قیام پاکستان سے لے کر آج تک لگ بھگ سبھی حکومتوں نے ملک میں تعمیر و ترقی، عوامی فلاح و بہبود، قومی بچت اور مفادِ عامہ کے حوالے سے متعدد منصوبے تشکیل دیے اور مختلف پالیسیاں بنائی ہیں۔ بعض پالیسیاں کامیاب ہوئیں جبکہ کئی انتہائی اہم اور مفید منصوبے صرف اعلانات یا کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہ سکے اور ان پر خاطر خواہ عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ وطن عزیز طویل عرصے سے توانائی بحران کا شکار ہے۔ ملک میں بجلی کی طلب و رسد میں نمایاں فرق ہے اور شارٹ فال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب لوڈشیڈنگ سے بھی اس پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے نرخ اس قدر بڑھتے جا رہے ہیں کہ شاید کچھ عرصہ بعد عام آدمی کو دوبارہ لالٹین جلا کر گزارہ کرنا پڑے، لیکن اس کے باوجود ملک میں توانائی بچت کے حوالے حکومتی اور عوامی‘ دونوں سطحوں پر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بجلی کے شارٹ فال اور مہنگے ہونے کے باوجود ہم نے دن کی روشنی کا صحیح استعمال نہیں کیا، حالانکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا میں انہی ممالک نے ترقی کی منازل طے کی اور توانائی بحرانوں پر قابو پایا ہے جنہوں نے سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال یقینی بنایا ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان تو شاید چند فیصد ہی آباد ہیں مگر وہاں کے لوگوں نے اپنا نظام الاوقات اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بنایا ہوا ہے۔ جہاں فجر کی نماز تو پڑھی جاتی ہے یا نہیں لیکن لوگ اپنے کام و کاروبار کے لیے علی الصباح گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اپنے کام میں مگن ہو جاتے ہیں۔ وہ دن بھر خوب محنت کرتے ہیں، دن کی روشنی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر شام کو غروبِ آفتاب سے قبل ہی اپنے کام کاج سے چھٹی کر کے گھر واپس پہنچ جاتے ہیں۔ یوں انہیں مصنوعی روشنیوں، برقی قمقموں اور زیادہ طاقت والی سٹریٹ لائٹس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور بجلی کے بغیر ہی دن کی روشنی میں کام کرنے کے لیے کم از کم بارہ گھنٹے میسر ہوتے ہیں ‘ جو دنیا کے کسی بھی عام کاروبار کے لیے کافی ہیں کیونکہ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں کسی بھی شخص کے لیے کام کرنے کے اوقات عمومی طور پر آٹھ گھنٹے ہی مقرر ہیں اور اگر کوئی فرد زائد کام کرے یعنی اوور ٹائم لگائے تو بھی وہ بارہ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔ مارکیٹ کے نظام الاوقات کے حوالے سے ہمارے ہاں متعدد بار دکانیں اور کاروباری مراکز جلدی کھولنے اور جلد بند کرنے کے فیصلے ہوئے، کئی بار ان فیصلوں پر وقتی طور پر عمل درآمد بھی شروع ہوا، مگر پھر آہستہ آہستہ ہم دوبارہ پرانی ڈگر پر آ گئے۔ اگر پنجاب کی بات کروں تو آج کل لاہور اور راولپنڈی جیسے شہروں میں صبح سوا پانچ بجے سورج نکل آتا ہے مگر اس کی روشنی سے مستفید ہونے کے بجائے ہم اپنے گھروں میں سوئے رہتے ہیں۔ اسی طرح آج کل سورج شام سات بجے کے بھی بعد غروب ہوتا ہے؛ یعنی 14 گھنٹے تک دن کی بھرپور روشنی ہمیں کسی قیمت کے بغیر میسر ہوتی ہے مگر ہم قدرت کی اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہی نہیں۔
موجودہ حکومت نے توانائی کی بچت کے لیے کئی بار دکانیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا، مگر اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس سے قبل بھی بجلی کے شارٹ فال کے فوری اور آسان حل کیلئے کئی بار سورج کی روشنی کا بھرپور استعمال کرنے اور رات کو 70 فیصد غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کیلئے کاروباری مراکز جلد بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، کئی بار اس پالیسی پر کامیابی سے عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس فیصلے پر عملدرآمد روک دیا گیا، حالانکہ یہ واحد پالیسی ہے جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ممکن ہو سکتی ہے بلکہ قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو سکتاہے کیونکہ اس وقت ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر سے پہلے کھلتی ہی نہیں، اس کے بعد کم از کم نصف شب تک تمام بازار اور شاپنگ مالز کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی کا لوڈ 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ حکومت نے گزشتہ برس کے آخر میں ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات 10 اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ کفایت شعاری کیلئے بھی پلان دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی کابینہ نے بتایا تھا کہ حکومت نے بڑھتے ہوئے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے بعض اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلے موجودہ حالات اور ملکی ضروریات کے عین مطابق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھی اچھی پالیسیاں تو پہلے بھی بنتی رہی ہیں لیکن مسئلہ ان پر درست طریقے سے عملدرآمد کا ہے۔ کابینہ کے فیصلوں یا حکومت کی پالیسی سازی کا کیا فائدہ اگر اس پر عمل درآمد ہی نہیں ہونا؟ اس بار بھی یہی ہوا۔ حکومت نے دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان تو کر دیا لیکن عمل درآمد نہ ہو سکا۔ کاش! ایسا ہو جاتا کہ رات آٹھ بجے تک میڈیکل سٹورز کے علاوہ تمام کاروبار بند ہو جائیں اور ریسٹورنٹس و شادی ہالز بھی حد دس بجے تک بند کر دیے جائیں۔ اس سے نہ صرف توانائی کی بچت ہو گی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا، بجلی سستی ہو گی بلکہ ہماری قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو گا۔
جیسے پہلے بتایا کہ ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں آج کل صبح پانچ‘ چھ بجے تک سورج طلوع ہو جاتا ہے مگر ملک بھر میں‘ خصوصاً بڑے شہروں میں کوئی مارکیٹ دوپہر بارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتی اور پھر رات بارہ بجے سے پہلے بند بھی نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے ہمیں شام کے بعد 70 فیصد اضافی بجلی کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اس وقت سورج کی روشنی نہیں ہوتی اور اندھیرا کم کرنے کے لیے برقی روشنیوں کا استعمال زیادہ کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں کمرشل بجلی کا استعمال گھریلو بجلی سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے اگر حکومت توانائی بچت پالیسی پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہو جاتی تو ہم تونائی بحران کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مشکلات سے بھی نکل سکتے تھے اور ہمارے پاس ضرورت سے زائد سستی بجلی بھی موجود ہوتی۔ اب تو حکومت کو کسی اپوزیشن کا سامنا بھی نہیں‘ اس لیے کاش اب ہی اس پالیسی پر عمل ہو جائے اور یہ حکومت جاتے جاتے کم از کم قوم کو بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگے یوٹیلیٹی بلوں سے ہی نجات دلا دے۔ اب یہ حکومت ایک ماہ سے بھی کم مدت کی مہمان ہے۔ جلد ہی نگران سیٹ اَپ آ جائے گا جس کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں، الیکشن کے حوالے سے چھائی بے یقینی بھی ابھی تک ختم نہیں ہو سکی ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال ایسی ہے کہ عام آدمی کیلئے اپنے بچوں کی روزی روٹی پوری کرنا ہی بہت بڑا امتحان ہے‘ اسے سیاسی معاملات اور انتخابات سے بظاہر کوئی غرض نہیں۔ اگر حکومت توانائی بچت پالیسی پر سختی سے عملدرآمد کراتی تو شاید اسے جاتے جاتے پانچ روپے فی یونٹ بجلی مہنگی نہ کرنا پڑتی لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکومتیں ہمیشہ مصلحتوں کا شکار ہو جاتی ہیں اور مفادِ عامہ کی پالیسیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اب تو ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ گزشتہ کم ازکم پانچ برسوں سے ہماری حکومتیں صرف وہی کرتی چلی آ رہی ہیں جو آئی ایم ایف کہتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ کہتا ہے کہ بجلی مہنگی کردو تو حکومت فوراً بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کر دیتی ہے، وہ کہے کہ پٹرول مہنگا کر دو تو اگلے ہی روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ قرض کے حصول کے لیے کڑی سے کڑی شرائط بھی رکھی جائیں تو حکومت انہیں ماننے پر رضامند ہوتی ہے۔ کاش آئی ایم ایف کی شرائط میں یہ شق بھی شامل ہوتی کہ حکومت عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب اور مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے توانائی بچت پالیسی پر عمل درآمد کرائے گی تاکہ سورج کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لایا جائے، اس سے پاکستانی قوم میں ڈسپلن بھی قائم ہو گا اور ملک خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن ہو سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر حکومت اس پالیسی پر عملدرآمد کرانے کے لیے بھرپور کوشش کرتی۔