گزشتہ روز پاکستان اور وادیٔ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یومِ شہدائے کشمیر منایا گیا۔ یہ دن ہر سال ان شہدا کی یاد میں منایا جاتاہے جنہیں 13جولائی 1931ء کو ڈوگرا فورسز نے اذان دینے کی پاداش میں فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ کشمیر میں خواجہ بہاء الدین نقشبندی کے مزار کے ساتھ ملحقہ قبرستان انہی شہدا کے نام سے منسوب ہے۔ اس سانحے کی یاد میں دنیا بھر میں کشمیریوں سمیت عالمی برادری ہر سال یہ دن مناتی ہے جبکہ اس دن مقبوضہ کشمیر میں عام تعطیل ہوا کرتی تھی مگر مودی سرکار نے 2019ء میں 13 جولائی کی سرکاری تعطیل ختم کر کے کشمیر کی تاریخ کو بدلنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
کشمیر کی جنت نظیر وادی قدرت کے حسین نظاروں اور دلکش رنگوں کا خوبصورت شاہکار ہے۔ یہ سرسبز و شاداب وادیوں، لہلہاتے کھیتوں، چمن زاروں، برف پوش پہاڑوں، دریائوں، ندی نالوں، چشموں و آبشاروں، جنگلات، پھل اور پھولدار درختوں اورصحت مند آب و ہوا کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے اپنی خود نوشت ''تزکِ جہانگیری‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر مجھ سے میری عظیم الشان سلطنت تمام کی تمام چھین لی جائے اور صرف کشمیر ہی میرے پاس رہ جائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے پاس سب کچھ ہے۔
وادیٔ کشمیر جس قدرخوبصورت ہے، اسی قدر اس کے مکین انتہا پسند ہندوئوں اور قابض بھارتی حکومت کے ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں۔ 1832ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خالصہ فوج کے خلاف لڑنے والے سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان سمیت درجنوں زندہ لیڈروں کی کھالیں کھینچی گئیں‘ اسی طرح 1846ء میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ''معاہدۂ امرتسر‘‘ کے تحت کشمیر پچھتر لاکھ روپے (تقریباً ایک لاکھ پائونڈ) میں ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا۔ یہ دنیا میں ظلم و ستم کی انوکھی مثالیں ہیں۔ یقینا مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم کی داستانیں طویل بھی ہیں اور انوکھی بھی۔
یوم شہدائے کشمیر اور مقبوضہ وادی کے حوالے سے نوجوان نسل کو ان حقائق کا بتایا جانا بہت ضروری ہے۔ 13 جولائی 1931ء کا واقعہ ظلم و بربریت کی ایک طویل داستان ہے، یہ دن ہمیں ان تمام شہیدوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے کشمیر کے حقوق اور عزت و حرمت کیساتھ ساتھ مذہبی آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اور اپنی آزادی کیلئے اپنی جانیں تک نثار کر دیں۔ 29 اپریل1931ء کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے کشمیریوں کی ڈوگرا راج سے تحریک آزادی کا آغاز بھی کہا جا سکتاہے۔ اس دن جموں کے میونسپل باغ میں مسلمان جمع تھے اور امام صاحب نمازِ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک غیر مسلم پولیس انسپکٹر پکارنے لگا: امام صاحب! خطبہ بند کیجئے‘ آپ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور جرمِ بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ امام صاحب اس وقت حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور فرعون کا قصہ بیان کر رہے تھے۔ اس خطاب کو زبردستی بند کرانے سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور سخت اشتعال پیدا ہوا۔ نماز کے فوراً بعد جموں کی جامع مسجد میں ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس میں نوجوانوں نے پُرجوش تقریریں کیں اور دینی شعائر میں مداخلت پر شدید احتجاج کیا۔ بعض مسلمانوں نے انسپکٹر کے خلاف توہینِ دین کا مقدمہ بھی درج کرا دیا۔ عدالت میں کیس چلا تو ڈوگرا عدالت نے مقدمہ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ خطبہ نماز کا حصہ نہیں ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور ہائیکورٹ نے تسلیم کیا کہ خطبہ نمازِ جمعہ کا لازمی جُز ہے۔ اس کے چند دن بعد جموں جیل کی پولیس لائنز میں ایک ہندو کانسٹیبل کے ہاتھوں توہینِ قرآن کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ پھر انہی دنوں جموں کے ایک گائوں میں پولیس نے مسلمانوں کو عیدگاہ میں نماز پڑھنے سے روک دیا۔ ایسے واقعات کے تسلسل نے ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ اور اشتعال پیدا کر دیا جس سے ریاست کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ سی لگ گئی۔ اسی دوران سرینگر کی جامع مسجد میں اسلامیانِ کشمیر کا ایک جلسہ منعقد ہوا، جس میں مقررین نے جموں کے واقعات پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اس پر مہاراجہ ہری سنگھ کا مشیرِ خاص جموں آیا اور مسلمانوں کو ایک وفد کی صورت میں مہاراجہ سے ملنے کا مشورہ دیا۔ جموں کے مسلمانوں نے ایک جلسہ عام میں مستری یعقوب علی، سردار گوہر رحمن، شیخ عبدالحمید اور چودھری غلام عباس کو اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ سرینگر والوں کو بھی سات نمائندے چننے کا کہا گیا؛ چنانچہ12 جون 1931ء کو خانقاہِ معلی میں کشمیری مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا، اس جلسے میں ہر طبقے کے مسلمانوں نے حصہ لیا، اس جلسے میں خواجہ سعید الدین مثالی، میر واعظ محمد یوسف شاہ، میر واعظ احمد اللہ ہمدانی، آغا سید حسن شاہ جلالی، خواجہ غلام احمد، شیخ عبداللہ اور منشی شہاب الدین کو نمائندہ چنا گیا۔ جلسے کے اختتام پر قدیر نامی ایک غیر ریاستی نوجوان سٹیج پر آیا اور اس نے مہاراجہ ہری سنگھ اور ڈوگرا راج کے خلاف پُرجوش تقریر کی۔ جلسہ عام اس نوجوان کی پُرجوش تقریر کے بعد پُرامن طور پر منتشر ہو گیا۔ 25 جون کو اس نوجوان کو دفعہ 34 الف (بغاوت) کے تحت گرفتار کر لیا گیا‘ اس پر مقدمہ قائم کر کے اسے سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔ 13 جولائی1931ء کو قدیر خان کو عدالت میں پیش کیا گیا‘ عدالت کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ عدالت کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اور جلد ہی ان کی تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی۔ لوگ اس بہادر اور عظیم مجاہد کو دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ شہر میں افواہ پھیل چکی تھی کہ عبدالقدیر کو قتل کر دیا گیا ہے۔ عوام کی یہ خواہش پُرزور مطالبے میں بدل گئی کہ انہیں عدالتی کارروائی دکھائی جائے۔ ان کا اصرار بڑھتا گیا لیکن ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کوئی پروا نہیں کی۔ اس پر لوگوں نے عدالتی کارروائی دیکھنے کیلئے جیل کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی اور جیل کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ اسی دوران نمازِ ظہر کا وقت ہوا تو مسلمانوں نے نمازِ ظہر کے لیے صفیں درست کرنا شروع کر دیں۔ نمازیوں میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور اذان دینا شروع کی۔ ابھی اللہ اکبر کی آواز ہی فضا میں بلند ہوئی تھی کہ ایک گولی چلنے کی آواز آئی۔ دیکھا تو موذن خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا۔ اس کو گولی مار دی گئی تھی۔ اس شہید کا لہو بھی تحریک آزادیٔ کشمیر میں شامل ہو گیا تھا۔ ایک شخص کو گولی لگنے کے باوجود بھی اس اذان کو ادھورا نہیں چھوڑا گیا۔ حاضرین میں سے ایک دوسرا جوان آگے بڑھا تاکہ اذان کو مکمل کر سکے، اللہ اکبر کی دوسری صدا کے ساتھ ہی دوسری گولی چلی اور اس موذن کو بھی شہید کر دیا گیا۔ اب جوشیلے ہجوم میں کسی کو قبول نہیں تھا کہ انہوں نے جس نماز کی نیت سے صفیں باندھ لی ہیں‘ اسے نامکمل چھور دیا جائے۔ اس طرح چشم فلک نے دیکھا کہ اذان کے الفاظ ادا ہوتے رہے اور کشمیری مسلمان جام شہادت نوش کرتے رہے۔ تاریخ اسلام کی اس یادگار اور انوکھی اذان کو مکمل کرنے کیلئے 22 کشمیریوں نے اپنی جان کی قربانی پیش کی جو تاریخ میں بے مثل ہے۔ اس قربانی نے ڈوگرا راج پر ثابت کر دیا کہ اب کشمیریوں کے عزم کے سامنے رکاوٹ زیادہ دیر چل نہیں سکتی۔
ہم ہرسال یوم شہدائے کشمیر عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں آج بھی بھاتی ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے اور آزادی کے پروانے کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ نہیں رک سکا۔ کشمیری مسلمان گزشتہ دو صدیوں سے آزادی کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں اور ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی تمام بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں اور قابض بھارتی افواج کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہی ہیں بلکہ اب تو بھارت بھر میں رہنے والے مسلمانوں کے جان و مال بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اب بھارت میں بسنے والے تمام مسلمانوں کومحض یوم شہدا منانے کے بجائے حقیقی آزادی کی خاطر یکجا ہوکر عملی جدوجہد میں شامل ہونا ہو گا ورنہ ان کی نسلیں یونہی قربان ہوتی رہیں گی۔