تین ہفتوں سے جاری اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے باعث 365 سکوائر کلومیٹر غزہ کی پٹی کے رہائشی علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی تو جنگ کی آگ پورے خطے میں پھیل سکتی ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں بدترین جنگی جرائم اور سفاکانہ قتل و غارت کا ارتکاب کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے شہید کر دیا ہے۔ مسلسل بمباری سے غزہ کے ہسپتال قبرستانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، رہائشی علاقے کھنڈرات بن گئے ہیں۔ 2006ء سے اسرائیلی محاصرے میں دنیا کی سب سے بڑی جیل غزہ میں کوئی مقام محفوظ نہیں رہا، اسرائیلی بمبار طیارے آتے ہیں اور موت برسا کر نکل جاتے ہیں۔ زمین پر صرف ایمبولینسوں کے چیختے سائرن، زخمیوں کی سسکیاں اور شہدا کے لواحقین کی آہیں ہی سنائی دیتی ہیں، جس کے بعد کچھ دیر کا سناٹا اور پھر دوبارہ بمباری شروع ہو جاتی ہے۔ غزہ میں21 روز سے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند ہے، بجلی اور ایندھن کے بغیر ہسپتال کام کرنے سے قاصر ہیں۔ غزہ پر فضائی بمباری کے بعد اسرائیل نے زمینی حملوں کا آغاز بھی کر دیا ہے، اسرائیلی فوج نے غزہ میں داخل ہونے کی کوشش کی، ٹینکوں نے جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں میں گولہ باری کرکے کئی رہائشی عمارتیں تباہ کر دیں، لیکن ابھی تک اسرائیل اور اس کے حامی بے گناہوں کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ حالات تباہی کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ ایسے میں پوری دنیا میں صدائے احتجاج بلند کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ فوری جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں۔ اب ایک یہودی عالم اور قانون دان ربی یسروئیل فیلڈمین نے اسرائیل سے تمام زمینیں فلسطینی عوام کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہودی مذہبی رہنما نے اپنے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اسرائیلی صہیونی یہودیوں کی نمائندگی نہیں کرتے، انہیں چاہیے کہ تمام زمینیں فلسطینی عوام کو واپس کی جائیں، بطور یہودی ہم فلسطینی حکومت کے تحت زیادہ محفوظ رہیں گے، انہوں نے اپنے پیغام میں یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہودی کبھی بھی زمین پر اپنی الگ ریاست قائم نہیں کر سکتے، تورات اس سے منع کرتی ہے۔ صہیونیوں نے تورات کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے اور تورات کی تعلیمات کے برعکس مقدس سرزمین پر ایک غیر مذہبی صہیونی ریاست قائم کی ہے۔ ربی یسروئیل کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صہیونیوں کے قبضے میں لی گئی تمام زمینیں فلسطینی عوام کو واپس کی جائیں۔ اس کے علاوہ نیویارک میں بھی ایک لاکھ سے زائد یہودیوں نے احتجاج کیا اور اس احتجاج کا نعرہ تھا: ''ناٹ اِن آور نیم‘‘، یعنی فلسطینیوں اور غزہ پر ہمارے (یہودیوں کے) نام پر ظلم کرنا بند کرو۔ کئی دیگر یہودی مذہبی رہنمائوں کے وڈیو پیغامات بھی اس وقت وائرل ہیں جن میں وہ بتا رہے ہیں کہ اسرائیلی حکام کی ظالمانہ پالیسیوں کے سبب پوری دنیا میں یہودیوں کی جان کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں، اسرائیلی خود کو یہودی کہتے ہیں حالانکہ وہ یہودی نہیں بلکہ صہیونی ہیں‘ جو یہودیوں کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
تادم تحریر غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری جاری ہے، اب تک سات ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں طبی سہولتیں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں صحت کا بحران تباہ کن حدوں کو چھو رہا ہے، جان بچانے والی امداد کی غزہ تک بلا رکاوٹ رسائی ہونی چاہیے۔ ہر گزرتا لمحہ بے حساب جانوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، دنیا کو جان بچانے کے ہمارے مشن میں مزید رکاوٹوں کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ عالمی امدادی اداروں کی دہائیوں کے باوجود غزہ میں ایندھن اب تک نہیں پہنچایا جا سکا، اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر ایندھن کی فراہمی فوری طور پر بحال نہ ہوئی تو امدادی آپریشن رک جائے گا۔ فلسطینی ہلالِ احمر سوسائٹی کے مطابق رفح کراسنگ بارڈر سے امدادی سامان کے مزید 12 ٹرک غزہ پہنچے ہیں جبکہ غزہ میں روزانہ کم از کم 100 ٹرک امدادی سامان کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 6 روز میں صرف 74 ٹرک ضروریات کا سامان لے کر غزہ جا سکے ہیں جو وہاں کے بیس لاکھ سے زائد لوگوں کی ضروریات کا عشر عشیر بھی نہیں۔ دوسری جانب اسرائیل مسلسل بے گناہوں کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اب تک تین ہزار سے زائد بچے اور 1700 سے زائد خواتین شہید ہو چکی ہے۔ اسرائیلی دہشت گردی کا سب سے زیادہ معصوم بچے شکار ہو رہے ہیں۔ تقریباً 2 لاکھ مکانات مکمل یا جزوی تباہ ہو چکے ہیں، 14 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں زخمیوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ 940 بچوں سمیت 1650 فلسطینی لاپتا ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ لاپتا افراد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبوں تلے دبے ہوئے ہیں مگر جیسے جیسے امدادی کارروائیوں میں تاخیر ہوتی جا رہی ہے، مذکورہ افراد کے بچنے کی امید دم توڑتی جا رہی ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے 12 ہسپتال اور 57 طبی مراکز بھی مکمل طور پر ناقابلِ استعمال ہو چکے ہیں۔ غزہ کے ہسپتالوں کے مناظر نے دیکھنے والوں کو رلا دیا ہے۔ سو سے زائد میڈیکل ورکرز اور درجنوں صحافی بھی اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک انٹرنیشنل ٹی وی چینل کے بیورو چیف کے گھر پر اسرائیلی فضائیہ نے بمباری کی، اس حملے میں صحافی کی بیوی، بیٹی اور بیٹا شہید ہو گئے جبکہ خاندان کے دیگر افراد اب تک لاپتا ہیں۔ جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں بھی ایک صحافی کے گھر پر بمباری کی گئی جس سے اس کے بیوی بچے شہید ہو گئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تمام واقعات بھی اسرائیلی، امریکی، برطانوی اور یورپی ممالک کے سفاک حکمرانوں اور انسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیموں کے پتھر دلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکے۔
اقوام متحدہ کی بے بسی نے اس ادارے کے جواز پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ کئی اجلاسوں کے باوجود ابھی تک کچھ نہ ہو سکا اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی تاحال جاری ہے۔ مختلف ممالک نے یو این سے فوری مداخلت کر کے جنگ بندی کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے‘ دنیا کو چھ ہزار فلسطینیوں کی رہائی کی بھی حمایت کرنی چاہیے۔ ان کا ملک اسرائیل‘ حماس جنگ کا پھیلائو نہیں چاہتا لیکن غزہ میں نسل کشی جاری رہی تو امریکہ بھی اس آگ سے نہیں بچ پائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی جرائم رکوانے کیلئے یو این جنرل اسمبلی میں قرارداد لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تین ہفتوں سے اسرائیل کے جنگی جرائم دیکھ رہے ہیں اس کے باوجود امریکہ اور کچھ یورپی ممالک اسرائیل کی قابض حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ اردن نے بھی فوری جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے عوام کے خلاف بھوک کا ہتھیار استعمال کرنے کی شدید مخالفت اور دہری پالیسیوں کو مسترد کرتے ہیں، اسرائیل کو ماورائے قانون حیثیت دینا ناقابلِ قبول ہے‘ غزہ کے شہریوں کو اجتماعی سزا دینا اپنا دفاع نہیں بلکہ جنگی جرم ہے۔
غزہ کے لیے امدادی سامان لے کر مزید 12 ٹرک رفح کراسنگ پہنچ چکے ہیں، ان ٹرکوں میں خوراک، دوائیں اور طبی ساما ن موجود ہے لیکن ایندھن شامل نہیں‘ جس کی ہسپتالوں کو اشد ضرورت ہے۔ امدادی خوراک ضرورت کے مقابلے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ بارود کے ساتھ ساتھ بھوک بھی مظلوم فلسطینیوں کے لیے مہلک جنگی ہتھیار بن چکی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کا دہرا معیار اور غیر انسانی رویہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جس طرح اسرائیل کے اتحادی عملی طور پر اس جنگ میں شریک ہیں‘ اس طرح فلسطین کے حق میں مسلم ممالک کا کردار سامنے نہیں آیا اور عرب دنیا سمیت مسلم حکمران صرف مذمتی بیانات سے کام چلا رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ یہ بحران پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے، مسلم دنیا کو زبانی مذمت سے آگے بڑھ کر عملی طور پر میدان میں کودنا چاہیے، اس کے بغیر صہیونی فاشسٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔