جیلوں میں صحت اورآئینی حقوق کی ناگفتہ بہ صورتحال

وطن عزیز ایک اسلامی جمہوریہ ہے، ہمارا مذہب اسلام انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کے بنیادی حقوق کا بھی محافظ ہے جبکہ پاکستان کے آئین میں بھی تمام شہریوں کو یکساں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تھانے، کچہری اور جیلوں کے معاملات انتہائی گمبھیر بلکہ خوفناک صورت اختیار کر چکے ہیں۔ بظاہر قانون صرف غریبوں کے لیے ہے، غریب جرم نہ بھی کرے تو ایک الزام ہی اس کی پوری زندگی برباد کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے جبکہ امیر جرم کرکے بھی سزا ہونے تک ملزم کے بجائے ایک وی آئی پی رہتا ہے اور سزا کے بعد بھی اپنی دولت کے بل پر غریب مدعی کو صلح پر مجبور کر لیتا ہے۔ ہماری پولیس کا سلوگن ہے ''نفرت جرم سے ہے‘ انسان سے نہیں‘‘ لیکن جو زمینی حقائق ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے دل سے ہمیشہ یہی دعا نکلتی ہے کہ خدا کسی دشمن کو بھی تھانے‘ کچہری کا سامنا نہ کرائے۔ بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جیلوں میں گنجائش سے کئی گنا زائد لوگ قید ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء تک ملک کی 91 جیلوں اور قید خانوں میں گنجائش سے دو گنا سے بھی زیادہ لوگ قید تھے۔ گنجائش سے کئی گنا زائد قیدیوں کے باعث جیلوں میں صحت کی سہولتیں شدید متاثر ہوتی ہیں جبکہ سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اکثر قیدی متعدی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیلوں میں قید افراد صحت کی بنیادی ضروریات‘ ادویات اور علاج تک رسائی سے بھی محروم رہتے ہیں۔ 2020ء میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران جیلوں میں صحت کی عدم سہولتیں بے نقاب ہو گئی تھیں۔ اسی دوران ایسے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہوئے کہ بے شمار قیدی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن ان کا کچھ علاج نہیں کیا جا رہا۔ گزشتہ برس آنے والے سیلاب نے بھی قیدیوں کو سیلابی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار بنایا ہے۔
جیلوں میں صحت کی ناقص دیکھ بھال قیدیوں کے حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں بشمول تشدد اور بدسلوکی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور یہ ہمارے نظام انصاف کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جیل اہلکاروں اور محافظوں کی بدعنوانی اور بدسلوکی پر عدم کارروائی کی بدولت جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ان سنگین خلاف ورزیوں میں ناکافی اور غیر معیاری خوراک، غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی اور ادویات و علاج تک رسائی نہ ہونا شامل ہیں۔ جیلوں میں علاج معالجے کی سہولتوں کا بحران پاکستان بھر میں شعبہ صحت کے سنگین مسائل کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت معاشی بحران نے ہماری اقتصادیات کو شدید مشکل صورت حال سے دوچار کر رکھا ہے اور حالات کافی گمبھیر بنا دیے ہیں جبکہ گزشتہ وفاقی بجٹ میں اپنی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی)کا تین فیصد سے بھی کم صحت کے لیے مختص کیا گیا جو عالمی ادارۂ صحت کے معیار سے کہیں کم ہے۔ رواں سال مارچ میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کی جیلوں میں قیدافراد کی صحت کی دیکھ بھال میں وسیع پیمانے پر پائے جانے والے نقائص کی نشاندہی کی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے 88 ہزار سے زائد قیدیوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں صوبہ سندھ، پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق قیدیوں کے انٹرویوز کو بھی حصہ بنایا گیا۔ خواتین اور نوعمر بچوں کے علاوہ قبل از ٹرائل قیدیوں اور سزا یافتہ قیدیوں کے علاوہ وکلا، جیل میں صحت کے اہلکاروں اور قیدیوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندوں کے انٹرویوز بھی اس رپورٹ میں شامل کیے گئے۔ اگرچہ اس میں پاکستان کی تمام جیلوں اور قید خانوں کا مکمل سروے نہیں کیا جا سکا لیکن ملک بھر میں جیلوں کی متنوع آبادیوں کے ساتھ کام کرنے والے وکلا کے انٹرویوز اس رپورٹ کے نتائج کی تصدیق کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں اور قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کی دیگر رپورٹس سے بھی ان تمام خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ قیدیوں کو جیلوں میں کسی قسم کی کوئی طبی مدد یا علاج کی سہولت نہیں ملتی۔ دسمبر 2021ء میں لاہور کی کیمپ جیل میں چھ قیدیوں کی حراست میں لیے جانے کے دو ہفتوں کے اندر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ جیل میں ان کی صحت کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی اہلکار موجود نہیں تھا، منجمد درجہ حرارت کے باوجود بیرکوں میں حرارت کا کوئی اہتمام نہیں تھا جبکہ جیل نے قیدیوں کو گرم کپڑے بھی فراہم نہیں کیے تھے۔ ان قیدیوں کی موت کے باوجود بھی اصلاحات یا احتساب بارے نہیں سوچا گیا۔ یہ تو محض ایک مسئلہ ہے۔ جیلوں میں پولیس اور جیل حکام کی طرف سے بڑے پیمانے پر تشدد بھی ایک کھلی حقیقت ہے۔ اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف شاذ ہی کوئی مقدمہ چلایا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں جیلوں کے حالات آزادی سے قبل ہی سے خراب ہیں۔ جیلوں کے زیادہ تر قوانین کا تعلق نوآبادیاتی دور ہی سے ہے؛ تاہم جیل میں ضرورت سے زیادہ قیدی ٹھونسنے کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے۔ پاکستان کی جیلوں میں قید افراد کی زیادہ تعداد معاشرے کے غریب ترین طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لوگ رشوت دینے، ضمانت حاصل کرنے یا ایسے وکیلوں کی خدمات حاصل کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں جو انہیں متبادل حل تلاش کرنے میں مدد دے سکیں۔ اس پر مستزاد حکومتی اور معاشرتی رویے‘ جو قیدیوں کو ''سزا کا مستحق‘‘ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان میں سبھی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے جیلوں میں اصلاحات کی ضرورت کو نظر انداز کیا ہے۔ قیدیوں سے بدسلوکی کی بھیانک مثالیں شاید ہی کبھی پارلیمان کی توجہ حاصل کرنے یا کسی تبدیلی کو جنم دینے کے قابل سمجھی گئی ہوں۔ ناقص انفراسٹرکچر اور بدعنوانی نے جیل میں صحت کی سہولتوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ جیل کی ڈسپنسریوں میں طبی عملے، مناسب بجٹ، ای سی جی مشینوں جیسے ضروری آلات اور مناسب مقدار میں ایمبولینس گاڑیوں کی شدید کمی ہے۔ وسیع پیمانے پر بدعنوانی نے پاکستان کے سرکاری اداروں کو کئی دہائیوں سے متاثر کر رکھا ہے، فوجداری انصاف اور جیلوں کے نظام کو عام طور پر بدعنوان ترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ رشوت ستانی کے کلچر نے دولت اور اثر و رسوخ رکھنے والوں اور دیگر تمام قیدیوں کیلئے دو الگ الگ نظام بنائے ہوئے ہیں۔ بیشتر قیدیوں کو بنیادی سہولتوں اور صحت کی دیکھ بھال سے بھی محروم رکھا جاتا ہے جس کے وہ قانون کے تحت حقدار ہیں جبکہ امیر اور بااثر قیدیوں کا ایک چھوٹا گروپ سنگین جرائم میں بھی اپنی سزا جیل سے باہر کاٹتا ہے۔ اسی طرح غریب قیدیوں کو درد کش ادویات کے حصول کیلئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے جبکہ بااثر ملزمان اپنی دولت کے بل بوتے پر قید میں بھی وی آئی پی ماحول اور پروٹوکول کا بندوبست کر لیتے ہیں۔پاکستانی جیلوں میں قیدیوں کے بنیادی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں اور ان حالات میں عدالت عظمیٰ کا ایک حالیہ فیصلہ ہوا کا تازہ جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے قیدیوں کی پروبیشن پر رہائی کے قوانین پر فوری عملدرآمد کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو پروبیشن کے اہل تمام افراد کی رہائی یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ پروبیشن پر رہائی کے قوانین کا فعال ہونا یقینی بنائیں، قیدیوں کوآزادانہ نقل و حرکت کے سوا تمام آئینی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کی جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے آئینی حقوق کی فراہمی ناممکن ہو چکی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ریاست غریبوں کیلئے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے کردار ادا نہیں کر رہی، آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں جیلوں کی ایسی حالتِ زار ناقابلِ برداشت ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر قیدی کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔ ماضی میں بھی عدالتیں ایسے فیصلے دے چکی ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور انسان سمجھتے ہوئے قیدیوں کو ان کے تمام جائز آئینی حقوق فراہم کیے جائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں