انٹرا پارٹی انتخابات کے تنازع کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف سے ان کا نتخابی نشان ''بلا‘‘ واپس لے لیا تھا۔ پی ٹی آئی کے حامی حلقوں کی جانب سے اس پر خاصا واویلا کیا گیا کہ انہیں انتخابی میدان سے دور کیا جا رہا ہے‘ انتخابی میدان میں ''لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ کے لیے کوشاں جماعت سے بظاہر فیلڈ ہی چھن گئی ہے اور ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی اور گزشتہ عام انتخابات کی فاتح جماعت کے لیے اپنی شناخت کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینا ناممکن ہوگیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جانب سے اسی وقت اعلان کیا گیا تھا کہ ان کی پارٹی اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گی۔ بعض افراد نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ عدالتِ عظمیٰ کے لیول پلیئنگ فیلڈ فراہمی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کا مذکورہ فیصلہ 22 دسمبر کی رات کو سنایا گیا تھا‘ اس کے بعد تین سرکاری چھٹیاں تھیں اور منگل کو پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عدالتی چھٹیوں کے باعث ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت نو جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔ اس عبوری عدالتی فیصلے کو پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا ریلیف قرار دیا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ اور اب کھلاڑی 'بلے‘ کے ساتھ میدان میں اتر سکیں گے۔ انتخابی عمل میں اس فیصلے کے اثرات اور لیول پلیئنگ فیلڈ پر بات بعد میں کریں گے‘ پہلے پی ٹی آئی کی درخواست اور اس کیس کی سماعت کا کچھ احوال ہو جائے۔
پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا‘ پارٹی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں، 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے، الیکشن کمیشن نے اس وقت تسلیم کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات درست ہوئے ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اور الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا تھا مگر اب الیکشن کمیشن نے اعتراض کیا ہے کہ انتخابات جس نے کرائے‘ وہ ٹھیک نہیں ہے، الیکشن کمشنر پر اعتراض آ گیا ہے اور پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا حکم غیر قانونی اور غیر آئینی اور اختیارات سے تجاوز ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بھی واپس لے لیا ہے اور ان حالات میں انتخابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے، مخصوص نشستیں بھی انتخابی نشان کے بغیر نہیں مل سکتیں۔ پی ٹی آئی کے وکلا کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان سے متعلق سمبل کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، الیکشن کمیشن نے صرف انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض نہیں کیا، آئین کا آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ہر کسی کو ایسوسی ایشن اور یونین بنانے کا حق ہے، یونین اور ایسوسی ایشن کے پاس اپنے عہدیدار منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے، الیکشن ایکٹ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن کالعدم قرار دے سکتا ہے، قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد سات دنوں میں پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن کو سرٹیفکیٹ جمع کرائے گا، شق 215 کے تحت جب الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے تو وہ جماعت انتخابی نشان کے لیے اہل ہو جاتی ہے۔ اگر پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ نہ دیتی تب پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیا جا سکتا تھا، شوکاز کے باوجود اگر پارٹی تفصیلات جمع نہ کرائے تب پارٹی سے انتخابی نشان واپس لیا جا سکتا ہے، مگر اس معاملے میں الیکشن کمیشن نے 'سوموٹو‘ نوٹس لیا، جس کا الیکشن ایکٹ میں کوئی اختیار نہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارٹی انتخابات کے لیے جنرل سیکرٹری نے چیف الیکشن کمشنر کو کیسے تعینات کیا، پارٹی عہدیداروں کی تعیناتی بارے بھی الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات نہیں ہیں، سیاسی پارٹی کوئی حکومتی ادارہ نہیں ہوتا‘ یہ عوام کی ایک تنظیم ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں، سپریم کورٹ کئی فیصلوں میں یہ قرار دے چکی ہے۔ اگر سیاسی جماعت کے ممبران میں کوئی ایشو ہے تو وہ سول کورٹ میں جائیں۔ پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ممبران ہیں، ان میں سے کسی نے پارٹی الیکشن پر اعتراض نہیں کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس کیس میں جو درخواست گزار ہے‘ اس کا الیکشن کمیشن کے فیصلے میں ذکر ہے‘ یہ کون ہے؟ پی ٹی آئی وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن خود فریق بن گیا ہے، جو درخواست گزار تھا‘ وہ پی ٹی آئی کا ممبر ہی نہیں۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد پارٹی الیکشن نہ کرانے پر صرف جرمانہ ہے، ایسی کوئی سخت سزا نہیں ہے، لیکن ہمیں الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے، اگر الیکشن کمشنر یا پریزائیڈنگ افسر غلط مقرر ہو تب بھی الیکشن کمیشن ایسا فیصلہ نہیں دے سکتا۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواست دینے والے فریقین کے وکیل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی درخواست کی مخالفت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن بااختیار ہے، مکمل ڈاکیومنٹس آنے تک فیصلہ دے سکتا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ الیکشن کمیشن متنازع ہے۔ جس پر ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن ایک پارٹی کو الیکشن سے آئوٹ کر رہا ہے‘ اگر عدالت کل کلاں اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر ٹھیک نہیں تھا‘ تو پھر کیا ہو گا؟ بادی النظر میں ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے۔ عدالت عالیہ نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور پارٹی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکمِ امتناع جاری کر دیا اور اپنے حکم میں کہا کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہو گا، عدالتی چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے گا۔
اس عدالتی فیصلوں کو جہاں پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں‘ وہیں حریف سیاسی جماعتوں کا ملاجلا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن کو منصوبہ بندی کے تحت متنازع بنا رہی ہے، ہمیں کسی انتخابی نشان سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن عدالتوں میں درخواستوں کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے‘ جس کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر ہو گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت مخمصے کا شکار نظر آتی ہے کیونکہ ایک طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بانی پی ٹی آئی پر سخت تنقید کر رہے ہیں تو دوسری جانب پارٹی کے دیگر رہنما لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے کا مطالبہ دہراتے ہیں۔ جیالے بلا چھن جانے کے بعد کھلاڑیوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے خواہاں نظر آ رہے تھے کیونکہ بعض ماہرین اور سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ رائے سامنے آ رہی تھی کہ پی ٹی آئی کسی دوسری پارٹی سے اتحاد کرکے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے اور متبادل انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے۔ چونکہ پارٹی کا نشان واپس لے لیا گیا تھا اس لیے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرست بھی روک لی تھی جس کا بہرحال بڑا نقصان پہنچ سکتا تھا؛ تاہم اب چونکہ عدالت عالیہ کے عبوری فیصلے سے تمام خدشات دور ہو گئے ہیں لہٰذا انتخابی سرگرمیوں میں مزید تیزی اور ووٹروں میں زیادہ جوش و خروش نظر آئے گا۔
پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے سے بلاشبہ پی ٹی آئی کو عبوری طور پر بڑا ریلیف ملا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے سے سیاسی منظرنامہ کس حد تک تبدیل ہو گا۔ کچھ قانونی ماہرین اس فیصلے کے ملک میں یکساں نفاذ کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ الیکشن کمیشن ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل یا اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرتا ہے یا نہیں۔ اگلے ایک دو دنوں میں قانونی نکات کے حوالے سے بہت ساری باتیں واضح ہو جائیں گی۔