جمہوریت اور عاشقی

ملکی سیاسی تاریخ کامؤثر اور با مقصد تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں اپنی قومی سیاسی تاریخ کودو مختلف قسم کی دہائیوں یعنی Odd اور Even میں تقسیم کرنا چاہیے، جہاں تک Odd دہائیوں کا تعلق ہے تو اس دوران کوئی بھی سیاسی حکومت اپنی مقررہ آئینی مدت کو پوری کرتی نظر نہیں آتی۔ معاشی شرحِ نمو اوسطاً دو سے تین فیصد سالانہ کی بنیاد پر آگے بڑھتی نظر آئی۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت موجود رہی اور اگر خارجہ سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات ان دہائیوں میں سرد مہر ی کا شکار نظر آتے ہیں؛ البتہ Even دہائیوں میں یعنی 1960، 1980 اور 2000ء کی دہائیوں میں ملک میں آمریت ملتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے ملک استحکام کا حامل اور معاشی اعتبار سے شرحِ نمو پانچ سے سات فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی کرتی نظر آتی ہے۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے‘ ان دہائیوں میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تعاون، دو طرفہ اعتماد اور گرم جوشی نظرآتی ہے۔
بظاہر ملکی تاریخ کے اس تصویری جائزے کے مطابق پاکستان آمرانہ ادوار میں بہتر نظر آتا ہے لیکن حقیقت پسندانہ عمیق تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دہائیوں میں پاکستان کی معاشی ترقی‘ جو میکرو اکنامک ڈویلپمنٹ کی حد تک تھی‘ تیز رفتار رہی مگر اس کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑی‘ جس میں ملک کی تقسیم، پاک بھارت جنگیں، دہشت گردی، بین الصوبائی تفاوت، لسانی سیاست اور معاشرتی بگاڑ شامل ہیں؛ تاہم Odd دہائیوں میں اگرچہ سیاسی عدم استحکام اور کم رفتار معاشی شرحِ نمو دیکھنے کو ملی مگر ملک کسی بڑے سیاسی نقصان سے محفوظ رہا۔ پاکستانی سیاست کایہ انداز 1947ء سے 2008ء تک جاری رہا؛ البتہ 2008ء سے موجودہ دور تک‘ ملک میں سیاست ایک نئے انداز میں آگے بڑھی ہے۔
2008ء سے اب تک ملک میں جتنی بھی حکومتیں آئیں وہ سب انتخابات کے ذریعے آئیں۔ تمام حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اسی طرح پچھلی ڈیڑھ دہائی میں ملکی سیاست میں سب سے اہم تبدیلی جمہوری عمل کا تسلسل ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس جمہوری تسلسل‘ جو بتدریج سیاسی استحکام کی طرف بڑھے گا‘ کے پیچھے کارفرما اصل محرکات کیا ہیں۔ قیام پاکستان سے 2008ء تک‘ قومی سطح پر آنے والی سیاسی تبدیلیوں کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی ملک میں سیاسی بحران آئے ان کو حل کرنے کے لیے گراس روٹ سطح پر عوام سے رائے طلب کرنے کے بجائے طاقت کے ڈھانچے میں موجود عناصر کے درمیان طے پانے والا بندوبست ملک کے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل میں اہم محرک ٹھہرا۔ مثال کے طور پر اس عرصہ میں طاقتوراشرافیہ نے سیاسی جماعتوں اور دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر آئندہ کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ فطری طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی سیاسی اور آئینی ڈھانچہ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہوتا اور اس کے لیے عام انتخابات اور مسلسل جمہوری عمل ہی دستیاب آپشنز تھے مگر ان سے گریز کیا گیا۔ اسی لیے 2008ء سے قبل جتنی سیاسی تبدیلیاں، طاقت کے ڈھانچے کی تشکیل نو اور انتخابات کے انعقاد کے مراحل ہم نے طے کیے‘ وہ آرگینک انداز میں مکمل نہیں ہوئے۔ اس کا حتمی نتیجہ ملک میں عدم استحکام اور جمہوری تسلسل کی ناکامی کی صورت میں نکلا۔
پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں جاری سیاسی عمل اور جمہوری تسلسل بظاہر ہمارے سیاسی نظام اور قومی سیاست کی بلوغت کی نشانیاں سمجھے جاتے ہیں؛ تاہم عوامی رائے عامہ اس سے مختلف ہے۔ اس کے مطابق اب ملک گورننس کے بحران کا شکار ہے اور جمہوری تسلسل ڈلیور نہیں کر رہا۔ اس تاثر نے جمہوری تجربے کی ساکھ اور پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نان گورننس اور غیر متاثر کن کارکردگی کی بنیاد پر اور جو کچھ پچھلے چند سالوں میں سیاسی حکومتوں نے ڈلیور کیا ہے‘ ہم جمہوریت کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں یا نہیں؟اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے اس پہلو کا تجزیہ ضروری ہے کہ پاکستانی جمہوریت کتنی مستحکم، ادارہ جاتی اور سیاسی روایت پر مبنی ہے۔
2008ء کے بعد ملک میں مسلسل جمہوری عمل کے ذمہ دار محرکات تلاش کیے جائیں تو ان میں میڈیا، عدلیہ اور سول سوسائٹی کا کردار نمایاں نظرآتا ہے۔ اس کے علاوہ اندرونی سلامتی کے چیلنجز جیسے دہشت گردی‘ اور مڈل کلاس کی سیاسی فعالیت ایسے عوامل ہیں جو پاکستان کی سیاست کو تبدیل کرنے میں اہم کردار اد کرتے نظر آتے ہیں۔ ادارے بھی Introspection کے عمل سے گزرے جس کے نتیجے میں انہوں نے ملک میں جاری جمہوری عمل کو سپورٹ کیا تا کہ ملک میں Credible Civilian Alternate مستحکم ہو اور ریاست مستقل بنیادوں پر شدت پسندی کے مسئلے کو حل کر سکے کیونکہ آخری تجزیے میں اندرونی سلامتی کے تقاضے سول اداروں نے ہی پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ سالوں میں ملک میں عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں؛ تاہم گورننس اور سیاسی عمل پر عوام کا مجموعی اعتماد بحال نہیں ہوا جس کی بنیادی وجہ عوام کے بنیادی مسائل میں اضافہ ہے۔ سر فہرست مسئلہ معیشت کا ہے‘ اس کے علاوہ قانون کی حکمرانی و سیاسی عدم استحکام کے مسائل ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور روزمرہ زندگی کے تقاضے اب مڈل کلاس کی پہنچ سے بھی باہر نظر آتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں عوامی رد عمل جمہوریت کو ہی ذمہ دار ٹھہراتا نظر آتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی ارتقا کا عمل اگرچہ تسلسل سے آگے نہیں بڑھا مگر گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں ہماری قومی سیاست میں اس حد تک بہتری آئی ہے کہ سیاسی تبدیلی آئین کے مروجہ طریقۂ کار کے مطابق عمل میں آئی‘ گو کہ اس رجحان کو پاکستان کے عوام، میڈیا اور باشعور حلقوں میں کچھ زیادہ پذیرائی ملتی نظر نہیں آتی۔ اس کی وجوہات تلاش کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے بھی اگر کارکردگی اور گڈ گورننس، جو مؤثر حکمرانی کی بنیاد ی شرائط ہیں‘ نظر نہ آئیں تو لوگ جمہوریت پر سوال اُٹھا سکتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کا تعلق ہے تو اس حوالے سے سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں اور پولیٹیکل سٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے موجود ہے کہ خراب حکمرانی کے باوجود پاکستان کو درکار دیرپا سیاسی استحکام جمہوری عمل کے تسلسل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ بہر صورت ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کی کوالٹی کو کیسے بہتر کیا جائے۔ اس کے لیے راکٹ سائنٹسٹ ہونا ضروری نہیں۔ ایک مضبوط جمہوریت کے لیے فعال ہونا ضروری ہے اور یہ فعالیت اداروں کو فعال اور خود مختار بنا کر حاصل ہوتی ہے نہ کہ چند ماہ میں اہم محکموں کے درجنوں سربراہوں کو تبدیل کر کے۔ مسلمہ اصول ہے کہ اگر آپ نے کسی کو جوابدہ بنانا ہے تو پھر اسے با اختیار بھی بنائیں‘ لہٰذا مضبوط اور فعال ادارے، مربوط پالیسی کی تشکیل، قانون کی حکمرانی، ادارہ جاتی اصلاحات اور شفافیت وہ لوازمات ہیں جو جمہوریت کو دوام بخشتے ہیں‘ محض انتخابات اورپریس کانفرنسوں سے یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
وہ اہلِ وطن جو جمہوریت سے فوری نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جمہوریت اور عاشقی میں ایک قدر مشترک ہے‘ دونوں صبر طلب ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں