کہنے کو تو پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن موجودہ دور میں جس تیزی سے ملک میں زرعی زمینیں اور زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے‘ ہر سال جس رفتار سے زرعی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے اور گندم سمیت اہم خوردنی اجناس بیرونِ ملک سے درآمد کرنا پڑ رہی ہیں‘ ان کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب شاید پاکستان زرعی ملک نہیں رہا۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے جو ہر سال اربوں ڈالر گندم، خوردنی تیل، چینی، دالیں اور پھل و سبزیاں درآمد کرنے پر خرچ کر دیتا ہے، یقینا یہ صورتحال ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
آج کل ملک میں سبز انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں جو روزِ اول سے ہماری قوم کا ایک سنہرا خواب ہے۔ اس خطے میں پہلی بار سبز یا زرعی انقلاب 1960ء کی دہائی میں آیا، اس سے مراد تحقیقی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی وہ پہل ہے جو 1950ء کی دہائی سے شروع ہو کر 1960ء کے اختتام تک جاری رہی۔ اس کی وجہ سے 1960ء کے آخر میں ترقی پذیر دنیا میں خاص طور پر زرعی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا۔ انہی منصوبوں کے سبب نئی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہوا، اعلیٰ پیداواری اقسام کے بیج متعارف ہوئے۔ کاشتکاری روایتی طریقوں سے نکل کر جدید طریقوں کی طرف آ گئی جس سے دالوں اور دیگر زرعی اجناس کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس کیساتھ ساتھ آبی سہولتوں میں بھی نمایاں تبدیلی سامنے آئی، جدیدزرعی مشینری اور کیمیائی کھاد کا استعمال شروع ہوا اور پاکستان جیسے کئی ممالک حقیقی معنوں میں زرعی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ 1960ء کی دہائی میں جو زرعی ترقی کا سفر شروع ہوا‘ اس سے ملک میں اشیائے خور و نوش کی وافر پیداوار کے علاوہ قیمتوں پر بھی خاطرخواہ کنٹرول رہا لیکن پھر جیسے جیسے باقی دنیا زرعی سائنس میں ترقی کرتی گئی اور جدید مشینری کا استعمال بڑھتاگیا‘ بدقسمتی سے پاکستانی قوم نے زراعت کے شعبے میں اسی رفتار سے آگے جانے پر توجہ کم کر دی۔ بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے بجائے زرعی اراضی اور زیرکاشت رقبے پر ہی رہائشی کالونیاں بننے لگیں، اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ رواں برس پاکستان نے بمپر پیداوار کے باوجود اپنی ضرورت کے پیشِ نظر گندم باہر سے منگوائی ہے۔
موجودہ دور میں ایک بار پھر ملک میں سبز انقلاب برپا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس کے لیے وفاقی حکومت اور فوج کے تعاون سے ملک میں زرعی انقلاب لانے کے لیے ایک بڑے منصوبے 'گرین پاکستان انیشی ایٹو‘ کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت زراعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جائے گی، زیرِ تعمیر نہروں کو مکمل کیا جائے گا، ہائبرڈ بیجوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا، جدید آبپاشی کے منصوبوں، ٹیکنالوجی، شمسی اور ہوائی توانائی کے استعمال سے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ سیلابی پانی کو بھی نہروں کے ذریعے استعمال میں لایا جائے گا۔ جیسا کہ اوپر بات ہوئی‘ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ حکومتی سطح پر زراعت میں انقلاب لانے کے پروگرام کا اعلان کیا گیا ہو۔ ماضی میں متعدد حکومتوں کی جانب سے اس طرح کے منصوبے متعارف کرائے جاتے رہے ہیں، اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گرین پاکستان انیشی ایٹو پایہ تکمیل تک پہنچ پائے گا اور اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا؟ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ہرگز ناممکن نہیں! اگر عزم ہو تو پاکستان میں آسانی سے زرعی انقلاب لایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے درکار تمام لوازم یہاں موجود ہیں لیکن ماضی میں ایسے کئی منصوبے افسر شاہی کی عدم دلچسپی اور مافیاز کے منفی کردار کی نذر ہو چکے ہیں اور اب تک کی صورتحال کے مطابق یہ منصوبہ بھی بظاہر ایک انتخابی نعرہ ہی لگتا ہے؛ تاہم ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ اس منصوبے کی تکمیل میں کئی چیلنجز درپیش ہیں اور زمینی سطح پر اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کیلئے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی، کاشتہ رقبہ بڑھانے کے لیے اضافی پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ زیرِ زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے۔ ڈرپ اریگیشن ایک بہتر متبادل ہے مگر یہ نظام کافی مہنگا پڑتا ہے، اس منصوبے کے تحت سولر سسٹم کے تحت پانی فراہم کرنے کی بات بھی کی جا رہی ہے، لیکن یہ بھی ملک کے جنوبی حصوں میں مکمل طور پر اور بہ آسانی قابلِ عمل نہیں۔ زمینوں کے ایک مناسب قطعے کو سیراب کرنے کیلئے درکار شمسی توانائی کے نظام پر تقریباً 36 لاکھ روپے خرچ آتا ہے، لیکن یہ موسم سرما میں زیادہ سود مند نہیں۔ سردیوں میں سورج کم وقت کیلئے نکلتا ہے اور تقریباً چار گھنٹوں کی توانائی کے ذریعے وسیع زمینوں کو سیراب کرنا ممکن نہیں۔ حکومت نے کسانوں کے لیے کھاد پر سبسڈی دے رکھی ہے جس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کھاد کی بوری پر لگے کوپن دکھا کر اس پر دی گئی سبسڈی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اس میں بھی مبینہ طور پر بدعنوانی کی بڑی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ کھاد پر سبسڈی کی رقم وصول کرنے کے لیے بھاری رشوت دینا پڑتی ہے۔ ملک میں کھاد اس لیے بھی مہنگی ہے کہ اول تو یہ مقامی سطح پر بنتی ہی کم ہے اور جو بنتی ہے‘ اس کی بڑی مقدار افغانستان اور وسطی ایشیا کے ملکوں میں سمگل ہو جاتی ہے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے سبز انقلاب کے منصوبے میں کھاد کی فراہمی اور اس کی قیمتیں کم کرنے کے بارے میں ابھی تک کسی حکمت عملی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اگر سرکار اس منصوبے کو حقیقی معنوں میں کامیاب بنانا چاہتی ہے تو فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے بیجوں، کھاد، ادویات اور کیڑے مارنے والے کیمیائی مواد کی ارزانی اور وافر فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں زرعی ادویہ نہیں بنتیں جبکہ ہمارا مشرقی ہمسایہ ملک بھارت زرعی ادویات کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ ان ادویات اور کیمیائی مادوں کی زیادہ قیمتوں کے باعث فصلوں کی پیداوار مہنگی پڑتی ہے، حکومت اگر واقعتاً زراعت کے فروغ میں سنجیدہ ہے تو اسے ملک میں زرعی ادویات کی تیاری اور ان پر ٹیکسز کے خاتمے کے لیے بھی کام کرنا چاہیے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ زرعی انقلاب کیلئے قومی قیادت ایک پیج پر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے علاوہ صوبائی وزرائے اعلیٰ بھی قومی فوڈ سکیورٹی سیمینار میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان میں 1960ء کے بعد دوسرا سبز انقلاب آ رہا ہے، گرین انیشی ایٹو پروگرام سے زرعی معیشت ایک سے دو سال میں بحال ہو جائے گی، چار سے پانچ سال میں 30 سے 40 ارب ڈالرز سرمایہ کاری آنے کی توقع ہے اور 40 لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ یقینا یہ ایک اچھی نوید ہے۔ سپہ سالار عساکر پاکستان نے کہا کہ ہم پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے بحیثیت ادارہ مکمل جانفشانی اور قلب و روح کے ساتھ ہر ممکنہ تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ پاکستان نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔
اس منصوبے کی کامیابی کیلئے ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ قومی اقتصادی کونسل کی انتظامی کمیٹی (ایکنک) نے چاروں صوبوں میں ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کی زیر صدارت ایکنک کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک بھر کے ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے377 ارب 23 کروڑ سے زائد رقم خرچ ہو گی۔ زرعی شعبے کی بہتری کے اس منصوبے پر پہلے مرحلے میں 90 ارب روپے خرچ کیے جائینگے اور ملک بھر میں 1 لاکھ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائیگا۔ جیسا کہ پہلے کہا کہ ماضی میں بھی ایسے کئی پُرکشش اور مفید منصوبے تیار ہوئے مگر ان پر طویل مدتی عمل درآمد نہ ہو سکا اور بعد میں آنیوالی حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث ایسے قومی منصوبے کامیاب نہ ہو سکے۔ موجودہ حکومت کی مدت ویسے ہی ایک ماہ سے زیادہ نہیں‘ تاہم اس بار ریاستی ادارے بھی سبز انقلاب کے منصوبے میں بنیادی فریق کے طور پر شامل ہوئے ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس منصوبے میں کوئی تعطل نہیں آئے گا اور آنے والی حکومتیں پاکستان کو سرسبز اور زراعت میں خودکفیل بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کریں گی۔