وطن عزیز میں عام انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ہر طرف الیکشن کی گہماگہمی نظر آ رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری اور پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ کوئی ووٹروں کو منانے کے لیے مختلف حیلے‘ حربے آزما رہا ہے تو کوئی مخالف امیدواروں کو بٹھانے کے لیے ترلے منتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی اپنے کاغذات کی منظوری اور اپنے حریفوں کی اہلیت پر اعتراض کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے اور کوئی اپنی اپنی سیاسی جماعت کی قیادت کو رام کرنے اور پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ غرض ہر طرف انتخابی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ 8 فروری کو جنرل الیکشن کا انعقاد پتھر پر لکیر ہے اور عدالت عظمیٰ عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی پشت پر کھڑی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان، نگران حکومت اور تمام قومی ادارے بھی صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
عام آدمی بھی چاہتا ہے کہ انتخابات بروقت ہوں اور اسے اپنی مرضی سے عوامی نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے تاکہ ایک مضبوط منتخب جمہوری ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکال سکے۔ بظاہر الیکشن کے التوا کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی اور الیکشن شیدول کے تین مراحل کامیابی سے مکمل ہو چکے ہیں لیکن گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت سے اچانک ایسی خبریں آئیں جنہوں نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ لوگ نمازِ جمعہ سے فارغ ہوئے تو کچھ ہی دیر بعد اچانک ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلنے لگی کہ ''ایوانِ بالا (سینیٹ) نے الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کر لی‘‘۔ خبر کے مطابق سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی۔ قرارداد میں موقف اختیار کیا گیا کہ کے پی اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے ہوئے ہیں، جے یو آئی (ایف) کے ارکان اور محسن داوڑ پر حالیہ دنوں میں حملہ ہوا ہے، اے این پی رہنما ایمل ولی کو بھی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں، الیکشن ریلیوں کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تھریٹ الرٹس جاری ہو چکے ہیں۔ اکثر علاقوں میں سخت سردی ہے اس وجہ سے ان علاقوں کی الیکشن کے عمل میں شرکت مشکوک ہے۔ ایوانِ بالا قرار دیتا ہے کہ مسائل حل کیے بغیر الیکشن کا انعقاد نہ کیا جائے لہٰذا 8 فروری کے الیکشن شیڈول کو ملتوی کیا جائے اور الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرانے پر عمل کرے۔
سینیٹ میں یہ قرارداد پیش ہوئی اور کثرتِ رائے سے منظور کر لی گئی۔ قرارداد کی منظوری کے وقت کل 14 سینیٹرز ایوان میں موجود تھے۔ خبر کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی اور پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ نے انتخابات کے التوا کی قرارداد پر خاموشی اختیار کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ اور نگران وفاقی وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد کی مخالفت کی۔ اس حوالے سے سینیٹر افنان اللہ نے ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر دلاور خان کی وجوہات کو درست کرنا چاہیے‘ اگر ملک میں سکیورٹی کے حالت ٹھیک نہیں تو 2008ء اور 2013ء میں حالات اس سے کہیں زیادہ خراب تھے۔ سکیورٹی کا بہانہ کر کے الیکشن ملتوی کریں گے تو کبھی الیکشن نہیں ہوں گے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ اور امریکہ نے الیکشن ملتوی کیا تھا؟ بار بار موسم کا بہانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ ماضی میں دو بار فروری میں الیکشن ہو چکے ہیں، 2008ء کے الیکشن بھی فروری میں ہوئے تھے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ملک آئینی اداروں کے بغیر چلے گا؟ نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی قرارداد کی مخالفت کی جبکہ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے قرارداد کی حمایت کی۔ قرارداد منظور کرنے والے بیشتر سینیٹرز کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔ قرارداد کی منظوری کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ نے قرارداد کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا اور اس کی منظوری کی کاپی صدر، وزیراعظم، الیکشن کمیشن، وزارتِ قانون و انصاف اور دیگر متعلقہ محکموں کو ارسال کر دی جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملکی صورتحال کے پیش نظر فوری الیکشن شیڈول کو تبدیل کرے۔ یہ نوٹیفکیشن جوائنٹ سیکرٹری سینیٹ سیکرٹریٹ نے جاری کیا۔ سینیٹ سیکرٹریٹ نے وزارتِ پارلیمانی امور کو فوری کارروائی کرنے اور دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔
ملک بھر میں الیکشن التوا کی قرارداد کے بعد نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے ایوانِ بالا کے اندر خاموش رہ کر بظاہر قرارداد کی حمایت کی لیکن بعد ازاں پارٹی قیادت کی جانب سے قرارداد کی مخالفت اور نوٹس ملنے کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میں نے قرارداد پر خاموشی اختیار کی‘ میں نے اور پی ٹی آئی سینیٹر گردیپ سنگھ نے قرارداد کی مخالفت کی تھی۔ ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ آج ایوان میں ایسی قرارداد لائی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ہم پچھلے سال جنوری سے کہہ رہے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن ہوں، 8 فروری 2024ء کے انتخابات کا بڑی مشکل سے اعلان ہوا، انتخابات بروقت‘ صاف اور شفاف ہونے چاہئیں، ہم قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تھے اور یہ ایوان میں قرارداد لے آئے۔ گردیپ سنگھ کو پتا ہی نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی سینیٹ میں حمایت کر رہی تھی‘ اب کہہ رہے ہیں کہ ہم نے مخالفت کی۔ اس قرارداد کی منظوری کی خبر آتے ہی جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور التوا کی قرارداد کی منظوری کے خلاف نئی قرارداد سینیٹ میں جمع کرا دی۔ اس قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کا انعقاد دستوری تقاضا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ چکا ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، امن و امان اور خراب موسم کو بنیاد بنا کر انتخابات کے التوا کی قرارداد غیر دستوری اور غیر جمہوری ہے۔ دستور کے مطابق انتخابات مقررہ وقت پر کرائے جائیں۔
ایک طرف وفاقی دارالحکومت کی شاہراہِ دستور سے الیکشن کے التوا کی قرارداد کی منظوری کی خبر آئی تو ساتھ ہی اسلام آباد کے تھانہ کھنہ کے علاقے غوری ٹائون میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سنی علما کونسل کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری مولانا مسعود الرحمن عثمانی کی شہادت کی خبر آ گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مولانا مسعود عثمانی پر دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی۔ فوری طور پر اس حملے کے اسباب اور قاتلوں کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا؛ تاہم عام انتخابات سے صرف ایک ماہ قبل ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر، تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں اور عام آدمی کے ذہن میں امن و امان کی صورتحال اور الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے مختلف سوالات جنم لینے لگے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو اس وقت مختلف قسم کے پیچیدہ بحرانوں کا سامنا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک منتخب اور مستحکم جمہوری حکومت ہی ملک کو درپیش بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ نگران حکومت کی کارکردگی جتنی بھی اچھی ہو لیکن وہ ایک محدود مدت اور محدود اختیارات کے ساتھ اقتدار سنبھالتی ہے اور اپنی مخصوص ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد اسے جانا ہی ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات تشویشناک ضرور ہیں لیکن پاک فوج پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ افواجِ پاکستان صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران حکومت کو ہر قسم کی معاونت اور خدمات مہیا کریں گی۔ اہم بات یہ ہے کہ ایوانِ بالا کا کورم 25 یا اس سے زائد ارکانِ سینیٹ سے پورا ہوتا ہے اور قرارداد کی منظوری کے وقت کورم پورا نہ تھا دوسری جانب آئینی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن کے انعقاد یا التوا کے حوالے سے اختیار صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قرارداد کی منظوری کے بعد انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔