بس اب کافی ہو گیا ہے!

جو لوگ فضائی سفر کا تجربہ رکھتے ہیں وہ اس جملے سے بخوبی واقف ہوں گے ''مسافروں سے گزارش ہے کہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں کیونکہ کچھ ہی دیر میں ہم لینڈکر رہے ہوں گے‘‘ کچھ اسی قسم کے الفاظ ہم وطنوں کے ذہنوں میں آئے ہوں گے جب 9اپریل کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو رہی تھی۔ بلاول بھٹونے تحریک کامیاب ہونے کے بعد اپنی تقریر میں کہا ''ویلکم ٹو پرانا پاکستان‘‘۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار اپنے ٹویٹ میں مریم نواز صاحبہ نے بھی کیا۔ تو اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب ہماری قوم کا جہاز نئے پاکستان سے پرانے پاکستان میں اتر گیا۔
جس طرح فضائی سفر میں مسافر بحفاظت اپنی منزل پر اترنا چاہتے ہیں کیا ہم بھی نئے پاکستان سے پرانے پاکستان میں بحفاظت اترے؟ کیا ہمارا سفر آرام دہ تھا؟ فلائٹ ناہموار اور ٹربولنٹ تو نہیں تھی؟ ان سب سوالوں کے جوابات ڈھونڈنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ہمارا قومی سفر تھا جوکہ دراصل جاری ہے۔
ہمیں بھی یہ دیکھتے ہوئے تقریباً نصف صدی ہوچکی کہ ہمارا قومی سفر ایک دائرے کے اندر جاری ہے۔ گھوم گھما کر ہم واپس وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے یہ سفر شروع کیا تھا۔ یہ دائرہ توڑ کر ہم آگے کی طرف کیوں نہیں بڑھ جاتے۔ وہ کون سے عوامل اور محرکات ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔
ہم تو پچھلے آٹھ دس برس سے لوگوں کو بڑے عالمانہ انداز میں بتاتے رہے ہیں کہ ملک میں جاری جمہوری اور سیاسی عمل اب آگے کی طرف ہی بڑھے گا۔ اب جبکہ یہ سلسلہ چل پڑا ہے اور دو سے زائد مرتبہ پرامن انتقالِ اقتدار ہو چکا لہٰذا اب ہماری جمہوریت کو خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی ارادوں میں اتنی سکت اور بلوغت آچکی ہے کہ مروجہ طریق کار کو اپنا کر سیاسی بحرانوں سے نمٹ سکتے ہیں۔
لیکن جس بھونڈے انداز میں ملک میں ایک ماہ سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والا سیاسی بحران حل ہو ا ہے وہ تو ہمارے آئیڈیل ازم کو ہی بہا کر لے گیا ہے۔ جو جگ ہنسائی ہمارے حصے میں آئی ہے اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ مان لیا کہ قوموں کی زندگی میں سیاسی بحران آتے رہتے ہیں اور ان بحرانوں سے نکل کر ہی سیاسی نظام مضبوط ہوا کرتے ہیں‘ مگر جتنی تیزی سے ہر روز اور پھر دن کے چوبیس گھنٹوں میں ہر گھنٹے کے بعد سرپرائزز کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہا اس نے ہماری اجتماعی اخلاقیات اور اجتماعی نفسیات کے بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سوشل میڈیا اور ایک سو سے زائد نیوز چینلز کی موجودگی میں قوم کو اس پورے بحران میں جس کرب سے گزرنا پڑا شاید ہی حالیہ برسوں میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہو۔
عمران خان صاحب کی حکومت پچھلے ساڑھے تین سالوں سے جاری تھی۔ اُس حکومت کو گورننس کے شدید مسائل کا سامنا تھا۔ رہی سہی کسر کووڈ نے نکال دی۔ افراط زر اور روزمرہ زندگی کی ضروریات کا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے جانا، دو بڑے ایشوز تھے جو اپوزیشن کے پاس موجود تھے لیکن ان ایشوز پر باوجود کوشش کے اپوزیشن عوامی حمایت حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔ پھر اچانک وہ تحریک عدم اعتماد‘ جو محض ایک سیاسی سٹنٹ سمجھا جا رہا تھا‘ حقیقت میں تبدیل ہوتی ہے اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا‘ لیکن اس سارے تناظر میں سیاسی تبدیلی جس طریقے سے آئی اس پر کئی سوالیہ نشانات ہیں۔ قطع نظر اس بحث کے کہ آیا یہ تحریک Organic تھی یا نہیں، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دستیاب حقائق کس طریقے سے اس تبدیلی کے عمل پر اثرانداز ہوئے ہیں۔
اس میں سب سے پہلے منحرف اراکین کا کردار اہم عامل ہے۔ سیاسی جماعتوں میں فارورڈ بلاک اور دھڑے بندیاں ہوا کرتی ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ایسا صرف اور صرف نظریاتی اختلافات کے باعث ہو۔ اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں‘ لیکن انحراف کے بعد حزب اختلاف کے ساتھ بیٹھ جانا‘ ان کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کرنا اور کھلم کھلا یہ کہنا کہ ہمیں چونکہ ٹکٹ آفر ہوا ہے اس لیے اب ہم اپنی جماعت کو چھوڑ جائیں گے‘ یہ استدلال بہت کمزور تھا۔ ان اراکین کو اپنی جماعت سے اختلاف اور اس سے الگ ہونے کا پورا حق حاصل تھا؛ تاہم ایسا کرنے کے لیے انہیں استعفیٰ دینا چاہیے تھا یا پھر پی ٹی آئی کے اندر نصف سے زائد اراکین الگ ہو کر علیحدہ نشستوں پر بیٹھنے کی درخواست کرتے۔ سندھ ہاؤس میں جمع ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح پنجاب میں بسوں پر سوار ہو کر پرائیویٹ ہوٹلوں میں اجلاس کرنے سے ہماری سیاست پیچھے کی طرف گئی ہے۔ ہمارا جماعتی نظام کمزور ہوا ہے۔ ایک عام ووٹر کی نظر میں ہمارے سیاستدان رُسوا ہوئے ہیں۔
جمہوری نظاموں میں حکومت کی تبدیلی ایک معمول کا عمل ہے؛ تاہم یہ عمل طے شدہ قواعد و ضوابط اور روایت کے مطابق ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت اتنی بالغ نہیں ہے کہ وہ اس عمل کو ان اداروں کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھائے جو نمائندہ اور مقتدر ہیں۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں جو بنیادی اصول ملحوظ رکھا جاتا ہے وہ اجتماعی دانش کا اصول ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر فیصلے صرف پارلیمنٹ کے اندر ہونے چاہئیں۔ ہماری تاریخ میں بار بار ان قوتوں کو پارلیمنٹ کے اختیارات استعمال کرتے دیکھا گیا ہے‘ جو اس کی مجاز نہیں۔ اس کج روی کی بنیادی وجہ ہماری سیاسی قیادت میں بالغ نظری کا فقدان ہے۔ سیاسی اختلافات اس حد تک آگے لے جائے جاتے ہیں کہ وہ ذاتی رنجش میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ذاتی عناد سے مغلوب سیاسی قیادت اہم قومی امور کی ادائیگی میں بہتر فیصلے کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس جلتی پر تیل ڈالنے کا کام ہماری سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے اور ان میں موجود موروثی عوامل کرتے ہیں۔ بحث، مکالمہ، مشاورت ایسے عوامل ہیں جن سے ہماری سیاسی جماعتیں نابلد معلوم ہوتی ہیں۔ چونکہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان ہے لہٰذا وہاں ایک آزاد بحث ممکن نہیں جماعتی قیادت بحث اور اختلاف رائے کو قبول ہی نہیں کرتی۔
ہم اپنے لیے جمہوریت اس وقت مانگتے ہیں جب وہ ہمیں سوٹ کر رہی ہو‘ یا پھر ہمارے جماعتی یا شخصی مفادات جمہوریت کی بات کرکے پورے ہو رہے ہوں‘ لیکن اگر جمہوریت کی نفی اور سیاسی اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر ہمارے سیاستدانوں کو اپنے مخالف سے سیاسی سپیس چھین کر اقتدار مل رہا ہو تو پھر وہ اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔
یہی وہ طرز عمل ہے جو ہمیں تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے‘ بلکہ اب تک جتنے بھی غیر آئینی اقدامات اس ملک میں کئے گئے ہیں‘ ان کے پیچھے اصل محرک ہی یہ رہا ہے۔ سیاستدان اگر اپنے مسائل خود حل نہیں کر پائیں گے تو پھر غیر سیاسی قوتیں مداخلت کریں گی کیونکہ مداخلت کا جواز ہم خود انہیں فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں آگے کی طرف بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ایک وسیع تر اتفاق رائے کی بنیاد پر نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔ ایسے انتخابات جن کی شفافیت پر تمام فریق مطمئن نظر آئیں۔ شاید یہ بھی ہمارا آئیڈیل ازم ہی ہو لیکن اس کے سوا کوئی اور آپشن بھی تو نظر نہیں آتا۔
خدا کرے کہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت صورتحال کا بہتر اور معروضی تجزیہ کرے۔ اپنے جماعتی اور شخصی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچے‘ وگرنہ قوموں کی تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں جہاں قیادتیں صورتحال کا ادراک نہ کر سکیں اور پھر Leaderless عوامی تحریکیں قومی سمت کا تعین کرتی نظر آئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں