خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس‘ دس سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے‘ اس کی لینگویج کیسی ہوتی ہے اور اُس سائفر کی حقیقت کیا ہے جس کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ کو سزا سنائی گئی ہے۔ سائفر (Cypher) ایسے مراسلے کو کہتے ہیں جو مخصوص اشارتی زبان میں تحریر ہوتا ہے۔ ہر ملک کے سفارتخانے میں ایک کیبل روم ہوتا ہے جہاں سے برقی تار کے ذریعے پیغام رسانی کی جاتی ہے‘ اس کمرے تک رسائی بہت ہی کم اور مخصوص (شاید صرف سفیر اور چند اعلیٰ افسران) کی ہوتی ہے۔ حساس معلومات کو سفیر حضرات مخصوص زبان میں وزارتِ خارجہ کو بھیجتے ہیں اور یہاں موجود سائفر ماہرین اس کو ڈی کوڈ کر کے مراسلے کو وزارتِ خارجہ اور متعلقہ محکموں میں بجھواتے ہیں۔ سائفر کی زبان ہر ملک کی اپنی ایجاد کردہ ہوتی ہے اور اس کو خارجہ و سفارتی امور کے افسران کو باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے اور وقتاً فوقتاً اس کو تبدیل بھی کیا جاتا ہے۔
اب اُس سائفر کی بات کرتے ہیں جسے عوامی جلسے میں لہرا کر بانی پی ٹی آئی نے ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس معاملے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اس وقت کی بائیڈن انتظامیہ اور پاکستانی حکومت میں کچھ غلط فہمی پائی جاتی تھی جبکہ عمران خان امریکی صدر جو بائیڈن کے مخالف صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات کے دوران واضح حمایت بھی کر چکے تھے۔ امریکی صدر بائیڈن نے منتخب ہونے کے بعد متعدد ممالک سے فون پر رابطہ کیا مگر پاکستانی حکومت‘ جو اس وقت امریکہ کی افغانستان سے انخلا میں مدد کر رہی تھی‘ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ وزارتِ خارجہ اور وزیراعظم عمران خان کی شدید خواہش تھی کہ امریکی صدر ایک بار ان سے فون پر بات کر لیں تاکہ غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔ اسی دوران وزیراعظم پاکستان کے دورۂ روس نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں بدمزگی پیدا کی اور وزیراعظم عمران خان کی روس میں موجودگی کے دوران روس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ جب امریکہ نے روس کے خلاف پابندیوں کی قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی تو پاکستان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امریکی انتظامیہ نے اس پر امورِ خارجہ میں جنوبی ایشیا کے معاملات کے ذمہ دار ڈونلڈ لو کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ متعلقہ ممالک کے سفرا سے ملیں اور انہیں امریکی تحفظات سے آگاہ کریں۔ امریکی نمائندے نے صرف پاکستانی سفیر سے ملاقات نہیں کی بلکہ بھارت سمیت ووٹنگ میں غیر جانبدار رہنے والے سبھی ممالک کے سفرا سے اس قسم کی ملاقات ہوئی۔ پاکستانی سفیر سے ملاقات میں ڈونلڈ لو نے کہا کہ ان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ رہی ہے (اس وقت پی ڈی ایم دوبارہ متحرک ہو چکی تھی اور عدم اعتماد کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں) امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں حکومت تبدیل ہو رہی ہے‘ لہٰذا اگلی حکومت کے ساتھ امریکہ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستانی سفیر اسد مجید نے یہ تمام گفتگو سائفر کی صورت میں وزارتِ خارجہ کو ارسال کر دی۔
بانی پی ٹی آئی نے انہی دنوں اسلام آباد میں ایک جلسے میں امریکہ سے آئے ہوئے اس مراسلے (سائفر) کو بنیاد بنا کر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے خلاف جو عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے‘ اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے؛ تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی گئی۔ اس کے علاوہ سائفر سے متعلق بانی پی ٹی آئی اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو کال بھی لیک ہوئی جس میں سابق وزیراعظم کو کہتے سنا گیا کہ اب ہم نے صرف کھیلنا ہے‘ امریکہ کا نام نہیں لینا‘ بس کھیلنا ہے اس کے اوپر‘ کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی۔ اس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس پر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کر دیں۔ اعظم خان پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ سابق وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔
گزشتہ روزسنٹرل جیل اڈیالہ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے مختصراً زبانی فیصلہ سناتے ہوئے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو دس‘ دس سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی۔ فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر سابق وزیراعظم‘ سابق وزیر خارجہ‘ پراسیکیوٹر‘ سٹیٹ کونسل‘ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں‘ شاہ محمود قریشی کے اہلِ خانہ‘ میڈیا کے نمائندے اور عام افراد بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ اس موقع پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 342 کے تحت بیان کمرۂ عدالت میں ریکارڈ کرانے کے لیے سوالنامہ بھی دیا گیا جس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے وکلا موجود نہیں‘ ہم کیسے بیان ریکارڈ کرائیں گے؟ جج صاحب نے ان سے سے کہا کہ آپ کے وکلا حاضر نہیں ہو رہے‘ آپ کو سٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کی گئی ہے۔ (واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کو جرح کا موقع دیا تھا) بانی پی ٹی آئی نے خصوصی عدالت کے روبرو 342 کے تحت بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ سائفر میرے آفس میں تھا‘ جس کی سکیورٹی کی ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری اور ملٹری سیکرٹری کی ہوتی ہے‘ بتانا چاہتا ہوں کہ اصل سازش کیسے ہوئی‘ ساڑھے تین سال کے دوران بطور وزیراعظم صرف سائفر کی ایک دستاویز غائب ہوئی۔ سائفرگمشدگی پر ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ اس کی انکوائری کرو جس پر بتایا گیا کہ انکوائری کی گئی مگر سائفر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر نے پارٹی کارکنان کو ہدایت کی کہ مشتعل نہ ہوں‘ کوئی شخص قانون کو ہاتھ میں نہ لے۔ بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی اور قانونی طریقہ کار سے ہٹ کر کیسز کو چلایا جا رہا ہے‘ عدالت نے اپنی طرف سے سوالات کیے‘ ہم ان سے کیا توقعات رکھیں؟ تمام کارکنان اور پی ٹی آئی سے لگائو رکھنے والے افراد تحمل کا مظاہرہ کریں‘ ہمیں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ پر اعتماد ہے۔ ہماری توجہ الیکشن سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ 8 فروری کو سب کا محاسبہ ہو گا۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے اس بار ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ پارٹی ابھی تک 9 مئی کے واقعات کے نتائج بھگت رہی ہے‘ اب عام انتخابات سر پر ہیں اور اگر پھر کہیں کارکنوں کی جانب سے کوئی شرارت کی گئی تو مزید مقدمات گلے پڑ جائیں گے اور بطور جماعت پی ٹی آئی الیکشن پروسیس سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی آئینی و قانونی طریقہ کار یہی ہے کہ اگر کسی کو عدالتی فیصلوں سے اختلاف ہو تو وہ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے سائفر کیس میں سزا کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ پارٹی رہنمائوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ کسی صورت اس عدالتی کارروائی کو ٹرائل نہیں کہہ سکتے‘ انصاف کے تقاضے پورے ہونا تو دور کی بات‘ قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں‘ رات 12 بجے تک کیس چلتا رہا اور وکیلوں کو کمرۂ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔
سفارتی مراسلے (سائفر) کے حقائق اب تو سامنے آ چکے ہیں اور یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ایک معمول کی سفارتی دستاویز کو سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ جو یقینا سفارتی آداب کے منافی ہے۔ یہ بات زیادہ اہمیت اس لیے اختیار کر گئی کہ سائفر کو سیاسی بیانیہ بنانے والے عام سیاسی کارکن نہیں بلکہ سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ ہیں‘ جن کے اس اقدام سے خارجہ تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ تاہم اب اس مقدمے کا ایک مرحلہ مکمل ہو چکا ہے‘ خصوصی عدالت کا فیصلہ آ چکا ہے۔ اعلیٰ عدالت میں فیصلے کو چیلنج کیا جا رہا ہے‘ لہٰذا ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمیں سوشل میڈیا سمیت غیر متعلقہ فورمز پر کسی قسم کی بحث سے گریز کرنا چاہئے۔