دنیا کے کسی بھی ملک میں پناہ گزینوں کو کیمپوں یا مخصوص علاقوں تک محدود رکھا جاتا ہے، انہیں عام طور پر کوئی کاروبار یا ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ آزادانہ طور پر دوسرے علاقوں یا شہروں میں نقل و حرکت کر سکتے ہیں جبکہ کسی بھی ملک میں ویزا یا اجازت کے بغیر غیر قانونی ذرائع سے داخل ہونا سنگین جرم اور داخلی سلامتی و خودمختاری کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر ملک کا یہی قانون ہے کہ کوئی بھی غیر قانونی غیر ملکی جب پکڑا جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے مقامی قوانین کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعد ازاں اسے ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے، لیکن وطن عزیز پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پناہ گزینوں کو نہ صرف کیمپوں سے باہر ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے بلکہ وہ یہاں مقامی شہریوں سے زیادہ ملازمتیں اور کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پناہ گزین (بالخصوص افغان باشندے) یہاں اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں بھی بنا چکے ہیں۔ بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید پھر بھی قابلِ قبول تھی مگر مصدقہ خبروں کے مطابق‘ لاکھوں افغان مہاجرین نے نادرا اور دیگر متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات بھی حاصل کر رکھے ہیں اور وہ پاکستانی دستاویزات پر نہ صرف بیرونِ ملک سفر کرتے ہیں بلکہ کئی دیگر ممالک میں ملازمت و کاروبار بھی کر رہے ہیں اور جب وہ وہاں کوئی جرم کرتے ہیں تو بدنامی پاکستان کے حصے میں آتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب میں 30 ہزار افغان باشندے پکڑے گئے تھے جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ اسے ایک ٹریلر سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ دیگر ممالک میں بھی ایسے بیشمار لوگ موجود ہوں گے۔ یہ ایسے غیر ملکیوں (افغانوں) کی بات ہو رہی ہے جو بطور پناہ گزین یہاں آئے اور جن کا ریکارڈ اور ڈیٹا کسی نہ کسی شکل میں ہماری حکومت اور قومی اداروں کے پاس موجود ہے، لیکن اصل مسئلہ تو ان لاکھوں غیر ملکیوں کا ہے جو یہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور جن میں سے نوے فیصد سے زائد افغان ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ اتنی آسانی سے لاکھوں غیر ملکی وطن عزیز میں داخل کیسے ہوئے؟ اگر وہ یہاں آ بھی گئے تو پھر ان کی نشاندہی کیوں نہ ہو سکی، انہیں یہاں رہائش اور دیگر سہولتیں کیسے مل رہی ہیں؟
قومی اداروں کی تحقیقات کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی و تخریب کاری کی کارروائیوں، سمگلنگ، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری، زمینوں پر ناجائز قبضوں، پُرتشدد واقعات اور دیگر سنگین قسم کی وارداتوں میں زیادہ تر افغان باشندے ملوث ہیں جو یہاں دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم کر کے افغانستان فرار ہو جاتے تھے، اس طرح وہ قانونی کارروائی سے بھی بچ جاتے اور پھر جب چاہتے‘ دوبارہ غیرقانونی طور پر پاکستان آ جاتے۔ حکومت اور قومی اداروں نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا تو ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے محب وطن افراد نے اس فیصلے کو سراہا اور اس کی بھرپور تائید کی۔ حکومت نے ان غیر قانونی غیر ملکیوں کو رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ملک واپس جانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی۔ یہ مہلت پوری ہونے کے بعد ان کو واپس بھجوانے کے لیے کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا اور اب تک تین لاکھ سے زائد غیر قانونی افغان باشندے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں جبکہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
''غیر قانونی مقیم غیر ملکی افراد پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں مگر دشمن قوتوں کے مذموم عزائم کو جامع حکمتِ عملی کے ذریعے ناکام بنایا جا رہا ہے۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کا فیصلہ حکومت نے ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا، انہیں باعزت طریقے سے ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جا رہا ہے‘‘۔ یہ کسی سیاسی رہنما کا نہیں بلکہ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کا پشاور میں خطاب ہے اور یہ حقیقت ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کا ہر بیان قومی اداروں کی مصدقہ رپورٹس پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا اگر ہمیں اپنی قومی سلامتی عزیز ہے اور ہم نے اپنی معیشت کو سنبھالنا ہے تو غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو جلد سے جلد واپس بھیجنا ہوگا اور اس مقصد کی کامیابی کیلئے بطور محب وطن اور ایک ذمہ دار شہری اپنی حکومت، افواجِ پاکستان اور دیگر متعلقہ اداروں کی بھرپور معاونت کرنا ہو گی۔
حال ہی میں افغان باشندوں کے پاکستان میں ووٹ درج ہونے اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کا بھی انکشاف ہوا ہے جو نہایت تشویشناک امر ہے۔ اس حوالے سے ایک شہری کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے نام انتخابی فہرستوں سے نکالنے کے احکامات جاری کیے جائیں اور انتخابی فہرستوں کی درستی تک انتخابی شیڈول جاری کرنے سے روکا جائے۔ شہری کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ کثیر تعداد میں افغان باشندوں کو غیر قانونی شناختی کارڈ جاری کیے گئے، ملک بھر میں افغان باشندوں کو واپس افغانستان جانے کا حکم دیا گیا، خبروں میں آیا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر ملکوں میں ہزاروں جعلی شناختی کارڈ افغانوں کو جاری ہوئے، غیر قانونی تارکینِ وطن کا نادرا کے ریکارڈ میں اندراج کیا گیا جو انتخابی فہرستوں کا بھی حصہ ہے، ایسے افراد‘ جنہوں نے فراڈ سے قومی شناختی کارڈز بنوائے‘ ان کے نام انتخابی فہرستوں سے حذف کیے جائیں، پاکستان میں مقیم غیر قانونی مہاجرین کے شناختی کارڈز منسوخ اور بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ عدالت عالیہ میں دائر کی گئی درخواست کی تائید گزشتہ روز نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیج رہے ہیں، جو یہاں رہ رہے ہیں ان کے لیے پالیسی بنائی ہے، سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے والے افغانوں کو ڈی پورٹ کریں گے۔ پاکستانی شہریت رکھنے والے افغان کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے 10 غیر ملکی افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں جب کوئی غیر قانونی مقیم غیر ملکی پکڑا جائے تو وہاں کی انتظامیہ، پولیس، عوامی نمائندے اور مقامی شہری اس کی بے دخلی پر نہ صرف متفق ہوتے ہیں بلکہ ایسے شخص کو قانونی کارروائی کے بعد جلد از جلد ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں بعض عناصریہ جانتے ہوئے بھی کہ غیر قانونی مقیم تارکین وطن ملک میں دہشت گردی سمیت سنگین جرائم اور ملک دشمنی میں ملوث ہیں‘ ان افراد کے دفاع میں سامنے آ رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں واپس نہ بھجوایا جائے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی بے دخلی کا کیس سماعت کے لیے مقرر ہو گیا ہے۔ جسٹس سردار طارق کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 13 دسمبر کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، وزارتِ خارجہ اور ایپکس کمیٹی کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ امید ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کے بعد ان غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھجوانے کا عمل مزید تیز ہو گا؛ تاہم قومی اداروں کو چاہئے کہ ایسے عناصر کو بھی بے نقاب کیا جائے جو ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر غیر قانونی مقیم تارکین وطن کی حمایت اور انہیں واپس بھجوائے جانے کے اقدامات پر تنقید کر رہے ہیں تاکہ پوری قوم کو معلوم ہو سکے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟