طویل عرصے کے بعد ملک میں بجلی کے حوالے سے ایک اچھی خبر سننے کو ملی۔ خبر تھی: ڈیمز بھر جانے کے باعث پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بجلی کی پیداوار 25 ہزار 500 میگاواٹ ریکارڈ کی گئی۔ ملک میں اس وقت بجلی کی طلب 27 ہزار 5 سو میگاواٹ ہے‘ اس حساب سے بجلی کا شارٹ فال صرف 2 ہزار میگاواٹ ہے۔ پن بجلی ذرائع سے بجلی کی پیداوار 9 ہزار 500 میگاواٹ ہے، سرکاری تھرمل پاور پلانٹس 1 ہزار 700 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جبکہ نجی شعبے کے بجلی گھروں کی پیداوار 10 ہزار 500 میگاواٹ ہے۔ اسی طرح ونڈ پاور پلانٹس سے 1 ہزار 289 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے، سولر پاور پلانٹس 190 میگاواٹ اور بیگاس سے 100 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ ایٹمی بجلی گھروں سے 2 ہزار 226 میگاواٹ تک بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
دل بہت خوش ہوا کہ توانائی بحران تقریباً حل ہو چکا ہے اور اب نہ صرف ہم بھی یورپی ملکوں کے عوام کی طرح نان سٹاپ پنکھوں کی ہوا میں بیٹھ سکیں گے بلکہ اچانک اندھیرا چھا جانے والی بات بھی ماضی کا قصہ بن جائے گی اور کسی بھی اہم تقریب میں مہمان خصوصی کے سٹیج پر آتے ہی مائیک کی آواز بند ہونے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ دل میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اب تو چونکہ بجلی وافر مقدار میں پیدا ہونے لگی ہے اور ہمارے بجلی گھروں کے تالے کھل چکے ہیں‘ اس لیے اب بجلی سستی ہو جائے گی، حکومت سستے ذرائع سے برقی ضروریات پوری کرے گی اور مہنگے ترین ایندھن سے بننے والی بجلی کی پیداوار بند کردی جائے گی، اب یوٹیلیٹی بل بھی کم آئیں گے اور ہم بچ جانے والے پیسوں سے دیگر اہم ضروریات پوری کر سکیں گے، لیکن یہ سوچ تو شاید صرف میری یا اخراجات کے مقابلے میں محدود آمدن والے میرے جیسے افراد ہی کی ہو سکتی ہے جو ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مترادف چھوٹی چھوٹی خبروں ہی سے خوشی کی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ ہم پر مسلط اربابِ اختیار کا فائدہ تو شاید مہنگی بجلی میں ہے، کیا پتا انہیں سستے ذرائع سے بجلی کی پیداوار سے کچھ نہ بچتا ہو اور مہنگے ایندھن والے ذرائع میں ان کا ''حصہ‘‘ مقرر ہو۔
ابھی مذکورہ خبر کو چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ ایک ایسی خبر نظر سے گزری کہ کمرے میں بجلی کے تین بلب روشن ہونے کے باوجود آنکھوں کے سامنے ایک دم اندھیرا سا چھا گیا، سر چکرانے لگا اور اگلے مہینے کے ڈبل بل کی سوچ نے بلڈپریشر انتہائی لو کر دیا۔ پہلی خبر قارئین کو سنائی تو چلو دوسری بھی شیئر کر دیتے ہیں، اس کے بعد آپ بھی اپنا بی پی چیک کر لیجیے گا تاکہ اندازہ ہو سکے کہ آپ ابھی کتنا جھٹکا برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ خبر ہے ''مہنگائی کے ستائے عوام کو ایک اور جھٹکا، نیپرا نے بجلی 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی۔ نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ڈیسکوز کی جانب سے بجلی 5 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست پر سماعت کی، بجلی کی قیمت سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی۔ نیپرا نے اضافے کی ابتدائی منظوری دے دی، اضافہ سال 2022-23ء کی چوتھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے، نیپرا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق لائف لائن‘ کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔
اس وقت ملک کے بعض شہروں میں عوام بجلی کے جھٹکوں پر سراپا احتجاج ہیں لیکن زیادہ تر علاقوں سے سکون و شانتی کی خبریں مل رہی ہیں کیونکہ پہلے کہیں دو‘ چار سال میں ایک آدھ بار بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں معمولی اضافہ دیکھنے کو ملتا تھا لیکن اب تو آئے دن بجلی کی قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ پندرہ مہینوں میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں چار بار اضافہ ہو چکا ہے۔ اپریل 2022ء سے اب تک مجموعی طور پر بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 18.39 روپے فی یونٹ تک کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ نیپرا کی دستاویزات کے مطابق حکومت کی جانب سے جولائی‘ اگست اور اکتوبر 2022ء اور پھر جولائی 2023ء میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مرحلہ وار اضافہ کیا گیا۔ 11 اپریل 2022ء سے اب تک بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کیے جانے والے مجموعی اضافے کی بات کی جائے تو 100 یونٹ تک والے گھریلو صارفین کے لیے بجلی 7.06 روپے،101 سے 200 یونٹ تک والے صارفین کے لیے 11.21 روپے،201 سے 300 یونٹ تک والے صارفین کے لیے 13.31 روپے، 301 سے 400 یونٹ تک والے صارفین کے لیے 10.80 روپے، 401 سے 500 یونٹ تک والے 14.01 روپے، 501 سے 600 یونٹ تک والے صارفین کے لیے 15.43 روپے، 601 سے 700 یونٹ تک کے صارفین کے لیے 16.57 جبکہ 700 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت کے بنیادی ٹیرف میں مجموعی طور پر 18.39 روپے اضافہ کیا گیا ہے۔
بجلی کے پیداواری ذرائع اور ان کی لاگت کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں رواں مالی سال کے دوران 30 فیصد بجلی پانی سے، 18 فیصد نیوکلیئر ذرائع سے، 17 فیصد مقامی کوئلے سے، 12 فیصد درآمدی کوئلے سے، 10 فیصد مقامی گیس سے، 5 فیصد آر ایل این جی سے، 2 فیصد فرنس آئل سے جبکہ 6 فیصد قابل تجدید توانائی کے تحت بنائی جائے گی۔ رواں مالی سال کے دوران ملک میں پن بجلی کا فی یونٹ خرچ 6.94 روپے کا پڑے گا جو دیگر تمام ذرائع سے کم ترین خرچ ہے۔ اس کے برعکس درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 40.54 روپے، مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 23.97 روپے، فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 48.56 روپے، گیس سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 13.02 روپے خرچ آئے گا۔ آر ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 51.42 روپے، نیوکلیئر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 18.38 روپے، ایران سے درآمدہ بجلی پر فی یونٹ 24.73 روپے، ہوا سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 33.64 روپے، گنے کا پھوک یا بیگاس سے بجلی پیدا کرنے پر فی یونٹ خرچ 14.83 روپے ہو گا جبکہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے پر 15.04 روپے خرچ ہوں گے۔
غیر جانبدارانہ تجزیہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم سستے ذرائع پر توجہ دینے کے بجائے سات گنا مہنگے ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ ملک میں بجلی کی موجودہ پیداوار 25 ہزار 500 میگا واٹ ہے جس میں سے 9 ہزار 500 میگا واٹ بجلی نجی شعبے شعبے یعنی مہنگے ترین ذرائع سے خرید رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایک عام گھرانے کا بجلی بل 2500 روپے سے بڑھ کرکم ازکم 17000 روپے تک پہنچ چکا ہے جو یقینا غریب کی دسترس سے باہر ہے۔ ہمارے اربابِ اختیار نے کالا باغ ڈیم اور اس جیسے اہم ترین منصوبوں کا تو سوچنا نہیں اور نہ ہی انہیں یوٹیلیٹی بلوں میں کمی لانے کی کوئی جلدی ہے کیونکہ ان کی اپنی بجلی تو مفت ہوتی ہے یا بل سرکاری اکائونٹس سے جمع کرائے جاتے ہیں لہٰذا اب ہمیں دوبارہ لوڈشیڈنگ کی طرف ہی جانا ہو گا۔ ہم نے تقریباً دو دہائیاں لوڈشیڈنگ کا عذاب اس طرح برداشت کیا کہ اب اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ طویل عرصہ صرف 12 ہزار سے 15ہزار میگا واٹ بجلی پہ گزارہ کیا، اب بھی اگر 25500 میگاواٹ میں سے 49 روپے فی یونٹ والے 9500 میگا واٹ نکال دیں اور ماضی کی طرح چند گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کرتے ہوئے صرف سات روپے یونٹ والے 1500 میگاواٹ پر گزارا کر لیں تو بجٹ متوازی ہو سکتا ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین بجلی فراہم کر کے بلوں میں آڑ میں غریب گھروں کا چولھا بند کرنے اور ان کے بچوں سے نوالہ تک چھین لینے سے لوڈشیڈنگ ہی بہتر ہے۔