داخلی سیاست اور بیرونی ہاتھ

قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے لاہور کے معروف صحافی شورش کاشمیری نے مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے شورش صاحب خصوصی طور پر دہلی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے کئی روز قیام کیا۔ بعد میں اس انٹرویو کو انہوں نے کتابی شکل میں چھاپا۔ جہاں مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی گفتگو میں اپنے نقطہ نظر کا دفاع کیا کہ برصغیر تقسیم نہیں ہونا چاہیے‘ وہیں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کو مغرب نواز قرار دیا اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی سیاست آزاد نہیں ہو گی اور سامراجی طاقتیں اپنے اثر و نفوذ کے ذریعے ملک کی مغرب زدہ قیادت سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتی رہیں گی۔
یہ ضروری نہیں کہ ہم مولانا صاحب کی تمام باتوں سے اتفاق کریں؛ تاہم ان کا یہ خدشہ کئی بار سچ ثابت ہوتا آیا ہے۔ آزادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی ملک میں موجود تنخواہ دار اشرافیہ نے حکمران اشرافیہ کی جگہ لے لی۔ سیاسی عمل کا تسلسل ایک خواب بن گیا۔ ملکی سیاست صرف اشرافیہ کے درمیان طے پا رہی تھی۔ دوسری طرف ملک کی دفاعی اور معاشی ضرورتوں نے قومی فیصلہ سازی کے عمل میں آپشنز محدود کر دیے تھے۔ ان حالات میں عالمی ماحول میں سہارے ڈھونڈے جانے لگے۔ چونکہ بین الاقوامی سیاست میں مفت کا کھانا نہیں ملتا‘ لہٰذا جو امداد اور تعاون ملا اس کے بدلے میں ہمیں عالمی طاقتوں کے مفادات کے مطابق ملکی فیصلے کرنے پڑ گئے۔
1970ء کے بعد پاکستان کئی حوالوں سے تبدیل ہوا۔ ملکی سیاست روایتی اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکل کر نئی قیادت اور گلی کوچوں تک جا پہنچی۔ ذوالفقار علی بھٹو اہم ترین قومی معاملات پر جلسوں میں گفتگو کرتے سنے گئے۔ جو بیانات و پالیسی ترجیحات اور فیصلے ایوانوں کے اندر رہ کر ہونے چاہئیں تھے وہ عوام کے سامنے رکھے جانے لگے۔ اس پاپولسٹ اندازِ سیاست کے باعث ملکی خارجہ پالیسی کے معاملات پر ہمارے عالمی طاقتوں سے تعلقات عوامی رائے عامہ کا حصہ بننے لگے اور جب ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت میں کمی آنے لگی اور اپوزیشن انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگا کر سڑکوں پر آ گئی تو اپنے دفاع میں بھٹو یہ بیانیہ لے کر نکلے کہ مجھے عالمی قوتیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ ایک سنجیدہ بحث کے طور پر آگے دیکھا جائے کہ اس بات میں کتنا وزن تھا کہ کیا واقعی عالمی طاقتیں انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی تھیں۔ اس ضمن میں بھٹو صاحب کی ایٹمی پالیسی اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کو اکٹھا کرنا ایسے محرکات معلوم ہوتے ہیں جن کی پاداش میں انہیں عالمی قوتیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی تھیں؛ تاہم یہ بحث معنی خیز تب ہو سکتی ہے جب یہ بھی دیکھا جائے کہ بھٹو کی سیاسی مقبولیت میں کمی کیوں ہوئی تھی ؟ سوال یہ ہے کہ کیا اندرون ملک معاشی و اقتصادی مسائل اور آئین پر پوری طرح عمل درآمد کا نہ ہونا اہم وجوہ نہیں تھیں؟
جنرل ضیا الحق حادثے کا شکار ہونے سے چند روز قبل یہ کہتے سنے گئے کہ اگر موقع ملا تو اگلے پانچ انتخابات بھی غیر جماعتی کروائوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا اقتدار سے الگ ہونے کا دور دور تک کوئی ارادہ نہ تھا۔ بعض صحافی اور مبصرین تو یہ بھی لکھ رہے تھے کہ جنرل ضیا الحق کی اقتدار کے ساتھ کیتھولک شادی ہو چکی ہے اور پھر قوم جانتی ہے کہ افغان جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد وہ کن پراسرار حالات میں طیارہ حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد سیاست تبدیل ہو گئی اور ملک میں ایک طویل سیاسی عدم استحکام کا دور شروع ہو گیا‘ جس کے ملک کی معیشت اور معاشرت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
1986ء میں ہمارے ملک میں ضیاالحق کی حکومت تھی‘ جب بے نظیر صاحبہ لمبی جلا وطنی کے بعد پاکستان وطن واپس لوٹی تھیں۔ انہوں نے لاہور ایئر پورٹ پر اترنا پسند کیا۔ وہاں سے مینار پاکستان تک ایک جلوس کی شکل میں گئیں۔ یہ جلوس جب مال روڈ سے گزر رہا تھا تو کچھ جذباتی جیالوں نے امریکی پرچم نذر آتش کر دیا۔ جس ٹرک پر بے نظیر صاحبہ سوار تھیں اس پر عبدالقادر شاہین اور جہانگیر بدر مرحوم بھی سوار تھے‘ وہ نیچے اترے اور نوجوانوں کی منت سماجت کر کے اپنے پائوں مار مار کر امریکی پرچم کو لگی آگ بجھائی۔ اشارہ بالکل واضح تھا۔ 1999ء کے ٹیک اوور کے بعد نواز شریف کو پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس میں پکڑ لیا۔ ملک میں عام رائے یہی تھی کہ نواز شریف بچ نہیں پائیں گئے لیکن یکا یک ایک رات غیر ملکی دوست اپنا جہاز لے کر آئے اور میاں صاحب اور ان کا خاندان ہالی وڈ سٹائل میں یہاں سے چلے گئے۔ یہ کام اس رازداری سے کیا گیا کہ بہت سے لوگوں کے لئے انکشاف تھا۔ لوگ یقین نہیں کر رہے تھے‘ لیکن ایسا ہو چکا تھا۔
ہماری ملکی سیاست میں پچھلے چند سال سے کچھ نئی سیاسی اصطلاحات متعارف ہوئی ہیں‘ ان میں این آر او بھی شامل ہے۔ دراصل یہ لفظ پرویز مشرف کے دور میں زبان زد عام ہوا تھا جب بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا‘ جس کے بعد بے نظیر صاحبہ وطن لوٹیں۔ اس این آر او کو بھی عالمی طاقتوں نے ممکن بنایا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ بات صرف یہیں نہیں رکی بلکہ بے نظیر بھٹو کی واپسی کے کچھ ہی ہفتوں بعد میاں نواز شریف بھی وطن واپس لوٹ آئے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ ہماری سیاست میں یہ جوہری تبدیلی بیرونی ذرائع سے ہی آئی تھی۔
2008ء میں پیپلز پارٹی کی بننے والی حکومت میں میمو گیٹ سکینڈل مشہور ہوا تھا۔ کیا یہ واضح نہیں ہے کہ اس سکینڈل کے ڈانڈے بھی بیرون ملک سے ملتے تھے؟ وہیں سے مدد مانگی جا رہی تھی کہ داخلی ماحول میں در پیش مشکلات دور کی اور مسائل حل کروائے جائیں۔ وکی لیکس نے رہی سہی کسر نکال دی اور ہمارے بظاہر مدبر نظر آنے والے سیاست دانوں کے بارے میں ہوش ربا انکشافات سامنے آئے۔
موجودہ سیاسی بحران میں ایک بار پھر عالمی قوتوں اور بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ خطے اور عالمی ماحول میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال میں ملکی خارجہ پالیسی کے چند اہم فیصلے کچھ عالمی طاقتوں کو ناپسند ہیں اور موجودہ حکومت کریڈٹ لیتی نظر آتی ہے کہ اس نے آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر عالمی اور علاقائی طاقتوں سے اپنے تعلقات کا رخ متعین کر رہی ہے۔ اس لیے اسے داخلی بحران سے دو چار کر دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عوامی سطح پر یہ حکومتی بیانیہ قبول بھی کر لیا جائے کیونکہ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ماضی میں ملک کے اندر پیدا ہونے والے سیاسی بحرانوں میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے تاثر کو بہت تقویت ملی ہے‘ تاہم یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہماری حکومتیں‘ خواہ وہ جمہوری ہوں یا غیر جمہوری‘ جب بھی کمزور ہوئیں اور ان کی عوامی مقبولیت نیچے گری تو اس وقت خراب ملکی معاشی حالات‘ سیاسی عدم استحکام اور قانون کی حکمرانی جیسے مسائل بدرجہ اتم موجود تھے۔ ان حالات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ قرضوں میں جکڑی معیشت‘ نیم خواندہ عوام کی اکثریت‘ ادارہ جاتی اصلاحات کا فقدان اور سیاسی عدم استحکام ایسے مسائل ہیں جن کو حل نہ کیا گیا تو آزاد داخلی سیاست اور آزاد خارجہ پالیسی کی صرف حسرت ہی رہ جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں