سیاحت کا شوق سبھی کو ہوتا ہے‘ ہم بھی بچپن میں والد صاحب کے ساتھ ہنہ جھیل اور اوڑھک سمیت اندرون بلوچستان اور کئی تاریخی مقامات کی سیر کو جایا کرتے تھے۔ پھر لاہور کے تاریخی مقامات، کلرکہار جھیل، مری، گلیات اور مزار قائد سمیت پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور آزادکشمیر کے دلکش نظارے بھی دیکھنے کو ملے لیکن سیاحت کی اہمیت اور افادیت اس وقت معلوم ہوئی جب 2016ء میں ایک سپورٹس ٹور کے لیے ویتنام جانے کا موقع ملا۔ یہ واقعہ میں پہلے بھی ایک‘ دو بار بیان کر چکا ہوں کہ جب ویتنام کے لیے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے تو اس ملک کے بارے پہلا خیال یہی تھا کہ شاید افغانستان کی طرح جنگ سے تباہ حال خطہ ہوگا جہاں طویل امریکی جنگ کے بعد اب کھنڈرات ہی ملیں گے۔ جنگ کی تباہ کاریوں سے تھکے ہارے عوام‘ جو تعلیم و تربیت سے بھی عاری ہوں گے اور ان کا رہن سہن انتہائی سادہ ہوگا، شہری آبادی شدید پسماندگی کا شکار اور ترقی یافتہ دنیا سے شاید یہ پچاس برس پیچھے ہو۔ معیشت کا برا حال ہو گا، صحیح سلامت عمارت قسمت ہی سے نظر آئے گی اور ویتنامی قوم غربت کی لکیر سے بہت نیچے کی زندگی گزارنے پرمجبور ہو گی۔ جب تھائی لینڈ سے آگے ویتنام ایئر کے جہاز میں بیٹھے تو ہمارے خدشات کو مزید تقویت ملنے لگی کیونکہ اس جہاز کی سیٹوں سے زیادہ تو ہماری انٹرسٹی بس سروس آرام دہ ہے، لیکن جب سمندر کنارے بسائے گئے دانانگ شہر میں اترے تو نظارے ہی کچھ اور تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید ہمیں جہاز نے واپس تھائی لینڈ کے کسی جدید شہر میں پہنچا دیا ہے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کے لیے چلے تو راستے میں دیکھاکہ چھوٹے سے شہر میں تقریباً ایک ہزار سے زائد ملٹی سٹوری فور اور فائیو سٹار ہوٹلز ہیں۔ ہماری موٹرویز سے زیادہ کشادہ اورصاف ستھری سڑکیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فَر فَر انگریزی بولتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو ایشیا بھر سے آئی ہوئی ٹیموں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ یہ سب مناظر دیکھنے کے بعد ذہن میں موجود جنگ سے متاثرہ ویتنام کا نقشہ کہیں غائب ہو چکا تھا اور بڑی خوشگوار حیرت کے ساتھ یہ سوال ابھرنے لگاکہ اس قوم نے جنگ کے اثرات کیسے زائل کیے اور اتنی ترقی کس طرح کر لی کیونکہ جتنے زیادہ فور اور فائیو سٹار ہوٹل اس چھوٹے سے دانانگ شہر میں تھے‘ اتنے پورے پاکستان تو کیا پورے برصغیر میں بھی نہیں ہوں گے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے اپنی ٹیم کی میزبان (رضاکار) لڑکیوں سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ہماری حکومت نے سیاحت کو قومی صنعت کا درجہ دے رکھا ہے اور یہاں نوجوانوں کی اکثریت ٹورازم سے متعلقہ مضامین میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے تاکہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی خدمت کر سکے۔ ویتنامی نوجوانوں کا اخلاق، برتائو اور ان کا قومی جذبہ دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ جو ملک جنگ سے تباہ حال ہے‘ اس کے باشندے اپنے ملک میں سیاحت کے لیے کس قدر محنت سے کشش پیدا کر رہے ہیں۔
ہمارا وطنِ عزیز پاکستان‘ دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ یہاں میدان، دریا، صحرا، پہاڑ، جنگل، ندیاں، نالے، آبشاریں، نہریں اور ساحلِ سمندر سمیت ہر طرح کی زمین موجود ہے۔ یہاں گرمی، سردی، بہار اور خزاں جیسے خوبصورت موسم میسر ہیں، جس ملک میں ناران، کاغان، سوات، گلیات، گلگت، چترال، سکردو اور ہنزہ جیسے قدرتی نظاروں سے مالامال علاقے موجود ہیں، جہاں کشمیر جنت نظیر اپنی مثال آپ ہے، جس ملک کا شہر کراچی ہی کبھی دبئی سے زیادہ بڑا تجارتی مرکز سمجھا جاتا تھا، جو وسیع ساحل سمندر کے علاوہ گوادر جیسے ڈرائی پورٹ کا حامل ہو، جہاں سارا سال برف باری کا بھی موسم ہو، بہار کے مہینے ہوں، گرم علاقے بھی ہوں اور متعدل بھی‘ وہ پاک سرزمین دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کسی جنت سے کم ہے کیا؟ ہمارا لاہور شہر ہی دنیا میں کسی بھی شہر سے پیچھے نہیں۔ (یہ الگ بات کہ ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کی عدم توجہی سے باغوں کا یہ شہر دنیا بھر کا آلودہ ترین بن شہر چکا ہے)، اولیاء کی سرزمین ملتان سمیت ملک میں ہزاروں بزرگوں اور اولیاء کرام کے مزارات ہیں، اس کے علاوہ سکھوں کا اہم ترین مذہبی مقام ننکانہ صاحب اور کرتارپور، ہندوئوں کا مقدس مقام کٹاس راج، بدھ مت کے پیروکاروں کے مقدس مقامات ٹیکسلا سے سوات تک جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی اہم مذہبی مقامات ہمارے ہاں موجود ہیں مگر ہم نے آج تک سیاحت‘ خصوصاً مذہبی سیاحت کو اپنی ترجیح نہیں بنایا‘ کیوں؟ اس کے لیے ہماری حکومتوں کو بھاری زرِمبادلہ خرچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ ہمارے پاس قدرتی حسن سے مالا مال سیاحتی مقامات کی کوئی کمی نہیں۔ کاش ہم نے بھی اس طرف توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتا۔
سیاحت ایک معاشرتی رجحان ہے جس کے تحت لوگ یا قافلے بنیادی طور پر تفریح، آرام، ثقافت، مذہب یا صحت کی وجوہات کی بنا پر اپنی معمول کی رہائش گاہ سے عارضی طور پر دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں، ان جگہوں پر وہ منافع بخش سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، جن سے معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت کے متعدد باہمی ربط پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کی کہ پاکستان میں سکھوں، ہندوئوں اور بدھ مت کے پیرواکاروں کے کئی اہم مذہبی مقامات موجود ہیں جہاں ہر سال دنیا بھر سے یاتری اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سکھوں کے لیے کرتارپور راہداری قائم کرکے دنیا بھر کی سکھ برادری کے دل جیت لیے ہیں۔ ہزاروں یاتری اپنے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت اور دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ننکانہ صاحب، لاہور اور کرتارپور آتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت اس طرف معمولی سی توجہ دے تو سکھ برادری کی یہ تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے اور جب سال کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر سے سکھ اپنی مذہبی رسومات کے لئے پاکستان آئیں گے تو ہماری معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ اس مذہبی سیاحت کو عمومی سیاحت میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ اگر ہندوئوں‘ سکھوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد مری، ناران، کاغان، سوات، چترال، گلگت، گلیات اور دیگر سیاحتی مقامات کی سیر و تفریح پر راغب کیا جائے اور ان علاقوں میں مختصر قیام کا اجازت نامہ بھی دیا جائے تو اس سے ہوٹل، ٹریول اینڈ ٹورز اور ہینڈی کرافٹس سمیت متعدد انڈسٹریز کو فائدہ ہو سکتا ہے جبکہ مقامی کاروبار کو بھی ترقی اور وسعت ملے گی اور ملک میں کثیر زرِمبادلہ آئے گا۔
ماضی میں سہولتیں کم تھیں لیکن دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے تھے۔ اب ہر سہولت ہمارے ہاں دستیاب ہے لیکن سیاحت کا شعبہ اربابِ اختیار کی توجہ کا منتظر ہے۔ اگر ویتنام جیسا ملک سیاحت سے ترقی کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ اس وقت ملک میں حکومتوں کی تبدیلی کا موسم چل رہا ہے، قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پہلے ہی نگران حکومتیں قائم ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی نگران حکومتیں بننے کو ہیں۔ عموماً الیکشن کے ماحول میں دیگر معاملات پس پردہ چلے جاتے ہیں لیکن اس بار جس طرح نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے اور مختلف ذرائع و حوالوں سے الیکشن میں طویل تاخیر کے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں‘ اس میں نگران حکومتوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی۔ اس وقت ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور صورتحال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آ رہی، لہٰذا نگران حکومتوں کو ہی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ نگران حکومت کیلئے ملکی مفاد میں مشکل فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے۔ اس بار ماضی کے مقابلے میں چونکہ نگرانوں کے پاس اختیارات اور وقت کچھ زیادہ ہو گا لہٰذا یہ ہی اگر سیاحت کے فروغ سمیت کوئی ٹھوس اقدامات کر لیں اور غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقینا اس سے زرمبادلہ کے حصول میں آسانی ہو گی، جو اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔