خاندانی نظام کی بنیاد شادی پہ ہوتی ہے۔ یوں تو دنیا کے ہر مذہب و معاشرے میں شادی کی اہمیت واضح ہے مگر دین اسلام میں نکاح کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریۂ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض نفسانی خواہشات کی تکمیل اور تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں‘ اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائز اور مہذب طریقے کے ساتھ پورا کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور اسلام نے نکاح کو انسانی بقا و تحفظ کے لیے بھی ضروری بتایا ہے۔ نکاح حضور اکرمﷺ اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ شریعت اسلامیہ کے تمام احکام میں انسانوں کی فلاح و بہبود اور گہری حکمت پوشیدہ ہے۔ فقہ اسلامی میں ایک بنیادی قاعدہ ہے کہ زمان و مکان کے بدلنے سے بہت سارے احکام بدل جاتے ہیں، جیسا کہ زمانہ رسالت میں صحابہ کرام چپل پہن کر مسجد میں داخل ہوتے تھے اور اسی طرح نماز بھی پڑھتے تھے، مگر آج ایسا کرنا عرف کے موافق و مطابق معلوم نہیں ہوتا کیونکہ زمانے کے ساتھ تقاضا بدل گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُس زمانہ میں ایک الگ قسم کی چپل پہنی جاتی تھی۔ اسی طرح شادی کی عمر کے حوالے سے بھی برصغیر پاک و ہند میں اکثر بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے۔ اس خطے میں زمانے کے تقاضے کے مطابق شادی کی عمر میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اگر دورِ حاضر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا غیر مسلم‘ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کے لیے ایک عمر متعین ہے۔ برصغیر میں لڑکوں کیلئے 21 سال اور لڑکیوں کیلئے 18 سال کی عمر کو بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی صراحت کے ساتھ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کی عمر کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شادی کی عمر متعین کرنے کا مسئلہ نصوصِ قطعیہ میں سے نہیں ہے؛ البتہ ایسی بہت ساری آیات اور احادیث ہیں جن سے فقہا کرام استدلال کرتے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جس کے پاس گھر بسانے کی طاقت ہو وہ شادی کر لے۔ اب سوال یہ ہے کہ نوجوان کتنی عمر والے کو کہتے ہیں۔ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ19سے 21 سال کی عمر والے کو نوجوان کہتے ہیں جبکہ عمومی طور پر چھوٹے بچے اور پچیاں گھر بسانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
گھرانے یعنی خاندان کی تشکیل میں شادی کا اہم کردار ہونے کی وجہ سے دینِ مبین میں ازدواجی زندگی تشکیل دینے کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید کی سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے (غیر شادی شدہ) غلاموں اور لونڈیوں کے بھی، جو نیک ہوں (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے خوش حال کر دے گا اور اللہ (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے‘‘ (سورۂ نور: 32)۔ نبی کریمﷺ بھی مسلمانوں سے شادی کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔ یہاں پر جو بات اہم ہے وہ ازدواجی زندگی کی ترغیب کے بارے میں اسلام کے طریقہ کارکو جاننا ہے۔ سب سے پہلے ان عوامل کا ازالہ ضروری ہے جو شادی دیر سے یا بالکل نہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بعد جوانوں کو شادی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ شادی کی ترویج میں یہی نکتہ اسلام کا طریقہ کار ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو کم سن بچیوں کی حوالگی کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے پسند کی شادی کے بعد ناراض ہونے والے جوڑے کو جھاڑ پلا دی۔ یہی خبر زیر نظر کالم کی بنیاد بنی اور سوچا کہ آج زندگی کے اس اہم پہلو ہی پر بات کی جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران دونوں بچیوں کو ماں کے سپرد کرنے کا حکم دیا۔ فیصلے کے مطابق بچیوں کے والد اتوار کو صبح10 سے شام 5 بجے تک بچیوں سے ملاقات کر سکیں گے۔ والد کی جانب سے عدالتی حکم عدولی پر توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی۔ درخواست گزار بچیوں کے والد کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بچیاں والد کے پاس ہونی چاہئیں کیونکہ ماں رات کی نوکری کرتی ہے، بچیوں کی ماں کے پاس دیکھ بھال کا وقت نہیں ہوتا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وکیل صاحب! اسلام کا اصول آپ نے پڑھا ہے یا نہیں؟ شریعت کے مطابق بچے ماں کے پاس رہتے ہیں، ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، ہمارے کام مسلمانوں والے نہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مسلمان صرف نام کا نہیں ہونا چاہیے‘ عمل بھی ہونا چاہیے۔ محض عبادات کافی نہیں‘ انسانیت اور اخلاقیات بھی لازم ہیں۔ والدین کی آپس کی ناراضی بچوں کا مستقبل خراب کر دے گی۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بچیوں کے والد سے سوال کیا کہ آپ نے پسند کی شادی کی یا ارینج میرج تھی؟ جس پر والد نے عدالت میں جواب دیا کہ میری پسند کی شادی تھی۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ خود محبت کی شادیاں کر لیتے ہیں پھر مسائل عدالت کے لیے بن جاتے ہیں۔
یہاں کورٹ رپورٹنگ کا ایک تلخ تجربہ بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ میاں بیوی کے مابین ہر گھر میں لڑائی جھگڑا، تکرار اور اختلاف ہوتا رہتا ہے، ناراضیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں لیکن خاندانی نظام کی خوبصورتی یہی ہے کہ اول تو یہ تلخیاں اور ناراضیاں وقتی ہوتی ہیں اور چند لمحات کی تلخی کے بعد میاں بیوی کے تعلقات دوبارہ معمول کے مطابق خوشگوار ہو جاتے ہیں، بعض اوقات جب معاملہ طول پکڑ جائے تو خاندان کے بزرگ یا دوست احباب صلح کروا دیتے ہیں، لیکن معاملہ اس وقت بالکل بگڑ جاتا ہے جب باہمی اختلاف کے باعث دونوں شریکِ حیات (میاں بیوی) میں سے کوئی ایک فریق وکیل صاحب کے پاس چلا جائے۔ یہیں سے گڑ بڑ شروع ہوتی ہے۔ سینئر وکلا خاندانی مسائل میں اکثر اپنے کلائنٹ کو مقدمات سے بچنے اور عدالت سے باہر صلح کرنے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن بعض وکلا صرف اپنی فیس بٹورنے اور کیس کو طول دینے کے لیے کلائنٹ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کا کیس کمزور ہے‘ اسے مضبوط کرنے کے لیے کوئی ٹھوس الزام عائد کرنا پڑے گا، بس وہیں سے معاملہ خراب ہونا شروع ہوتا ہے اور پھر صلح و صفائی کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ جب کیس کے مندرجات فریقِ دوم کے سامنے آتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ مجھ پر چونکہ جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہے لہٰذا اب کسی طور صلح نہیں ہو سکتی۔ عدالتوں میں بھی اکثر ججز کی کوشش ہوتی ہے کہ عائلی کیسز میں صلح ہو جائے اور اس کے لیے فریقین کو متعدد مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں جو اکثر کامیاب رہتے ہیں۔
شادی انسان ہمیشہ اپنی مرضی اور پسند ہی سے کرتا ہے اور ایسی شادیوں کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے جو مرد یا عورت‘ دونوں کی رضامندی کے بغیر ہوں۔ شروع میں تو میاں بیوی ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں اور بڑی چاہت جتاتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمر، حالات اور ذمہ داریوں کے باعث ان میں کمی آنا ایک فطری عمل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تعلقات میں دراڑیں پیدا ہو جائیں کیونکہ اس سے صرف دو افراد (میاں بیوی) ہی متاثر نہیں ہوتے‘ سب سے زیادہ تو بچے ہوتے ہیں بلکہ پورے خاندان کا سکون برباد ہو جاتا ہے لہٰذا شادی جیسے اہم ترین بندھن کا فیصلہ انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے اور جب نکاح ہو جائے تو پھر اس کے بعد اس تعلق کو ہمیشہ نبھانا چاہئے اور اگر خدانخواستہ کسی ایک فریق کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ معاملہ پیش آئے تو دوسرے کو اسے برداشت کرنا چاہئے کیونکہ رشتے احساس سے چلتے ہیں۔