وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نو اگست کی شب قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی، چونکہ قومی اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت کی تکمیل سے چند دن قبل تحلیل کی گئی لہٰذا آئین کے مطابق ملک میں تین ماہ یعنی نو نومبر 2023ء سے قبل انتخابات کا انعقاد لازمی ہے۔ آئین میں صریحاً درج ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے تو انتخابات 60 روز میں کرائے جائیں گے لیکن اس کے قبل از وقت تحلیل ہونے کی صورت میں یہ مدت 90 روز ہو گی۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کی ڈیڑھ سالہ حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور اب ایک نگران حکومت عام انتخابات تک ملک کا انتظام و انصرام چلائے گی۔ وطن عزیز دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران سیٹ اَپ تشکیل دیا جاتا ہے، دنیا میں اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں، تیونس، نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں انتخابات کے لیے عدالتی نگرانی میں نگران حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے مگر امریکہ اور یورپ جمہوری ممالک میں عام انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کی قیام کی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ 1970ء کے الیکشن سے شروع ہوتی ہے جس کے بعد سے اب تک ملک میں 11 عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آ چکا ہے۔ جب 1973ء کا آئین تشکیل پایا تو اس میں نگران حکومتوں کے قیام کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں تھی؛ چنانچہ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد 1977ء کے الیکشن کسی نگران حکومت کے بغیر ہوئے تھے۔ البتہ ان الیکشنز میں دھاندلی کے بعد پہلی بار نگران حکومتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا؛ تاہم1985ء کے عام انتخابات بھی کسی نگران انتظامیہ کے بغیر ہوئے تھے۔ صدر غلام اسحق خان کی صدارت میں ہونے والے 1988ء کے الیکشن میں پہلی بار صوبوں میں نگران انتظامیہ تشکیل دی گئی مگر وفاقی سطح پر کوئی نگران حکومت نہیں تھی۔ 1990ء میں پہلی بار عام انتخابات سے قبل وفاقی سطح پر نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا جس نے الیکشن کا انعقاد کرایا اور یہیں سے پاکستان میں نگران وزرائے اعظم کے تقرر کا آغاز ہوا، اس کے بعد سے2018ء تک ہونے والے تمام جنرل الیکشن نگران حکومتوں کے زیرِ نگرانی ہی ہوئے‘ ماسوائے 2002ء کے الیکشن‘ جو پرویز مشرف حکومت نے اپنی نگرانی میں کرائے اور اس کے لیے الگ سے نگران سیٹ اَپ تشکیل نہیں دیا گیا تھا۔ نگران حکومت کا قیام آئین کی شق 224 کے تحت عمل میں آتا ہے جس کی ذیلی شقوں کے مطابق اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد صدرِ مملکت وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیراعظم کا تعینات کریں گے، تاہم یہ تعیناتی صدرِ مملکت کا اختیار نہیں ہوتی بلکہ یہ قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیراعظم کے اتفاق رائے کے بعد عمل میں آتی ہے اور اگر وہ اتفاقِ رائے نہ کر سکیں تو ایک پارلیمانی کمیٹی، اگر وہ بھی ناکام رہے تو یہ کام الیکشن کمیشن کرتا ہے۔ قومی اسمبلی نو اگست کو تحلیل ہو چکی‘ 12 اگست تک‘ تین دن کے اندر اندر وزیراعظم شہباز شریف اور گزشتہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کی جانب سے نگران وزیراعظم کو نامزد کیا جانا تھا، جس پر دونوں رہنمائوں نے اپنی مشاورت کے آخری دن ایک متفقہ سمری صدرِ مملکت کو ارسال کی جس پر بی اے پی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا گیا جو آج‘ یوم آزادی کے موقع پر اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
نگران حکومت کی اصل ذمہ داری عام انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت کے انتظام سنبھالنے تک ملک کے روزمرہ معاملات کو چلانا ہوتا ہے اور اسے فیصلوں اور پالیسی سازی کے حوالے سے منتخب حکومت جیسے اختیارات حاصل نہیں ہوتے تھے؛ تاہم 26 جولائی 2023 ء کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 230 میں جو ترمیم کی گئی اس کے تحت نگران حکومت اب روزمرہ کے حکومتی امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں اور پروگرامز سے متعلق اختیارات بھی استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے بھی کر سکے گی۔ نگران حکومت کے دائرۂ اختیار کو بڑھانے کی بحث نے اس لیے بھی طول پکڑا کہ اس بل کی منظوری سے چند روز قبل کچھ حلقوں کی جانب سے یہ چہ میگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئندہ سیٹ اپ میں نگران وزیراعظم ہو سکتے ہیں جبکہ متعدد شخصیات کی جانب سے الیکشن کے ایک سال تک التوا کے بیانات بھی سامنے آئے۔ ان چہ میگوئیوں کے بیچ پارلیمان میں انتخابات (ترمیمی) بل 2023ء سامنے آ گیا اور یہ ابہام اور اندیشہ تقویت پکڑتا دکھائی دیا کہ انتخابات وقت پر نہیں ہو سکیں گے اور نگران حکومت کا دورانیہ ایک سال تک طویل ہو سکتاہے۔ الیکشن ایکٹ میں منظور ہونے والی ان ترامیم پر حکومت کی بعض اتحادی جماعتوں نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ تحریک انصاف نے کُلی طور پر اس کی مخالفت کی۔
سوال یہ ہے کہ نگران حکومت کے دائرۂ اختیار میں توسیع کے حوالے سے جو ترامیم کی گئیں‘ وہ کتنی ضروری تھیں اور ان پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟ گزشتہ انتخابات کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 230 میں ہونے والی حالیہ ترامیم سے آئندہ الیکشن کے متنازع ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔ الیکشن کے متنازع ہونے کی وجوہات اور ہوتی ہیں۔ سیکشن 230 پر انتخابات متنازع بنانے کا الزام تو لگایا جا سکتا ہے لیکن اس سے الیکشن کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں اعتماد کا فقدان ہے۔ نہ ریاست کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کا ریاست پر۔ الیکشن ایکٹ میں ترامیم پر چند حلقوں کی طرف سے تنقید اور تحفظات اسی اعتماد کے فقدان کی غمازی کرتے ہیں۔ جب تک انتخابات منعقد نہیں ہو جاتے‘ یہ ابہام موجود رہے گا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد 90 دن کی آئینی میعاد میں الیکشن نہیں ہو سکے جو سراسر غیر قانونی و غیرآئینی عمل ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کے حوالے سے عدالت کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی گئی، جس کے سبب چند حلقوں کا گمان ہے کہ اسی نوعیت کے غیر آئینی اقدام کا احتمال اب بھی موجود ہے۔ نگران حکومتوں کو جو اضافی اختیارات دیے گئے ہیں وہ فقط چند ماہ کے لیے ہیں اور اُن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جاری معاہدوں میں اس بنا پر تعطل نہ آئے کہ ملک میں منتخب حکومت موجود نہیں۔ یہ عارضی بندوبست ہے اور انتخابات کے بعد یہ شق خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ اس تمام تر بحث میں اس وقت عوامی سطح پر یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ آخر ملک میں نگران حکومت کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے، کیونکہ دیگر بہت سے جمہوریتوں میں اس نوعیت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ وفاقی حکومت نے اس حوالے سے آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیا ہے کہ نگران حکومت کے دورانیے میں توسیع ہو سکتی ہے کیونکہ مردم شماری کی منظوری کے بعد اب الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کیلئے چار ماہ درکار ہوں گے جبکہ مزید دو ماہ انتخابی عمل کو مکمل کرنے کیلئے درکار ہوں گے؛ چنانچہ یہ تو ممکن نہیں کہ انتخابات 2023ء میں ہو سکیں؛ تاہم 2024ء کی پہلی سہ ماہی میں الیکشن ہو سکتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے نگران حکومت کے ساتھ مل کر مارچ‘ اپریل 2024ء تک پورے ہونے والے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام پر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے جس سے عام انتخابات کے التوا کی راہ میں حائل سبھی رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پہلے ہی نگران سیٹ اَپ اپنی مقررہ مدت سے تجاوز کر چکا ہے، اس اقدام کو اعلیٰ عدلیہ میں بھی چیلنج کیا گیا۔ ہمارا واسطہ براہ راست پنجاب کی نگران انتظامیہ سے ہے‘ لہٰذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوبے کا نظم ونسق ابھی تک احسن طریقے سے چل رہا ہے، سرکاری افسران کے سیاسی بنیادوں پر ہونے والے آئے روز کے تبادلوں کو بریک لگ گئی ہے اور بیورو کریسی اطمینان کے ساتھ کام کر رہی ہے؛ تاہم عام انتخابات کا انعقاد ایک لازمی آئینی تقاضا ہے جو بہرحال جلد از جلد پورا ہونا چاہیے۔