عدالتِ عظمیٰ کے سینئر ترین جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے ہیں۔ اتوار کے روز صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014ء کو سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا اور 2019ء میں صدارتی ریفرنس کے بعد سینئر ترین جج ہونے کے باوجود انہیں تین سال تک کسی آئینی مقدمے کے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ 26 اکتوبر 1959ء کو بلوچستان کے ضلع پشین میں پیدا ہونے والے قاضی فائز عیسیٰ کے دادا قاضی جلال الدین ریاست قلات کے وزیراعظم تھے۔ آپ کے والد قاضی محمد عیسیٰ آف پشین قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رہنما اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ 1951ء سے 1953ء تک قاضی محمد عیسیٰ برازیل میں پاکستان کے سفیر رہے۔ کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کراچی میں اے لیول اور او لیول مکمل کیا اور پھر قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے انز آف کورٹ سکول آف لا سے بار پروفیشنل ایگزامینیشن مکمل کیا۔ لندن سے بار ایٹ لا کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1985ء میں کراچی سے وکالت کا آغاز کیا اور 1998ء میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ آپ سندھ ہائیکورٹ بار اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن بھی رہے۔ 21 جون کو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کی منظوری دی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان ( منصفِ اعظم پاکستان) پاکستان کے عدالتی نظام کے سربراہ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جج ہیں۔ آفس ہولڈر سپریم کورٹ کے 17 ججوں میں سب سے سینئر ہیں۔ پاکستان کی وفاقی عدالت فروری 1948ء میں گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے حکم سے قائم کی گئی تھی۔ 1956ء تک چیف جسٹس اور سینئر ججوں کو ''فیڈرل جج‘‘ کے لقب سے جانا جاتا تھا اور پاکستان کی وفاقی عدالت، وفاقی دارالحکومت کراچی میں ہونے کے باوجود لاہور ہائیکورٹ کے باہر ایک ونگ سے کام کرتی تھی۔ مارچ 1956ء میں پاکستان کے پہلے آئین کے نفاذ نے اسے ''سپریم کورٹ آف پاکستان‘‘ کے طور پر دوبارہ ڈیزائن کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ملک کے عدالتی نظام کا چیف ایڈمنسٹریٹو آفیسر اور اعلیٰ ترین عدالتی افسر ہوتا ہے، جس کا درجہ فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس سے اوپر ہوتا ہے اور یہ وفاقی عدالتی پالیسیوں کی نگرانی اور سپریم کورٹ میں عدالتی کارروائی چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نامزدگی وزیراعظم پاکستان اور حتمی تقرریوں کی توثیق صدرِ مملکت کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید تھے۔ چیف جسٹس محمد حلیم سب سے طویل عرصے تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہے، وہ 23 مارچ 1981ء سے 31 دسمبر 1989ء تک (3205 دن) اس منصب پر فائز رہے جبکہ سب سے مختصر مدت کے لیے چیف جسٹس‘ جسٹس محمد شہاب الدین تھے جو محض نو دن (3 مئی تا 12 مئی 1960ء) اس منصب پر فائز رہے۔ اس فہرست میں افتخار محمد چودھری اس حوالے سے منفرد ہیں کہ وہ تین مختلف میعادوں میں 2480 دن تک اس منصب پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
ایک وقت تھا کہ لوگ عدالت کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی اپنے موبائل فون کی گھنٹی بند کر لیتے تھے کہ کہیں توہینِ عدالت نہ ہو جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جسٹس خواجہ شریف صاحب اور جسٹس سردار اسلم صاحب کی عدالت میں آمد پر لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت درست کیا کرتے تھے۔ وہ کبھی عدالت کے مقررہ وقت سے ایک منٹ بھی تاخیر کا شکار نہ ہوئے تھے۔ پھر جب وہ کسی فریق کو طلب کرتے تو وہ بھی ہمیشہ مقررہ وقت سے پہلے ہی پہنچتا کیونکہ تمام افراد جانتے تھے کہ اگر خدا نخواستہ کسی بھی وجہ سے ایک منٹ کی بھی تاخیر ہو گئی تو سخت ندامت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس زمانے میں اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان اپنے وقار کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ عدلیہ خود کو آئین، قانون اور اصولوں کی پابندی سے باہر نہیں نکلنے دیتی تھی، اسی لیے عدالت کے سامنے پیش ہونے والے فریقین بھی عدالتی آداب کا خوب لحاظ کرتے تھے۔ کمرۂ عدالت میں کسی کو اونچی آواز میں بات کرنے اور اجازت کے بغیر بولنے کی جرأت تک نہیں ہوتی تھی۔ کسی مقدمے میں ایک سے دوسری بار التوا مانگنے سے پہلے وکلا حضرات ہزار بار سوچتے تھے کہ کہیں شرمندہ نہ ہونا پڑ جائے۔
میں نے جب اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز عدالتی رپورٹنگ سے کیا تو پہلا سبق یہ دیا گیا تھا کہ جب بھی آپ نے عدالت کے احاطے میں پہنچنا ہے تو فوراً اپنا موبائل فون سائلنٹ کر لینا ہے تاکہ عدالت میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران موبائل فون کی گھنٹی سے عدالتی ماحول خراب اور عدالت کا وقار مجروح نہ ہو۔ دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ جب بھی عدالت میں داخل ہونا ہے تو پہلے تعظیم بجا لانی ہے اور جب کمرۂ عدالت سے باہر نکلنا ہے تو الٹے قدموں کا استعمال کرنا ہے تاکہ معزز عدالت (جج صاحبان) کی جانب پشت نہ ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وکلا، سائلین، اعلیٰ افسران، سرکاری اہلکار، صحافی اور قانون دانوں کے معاونین‘ سبھی کمرۂ عدالت سے نکلتے وقت الٹے قدموں کا استعمال کرتے تھے اور پھر دروازے سے نکلتے وقت دوبارہ تعظیم بجا لاتے اور کورٹ سے باہر نکل کر ہی سیدھا چلنا شروع کرتے۔ تیسرا سبق یہ دیا گیا کہ ہمیشہ یہ کوشش کرنی ہے کہ کیس کی خبر ان وکیل حضرات سے لی جائے جن کے حق میں فیصلہ ہوا ہے، کیونکہ بعض اوقات مقدمہ ہارنے والا وکیل اپنے مقصد یا مطلب کے مطابق خبر کے لیے فیصلے کی تشریح اپنی مرضی سے کر دیتا ہے جو بعد ازاں کسی نوٹس کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ خبر میں صرف کیس جیتنے والے کونسل کا نام دینا ہے، مقدمہ ہارنے والی پارٹی کے وکیل کا نام کبھی شائع نہیں کرنا۔ عدلیہ کے بعد وکلا کا احترام اور وقار ملحوظ رکھنا بھی کورٹ رپورٹنگ میں لازمی ہوتا ہے۔ پانچویں بات یہ تھی کہ اگر کسی خبر کی تصدیق یا تصحیح عدالتی عملے سے کرانا مقصود ہو تو عدالت کے برخاست ہونے تک انتظار کرنا چاہئے اور جب جسٹس صاحب عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے جائیں تو اس کے بعد ہی کورٹ افسران سے کیس کی فائل لے کر یا تفصیلات پوچھ کر اپنے نکات مکمل کرنے ہیں۔
عدالتی خبر بناتے وقت‘ خصوصاً اعلیٰ عدلیہ کی رپورٹنگ میں بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ازحد ضروری تھا۔ سب سے اہم یہ تھاکہ خبر کے آغاز میں عدالتِ عالیہ یا عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کے نام کے ساتھ ''جج جناب جسٹس‘‘ یا ''جج مسٹر جسٹس‘‘ کے الفاظ ضرور لکھنے ہیں۔ اگر کسی خبر میں معزز جج صاحبان کے نام کے ساتھ مذکورہ الفاظ نہ لکھے جاتے تو اگلی صبح پیشی، سرزنش، جرمانہ یا سزا بھی بھگتنا پڑ سکتی تھی۔ خبر میں عدالتی ریمارکس میں الفاظ من و عن لکھنا پڑتے تھے اور صحافتی آداب کا بڑا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ اب یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اب ہائیکورٹ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کی رپورٹنگ میں بھی خبر بناتے وقت آداب ملحوظِ خاطر نہیں رکھے جاتے اور اہم ترین کیس کی رپورٹنگ بھی ایک عام واقعے کی طرح کی جاتی ہے جو ہرگز اچھی روایت نہیں ہے۔ موجودہ دور میں عدالتی رپورٹنگ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا ساری سختیاں، پابندیاں، آداب، قاعدے اور قانون ہمارے لیے ہی تھے کہ کمرۂ عدالت میں سانس بھی روک کر لینا پڑتی تھی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حلف برداری سے اب پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے نئے چیف جسٹس اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے کی شہرت رکھتے ہیں، اسی لیے ان سے یہ بھی امید ہے کہ آئین و قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اب ان کی سربراہی میں عدالتی وقار کو بحال کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی۔