غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک معاہدے کے تحت عارضی جنگ بندی کا آغاز بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کم ازکم اس چار روزہ جنگ بندی کے دوران شہدا کی تدفین، زخمیوں کی مرہم پٹی و سرجرسی، ادویات و خوراک کی ترسیل، متاثرین کی محفوظ پناہ گاہوں میں منتقلی، لاپتا افراد کی تلاش، ملبے تلے سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کے علاوہ وحشیانہ بمباری کے دوران بچھڑنے اور بکھرنے والے خاندانوں کو اکٹھا ہونے کا موقع تو مل سکے گا؛ تاہم اتنے وسیع پیمانے پر تباہی کے بعد محض چار روزہ عارضی جنگ بندی قطعی ناکافی ہے اوراس دوران تمام شہدا کی تدفین اور زخمیوں کی مرہم پٹی بھی ممکن نہیں لہٰذا عالمی طاقتوں کو مستقل جنگ بندی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور اسرائیل کو جنگی جرائم سے باز رکھنا ہو گا۔
عارضی جنگ بندی کا آغاز گزشتہ روز غزہ کے مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ہوا جو چار روز یعنی منگل کی صبح سات بجے تک جاری رہے گی۔ معاہدے کے مطابق حماس نے گزشتہ شام ابتدائی طور پر 12 یرغمالی خواتین اور بچوں کو رہا کیا جن میں سے بیشتر غیر ملکی تھے۔ معاہدے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا اور چار دنوں میں مجموعی طور پر پچاس یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ بدلے میں اسرائیل 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ قبل ازیں جنگ بندی کے آغاز کے باوجود کئی گھنٹوں تک لڑائی جاری رہی؛ تاہم اب غزہ میں انسانی امداد کاسلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ معاہدے کے ثالث فریق قطر کے مطابق یہ جنگ بندی جامع ہے اور شمالی غزہ کے ساتھ ساتھ جنوبی غزہ میں بھی برابر نافذ العمل ہو گی۔ دونوں جانب سے خواتین اور اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو رہا کیا جائے گا جبکہ اسرائیل جن فلسطینیوں کو رہا کرے گا‘ وہ اسرائیل کی تین مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقوں سے اسرائیلی فوجی طیاروں کی پروازیں بند ہو گئی ہیں جبکہ قطر نے دوحہ میں ایک آپریشن روم بھی قائم کر دیا ہے جہاں وہ غزہ سے بروقت معلومات حاصل کرے گا۔ قطری نمائندے اسرائیلی فوج اور حماس کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہیں اور اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ فریقین معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ یہ جنگ بندی برقرار رہ سکے۔ سرِدست جنگ بندی چار دن تک جاری رہے گی مگر حکام امید کر رہے ہیں کہ یہ چار دن سے آگے بھی بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت حماس کے پاس لگ بھگ 250 اسرائیلی ہیں جبکہ اسرائیل میں 7200 فلسطینی شہری قید ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ مجبوری کے تحت ہی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے ورنہ اسرائیلیوں میں انسانیت یا انسانی ہمدردی نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ اولاً یہ معاہدہ جمعرات کو نافذ العمل ہونا تھا مگر جمعرات کو اسرائیل نے دوبارہ حملے شروع کر دیے اورجنگ بندی ایک روز کے لیے مؤخرکر دی۔ اب جنگ بندی کا آغاز جمعہ کی صبح سے ہوا۔ 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک تقریباً 15 ہزار فلسطینی شہریوں کے شہید ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 7 ہزار سے زائد لاپتا ہیں، اس جنگ میں 36 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ عارضی جنگ بندی معاہدے کے باوجود فریقین نے یہ اشارہ دیا کہ لڑائی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے اور یہ وقفہ عارضی ہو گا۔ اگر ماضی قریب کی تاریخ کو دیکھا جائے تو فریقین کے مابین تمام جنگ بندیاں عارضی ثابت ہوئیں۔
ادھر تل ابیب نے تصدیق کی ہے کہ وہ 7 اکتوبر کے بعد سے حماس کو عسکری اور سیاسی طور پر ختم کرنے کے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے شروع ہونے والی لڑائی کو جمعہ کو 49 دن مکمل ہو گئے اور اس بربریت میں جو پندرہ ہزار فلسطینی شہید ہوئے‘ ان میں 6 ہزار سے زائد بچے اور 4 ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔ لگ بھگ 4700 بچے اور خواتین بھی لاپتا فلسطینیوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ شہید ہو چکے ہیں اور ان کی لاشیں تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ ایک امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پورے سال‘ دنیا کے چوبیس ممالک میں ہونے والی جنگوں میں مجموعی طور پر 2895 بچے ہلاک ہوئے جن میں یوکرین جنگ میں مرنے والے بچے بھی شامل ہیں جبکہ پچھلے چھ ہفتوں کے دوران صرف غزہ میں پانچ ہزار سے زائد بچوں کی شہادت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اسرائیل کے اپنے بیان کے مطابق اس نے غزہ پر پندرہ ہزار سے زائد فضائی حملے کیے ہیں جن میں جنوبی غزہ پر کیے گئے حملے بھی شامل ہیں اور اسے اکیسویں صدی کی ہولناک ترین بمباری کہا جا رہا ہے۔ امریکہ میں افغانستان جنگ میں پورے سال میں جتنا بارود برسایا‘ اسرائیل اس سے کہیں زیادہ اس پچاس روزہ جنگ میں مختصر سی غزہ پٹی پہ برسا چکا ہے۔ صہیونی فوج کے حملوں میں غزہ کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے، ہسپتال، امدادی و تعلیمی ادارے تک کھنڈر بن چکے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی پر پوری دنیا سراپا احتجاج ہے لیکن صہیونی فوج اوراس کے حامی انسانیت سے عاری نظر آتے ہیں جسے دیکھتے ہوئے ذہنوں میں بجا طور پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ چار روز جنگ بندی کا یہ معاہدہ قائم رہ پائے گا یا ٹوٹ جائے گا؟ اسرائیل اور حماس کے تنازعات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ فریقین کے مابین طے پانے والے معاہدات برقرار نہیں رہ سکے۔ 2008ء میں مصر کی ثالثی سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کے بعد چھ ماہ کے لیے جنگ بندی ہوئی تھی جو 19 جولائی کو نافذ ہوئی، اس جنگ بندی میں غزہ پر فوجی اور اقتصادی محاصرے میں نرمی اور تمام سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے کی شقیں بھی شامل تھیں مگر یہ جنگ بندی صرف ایک ماہ بعد‘ اگست میں ہی اس وقت ختم ہوگئی جب اسرائیل نے ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر زمینی حملہ کر دیا۔ 2012ء میں غزہ پر آٹھ دن کی شدید اسرائیلی بمباری کے بعد امریکہ اور مصر کی ثالثی سے ایک معاہدہ طے پایا جس میں طویل مدت تک کی جنگ بندی کے علاوہ غزہ میں انسانی امداد پہنچانے اور کراسنگز کھولنے پر اتفاق کیا گیا؛ تاہم یہ جنگ بندی اس وقت ناکام ہو گئی جب تل ابیب نے معاہدے کے ثالث مصر پر حماس کا ساتھ دینے کا الزام لگایا۔ 2014ء میں غزہ میں 50 دن تک جاری رہنے والی جنگ اور 2 ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد ایک جنگ بندی معاہدہ ہوا اور اس میں بھی جنگ بندی‘ انسانی امداد اور تعمیرِ نو کے سامان کی نقل و حمل کے لیے کراسنگز کھولنے کی شرط رکھی گئی مگر یہ جنگ بندی معاہدہ بھی ناکام ہو گیا اور اس کی ناکامی کی ذمہ داری اسرائیل اور حماس نے ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت اور عوام پورے دل و جان سے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گزشتہ روز سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے فلسطین کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، غزہ کے زخمیوں کو پاکستان میں میڈیکل سہولت دینا چاہتے ہیں۔ غزہ کی صورتحال بہت گمبھیر ہے، بیشتر میڈیکل سہولتیں تباہ ہو چکی ہیں، اس وقت کوئی ملک غزہ میں ہسپتال قائم کرنے کے قابل نہیں‘ ہم اردن اور مصر سے رابطے ہیں‘ زخمیوں کو پاکستان میں میڈیکل سہولت دینا چاہتے ہیں۔ حکومت پاکستان کا یہ اعلان خوش آئند مگر وقت کم اور غزہ میں تباہی بہت زیادہ ہے لہٰذا اس عارضی جنگ بندی کو غنیمت جانتے ہوئے فلسطین کے تمام حامی بالخصوص عرب ممالک کو چاہئے کہ سب سے پہلے زیادہ سے زیادہ زخمیوں کو ریسکیو کریں تاکہ مزید انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور اس کے بعد مستقل جنگ بندی کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، لیکن پھر وہی بات کہ وقت بہت کم ہے اس لیے اعلانات کے بجائے پوری دنیا‘ خصوصاً مسلم ممالک کو فوری ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ یہ تباہی پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔