوٹ غلام تا کوٹ نکا کے علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ دریائے چناب میں 1 لاکھ 18 ہزار 692 کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا، ہیڈ خانکی کے مقام پر اپ سٹریم 54404 کیوسک اور ڈان سٹریم 47300 کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا۔ تمام مقامات پر پانی کا بہائو معمول کے مطابق ہے، گجرات میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 10 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، دریائوں میں پانی کے بہائو کو باقاعدگی سے مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال بھی بھارت نے 1 لاکھ 73 کیوسک پانی چھوڑا تھا اور اس پانی کا تقریباً ایک تہائی یعنی 60 ہزار کیوسک جسر تک پہنچا تھا، ریلے کی وجہ سے دریائے راوی پر گیجنگ پوائنٹ پر پانی کا بہائو تیز ہو گیا تھا۔ اس وقت دریائے ستلج میں پانی کے بہائو کی صورت حال نارمل ہے۔ اسلام ہیڈورکس پر پانی کی آمد 3319 کیوسک اور اخراج 2335 کیوسک ہے۔ البتہ ممکنہ سیلاب کے پیشِ نظر نشیبی علاقوں کے مکینوں کو خبردار کیا جا رہا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے آبی تنازعات کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی ہمارے مشرقی ہمسایہ ملک نے پہلی بار آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اس تنازع کی تاریخ بھی دیگر باہمی مسائل کی طرح پرانی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل برطانوی حکومت نے اپنے زیرانتظام ہندوستان میں دریائوں کے پانی کو زراعت و آبپاشی کیلئے استعمال کرنے کی غرض سے متعدد ڈیمز بنائے جن سے بہت سی نہریں نکالی گئیں۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے وادیٔ جموں و کشمیر پر قبضہ کرلیا اور جو دریا کشمیر سے پاکستان کے حصے میں آتے تھے‘ ان پر اس کا مکمل کنٹرول ہو گیا۔ دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس کے تمام ہیڈ ورکس بھارت کے حصے میں آئے تھے۔ ہمسایہ ملک اس پوزیشن میں تھا کہ جب چاہتا وہ پاکستان کو پانی کی فراہمی روک سکتا تھا، چنانچہ اس نے ابتدا ہی میں اپنے عزائم کے مطابق پاکستان کا پانی روک دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں تباہ ہو گئیں۔ اس سلسلے میں 1948ء میں عارضی مدت کیلئے ایک معاہدہ بھی ہوا جس میں تنازعات کے حل کیلئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی تجویز بھی شامل تھی لیکن اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ بھارت جب ڈیم بنانے کا آغاز کرتا‘ پاکستان کی جانب سے متعلقہ ارباب اختیار کی مبینہ غفلت، قومی معاملات میں عدم دلچسپی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ہم مصلحت کی چادر اوڑھے سوئے رہتے لیکن جب ڈیم مکمل ہو جاتا تو ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر واویلا کرنا شروع کر دیتے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اب تک یہ روش یکساں رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت ایک جارح ملک ہے اور کسی بھی طریقے سے ہر وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے مختلف سازشوں اور تخریب کاریوں میں مصروف رہتا ہے۔ روایتی حریف کا رویہ روز اول سے ہی متعصبانہ اور مخاصمانہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات حل طلب چلے آ رہے ہیں، اس صورتحال میں پاکستان کی حکومت، وزارتِ آبی وسائل اور کمشنر انڈس واٹر کی یہ آئینی‘ قانونی اور منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ بھارت کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی وضع کریں اور عالمی بینک کے ذریعے اسے پاکستان پر آبی جارحیت کے ارتکاب سے روکنے کی تدبیر کریں۔ پاکستان کو چاہئے کہ اب عالمی ثالثی عدالت میں کشن گنگا ڈیم کیس میں بھرپور تیاری کے ساتھ بھارتی جارحانہ عزائم کو بے نقاب کیا جائے اور اپنا موقف منوایا جائے۔ ایک طرف مون سون بارشوں کی وجہ سے ملک میں اربن فلڈنگ کا خطرہ موجود ہے تو دوسری طرف بھارتی آبی جارحیت نے سیلابی صورتحال پیدا کر دی ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت اور انتظامیہ کو ہنگامی بنیادوں کو ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام کے جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔