ویسے تو ہر سال 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری‘ ملی و قومی سطح سمیت بیرونِ ملک بھی بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں موجود پاکستانی اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند کر کے اپنے قومی محسنوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں‘ ملک بھر کی اہم عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے اور اس کے دلکش مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہیں ایک مرکزی تقریب میں صدرِ مملکت اور وزیراعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح‘ وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری‘ نیم سرکاری اور نجی عمارات پر لہرانے والا سبز ہلالی پرچم پورے جاہ و جلال سے عظمت و سطوت کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم آزادی کے روز ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پہ براہِ راست صدر اور وزیراعظم کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کر اس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لے کر جانا ہے۔ سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلیٰ عہدیدار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن‘ من‘ دھن کی بازی لگا کر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے عظیم رہنما‘ قائداعظم محمد علی جناح کے قول ''ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ کی پاسداری کریں گے۔ اسی طرح تمام صوبوں میں بھی مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرامز کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ تمام شہروں‘ قصبوں کے سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور تقاریر اور مذاکروں کی رنگارنگ تقاریب کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ یومِ آزادی پر گھروں میں بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش تو قابلِ دید ہوتا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے ایک اچھی روایت یہ چلی آ رہی ہے کہ جشنِ آزادی کی تقریبات صرف چودہ اگست (یوم آزادی) کے ایک دن تک محدود رہنے کے بجائے اگست کا پورا مہینہ جاری رہتی ہیں جن میں عوام کے جوش و خروش میں اضافے کے ساتھ نوجوان نسل کو ملکی تاریخ سے آگہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ان تقریبات میں سب سے زیادہ مقبول ملک بھر میں مختلف سطح پر منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلے ہیں جن میں ہمارے نوجوان‘ مرد و خواتین کھلاڑی اور آفیشلز بھرپور حصہ لیتے ہیں اور دنیا بھر کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ پاکستانی ایک زندہ قوم ہیں‘ جو اپنی آزادی کی قدر بھی کرتے ہیں اور اس کی حفاظت بھی کرنا جانتے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے یہ روایت بن چکی ہے کہ جشن آزادی کی مناسبت سے ضلعی، صوبائی اور قومی سطح پر کھیلوں کے مختلف مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اسی روایت کے پیش نظر رواں برس بھی کھیلوں کے لیے سرگرمِ عمل یوتھ ایجوکیشن اینڈ سپورٹس ویلفیئر سوسائٹی سمیت کھیلوں کی مختلف ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز کی جانب سے جشن آزادی ٹورنامنٹس کی بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ خصوصاً وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پاکستان سپورٹس کمپلیکس میں پاکستان بیس بال لیگ (پی بی ایل) کی تیاریاں دھوم دھام سے جاری ہیں جس میں مرد و خواتین کھلاڑیوں کا جوش و خروش دیدنی ہے۔ یہ مقابلے پاکستان فیڈریشن بیس بال اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے باہمی تعاون سے منعقد ہوں گے۔ اسی طرح صوبائی دارالحکومتوں لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے ساتھ آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور راولپنڈی سمیت تمام بڑے شہروں اور قصبات میں بھی مختلف تقریبات اور مقابلے منعقد کیے جائیں گے۔ پُرفضا سیاحتی مقام‘ ملکۂ کوہسار مری میں بھی راولپنڈی سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔
موجودہ حکومت کی مدت 12 اگست کو مکمل ہو رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ قومی اسمبلی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی تحلیل کر دی جائے گی اور یہ حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی اقتدار نگران حکمرانوں کے حوالے کر دے گی۔ اس لحاظ سے یوم آزادی کے موقع پر اقتدار کی پُرامن منتقلی کا سلسلہ چل رہا ہو گا‘ لہٰذا یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم انتقالِ اقتدار کی مصروفیات میں وطن عزیز کی آزادی کا جشن ہی فراموش کر دیں یا اُس شایانِ شان طریقے سے نہ منا پائیں جو اس کا حق بنتا ہے اور جو ہماری شاندار روایت ہے۔ وفاقی حکومت اور تمام وزرائے اعلیٰ کو چاہیے کہ ذیلی انتظامیہ کو ہدایات دیں کہ چودہ اگست کو یوم آزادی بھرپور جوش و خروش سے منایا جائے اور جشن آزادی کی تقریبات کے بہترین انتظامات کرکے یکم اگست سے ان کا آغاز کر دیا جائے۔ چونکہ وفاقی موجودہ حکومت چودہ اگست سے پہلے ہی اقتدار منتقل کرنے کا اعلان کر چکی ہے‘ لہٰذا اگر یکم اگست سے ہی جشن آزادی کی قومی تقریبات کا آغاز ہو جائے گا تو جانے والی اور آنے والی‘ دونوں حکومتیں ان تقریبات کا حصہ بن سکتی ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو پہلے ہی نگران صوبائی حکومتیں قائم ہیں لہٰذا ان دونوں صوبائی حکومتوں کو بھی چاہئے کہ جشن آزادی کی تقریبات کیلئے خصوصی احکامات جاری کیے جائیں اور جو تنظیمیں جشن آزادی کی مناسبت سے پروگرام ترتیب دیں‘ ان کی سرکاری سطح پر بھرپور سرپرستی کی جائے اور رکاوٹ ڈالنے کے بجائے ان کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے تاکہ ہم ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ تمام کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، سپورٹس بورڈز اور دیگر سرکاری محکمہ جات کو بھی مراسلات کے ذریعے جشن آزادی کی تقریبات کے بروقت انتظامات کے لیے فوری احکامات جاری کیے جانے چاہئیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تحصیل و ضلع کونسلوں، میٹرو پولیٹن و میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل کمیٹیوں اور دیگر بلدیاتی اداروں سمیت مختلف محکموں کے پاس کروڑوں روپے سپورٹس فنڈز کی مد میں موجود ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے ان فنڈز کا استعمال مشکل ہے۔ اس لیے صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ ان فنڈز کا شفاف استعمال بھی ممکن بنائیں۔ اسی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی سپورٹس بورڈ ماضی کی روایات کے مطابق جشن آزادی کی تقریبات یکم اگست سے شروع کرے اور پورا مہینہ مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد کرائے جائیں۔ اسلام آباد کے متعلقہ حکام کو بھی چاہئے یومِ آزادی کی مناسبت سے مہینہ بھر شاندار تقریبات ترتیب دی جائیں اور کھیلوں کے مقابلے و میلے منعقد کیے جائیں۔ چونکہ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانے بھی قائم ہیں لہٰذا شایانِ شان طریقے سے جشن آزادی منا کر ہم دنیا بھر میں آزاد قوم ہونے کا پیغام دے سکتے اور اپنی شاندار روایات کو اجاگر کر سکتے ہیں۔
وطنِ عزیز پاکستان کی آزادی لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ ہمارے آبائو اجداد نے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد یہ نعمت حاصل کی تھی۔ پھر اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ملک و قوم نے بالعموم اور افواجِ پاکستان نے بالخصوص قربانیوں اور شہادتوں کی ایک طویل داستان رقم کی ہے۔ اسی بدولت آج ہم ایک آزاد ملک کے شہری کی حیثیت سے سانس لے رہے ہیں۔ ہم ساری زندگی اپنے شہدا کی قربانیوں اور احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے لیکن چودہ اگست کو یوم آزادی بھرپور انداز میں منا کر دنیا کو یہ پیغام ضرور دے سکتے ہیں کہ ہم آزادی حاصل کرنے کے بعد اس کی حفاظت سے غافل نہیں ہیں اور ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس سے ہمارے بہادر فوجیوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور دشمن کے ناپاک عزائم کمزور پڑیں گے۔