گلوبلائزیشن‘ حال اور مستقبل

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد گلوبلائزیشن کی اصطلاح بے حد مقبول ہوئی۔ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ عمل نیا نہیں بلکہ یہ اُس وقت شروع ہو چکا تھا جب یورپ نے اپنی سائنسی اور اقتصادی ترقی کے نتیجے میں دنیا کی دور دراز مارکیٹوں کے ساتھ تجارتی روابط قائم کیے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ عمل پہلی جنگِ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے عظیم مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بڑے ممالک کے درمیان آزاد تجارت کے اصول پر اقتصادی روابط قائم کرنے کے تصور کے ساتھ شروع ہوا اور بالآخر اس مقصد کے لے بریٹن وڈز سسٹم تشکیل دیاگیا۔ اسی طرح ایک رائے کے مطابق یہ عمل 1960ء کی دہائی میں اُس وقت آگے بڑھا جب دنیا کے چند طاقتور ممالک نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی حاصل کر لی جس کے باعث مواصلاتی نظام پھیل گیا اور اس طرح تجارتی رشتے قائم کرنے میں اس ٹیکنالوجی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ 1970ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے متعدد عالمی اقتصادی بحرانوں نے دنیا کے کئی ممالک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مرہون منت بنا دیا اور انہیں عالمی معاونت اور قرضے جن شرائط پر ملے ان کے مطابق ان ممالک کو اپنی معیشت کو مارکیٹ اکانومی کے اصول کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کے لیے تیار کرنا تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اس کردار کو‘ جس میں مقروض ممالک کو یہ شرائط تسلیم کرنا تھیں‘ واشنگٹن اتفاق رائے یا Washington consensus کہا جاتا ہے‘ لہٰذا واشنگٹن ڈاکٹرائن ہی عالمگیریت یا گلوبلائزیشن سمجھی جانی چاہیے؛ تاہم ایک مضبوط رائے یہ ہے کہ عالمگیریت کا عمل دراصل سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوا جب دنیا میں فری مارکیٹ اکانومی کے تصور کا پھیلاؤ دیکھنے کو ملا اور سوویت یونین کی شکل میں کنٹرولڈ اکانومی کا تصور اس سپر پاور کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی تحلیل ہونا شروع ہو گیا۔
عالمگیریت دراصل ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں کرۂ ارض پر موجود انسانی معاشروں کے درمیان وسیع روابط پیدا ہوئے اور تجارتی تعلقات کا پھیلاؤ دیکھنے کو ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سرحدیں جو بہت خود غرضی سے قومی ریاستوں نے افواج کے ذریعے محفوظ کی ہوئی تھیں وہ نرم ہوتی ہوئی نظر آئیں اور ان سرحدوں کے آرپار ایک دوسرے کی مصنوعات اور سرمائے کو بہ آسانی آتے جاتے دیکھا جانے لگا۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ روابط کا پھیلا ہوا یہ وسیع جال دراصل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری اور تجارت کو عالمگیریت کے اہم ترین محرکات قراردیا جاتا ہے۔ ایسے دانشور اور کاروباری قوتیں جو عالمگیریت کے حق میں مضبوط دلائل دیتے رہے انہیں Neoliberals کہا جاتا ہے اور ان کا مسکن مغرب میں تھا۔
جس طرح اس بات پر ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں کہ گلوبلائزیشن کا عمل شروع کب ہوا‘ اسی طرح اس عمل کو دیکھنے کے بھی مختلف انداز ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق اس عمل کے ذریعے بین الاقوامی سرمایہ کاری کا عمل آگے بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے مضبوط بین الاقوامی اقتصادی یا مالیاتی ادارے اپنا کردار ادا کریں جبکہ ایسے ماہرینِ معیشت جو فری مارکیٹ اکانومی کے ناقد ہیں وہ ترقی پذیر ممالک کیلئے اس عمل کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے ماہرین مقامی معیشتوںکے پھیلاؤ اور انسانی وسائل کی ترقی جیسے اشاریوں کو مضبوط بناکر عالمگیریت کے چیلنجز کو ڈیل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ چین اور ہندوستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان دونوں ممالک نے انہی اشاریوں کو مضبوط بناکر عالمی معیشت میں اپنا کردار متعین کرلیا ہے۔
عالمگیریت کے تصور نے صرف اقتصادی زندگی کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ سیاسی اور سکیورٹی کے تناظر میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں میں آمرانہ حکومتوں کی غیرمقبولیت اور لبرل سیاسی اقدار کے پھیلاؤ کو عالمگیریت کے سیاسی اثرات سمجھا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں گلوبل سکیورٹی کا تصور بے حد مقبول ہوا ہے۔ دہشت گردی‘ منظم جرائم‘ گلوبل وارمنگ اور عالمگیر وبا (Pandemic) جیسے چیلنجز نے قومی ریاستوں کو ایسی مشترکہ کاوشوں کو بروئے کار لانے پر مجبور کر دیا ہے جن کے نتیجے میں وہ باہمی بقا اور سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔
طاقتور اور دولت مند ممالک اپنی زبان اور کلچر کو دنیا میں پھیلانے کیلئے جس طریقے سے ڈیجیٹل سپیس کو استعمال کررہے ہیں وہ گلوبلائزیشن کے ثقافتی پہلو کو نمایاں کرتی ہے؛ تاہم پچھلی ایک دہائی سے عالمگیریت کے عمل پر نہ صرف دنیا میں اس حوالے سے بحث جاری ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہو گا بلکہ وہ سرزمین جہاں سے یہ عمل شروع ہوا وہاں اس کی پذیرائی بھی ماند پڑگئی ہے۔ اس کی دو وجوہ ہمارے سامنے آئی ہیں‘ 2008-09ء کا عالمی اقتصادی بحران اور پھر کورونا جس کے بعد مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی معیشت بحران کا شکار ہوئی اور وہاں عالمگیریت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ کم وبیش یہی ردعمل دیگر مغربی ممالک میں بھی دیکھنے کو ملا۔
امریکہ سمیت تمام ممالک میں عالمگیریت کے متبادل کے طور پر ایک ایسا سیاسی نظریہ سامنے لایا گیا جسے Populism کہتے ہیں۔ عام عوام نے اس کوپذیرائی بخشی اور وہاں ایسے حکمران بر سر اقتدار آنا شروع ہوئے جو اپنے ممالک کی اقتصادی پالیسیاں اور عالمی روابط عالمگیریت کے مخالف اصولوں پر طے کرتے نظر آئے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس عالمگیریت مخالف سوچ کے سب سے بڑے دعویدار بن گئے۔ اکنامک نیشنلزم اور پاپولزم ان کی سیاست کے دو اہم نظریاتی عوامل سمجھے جانے لگے‘ لہٰذا پچھلی ایک دہائی سے عالمگیریت کے عمل پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے گئے کہ کیا اب یہ مزید آگے بڑھے گا یا اس عمل کی واپسی شروع ہو چکی ہے؟ البتہ حالیہ برسوں میں چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی قوت نے جہاں بین الاقوامی طاقت کے توازن کو نئے سرے سے متعین کرنا شروع کر دیا ہے وہیں عالمگیریت کے عمل کو قدرے نئے انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ چین 2010ء میں جاپان سے معاشی سبقت لے جانے کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔ پچھلے چند برسوں میں چین کا نیا گلوبل وژن جو Belt and Road Initiative (BRI) کہلاتا ہے‘ سامنے آچکا ہے۔ اس منصوبے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اقتصادی ادارہ جاتی ڈھانچہ ایک بینک کی صورت میں منظم کیا جا چکا ہے۔ دنیا کا ایک بڑا حصہ چین کے اس اقتصادی پھیلاؤ کو ایک نئی عالمگیریت کہہ رہا ہے‘ لہٰذا جہاں مغربی ممالک میں اس عمل کی مخالفت سامنے آئی ہے اور ان ممالک کی سیاست تبدیل ہوئی جس کے مطابق ایک Inward معاشی پالیسی کی تشکیل ہونے لگی‘ وہیں چین کے اقتصادی پھیلاؤ نے عالمگیریت کو ایک نئے انداز میں پیش کر دیا ہے۔
گلوبلائزیشن کا مستقبل کیا ہے؟ اس کا تعین کرنا مشکل کام ہے۔ ایک سے زائد محرکات کا تجزیہ کرنے کے بعد اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔ ان محرکات میں دنیا کے اندر نئے معاشی مراکز کا قیام‘ ڈیجیٹلائزیشن اور مغرب کے اندر مطلق سیاسی اتفاق رائے کا نہ ہونا شامل ہیں۔ کووڈ 19 کے بعد یہ عمل قدرے سست روی کا شکار ہو چکا ہے؛ تاہم اس عمل کے خاتمے کا اعلان ابھی قبل ازوقت ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فری مارکیٹ اکانومی نے پچھلی ایک صدی میں متعدد بڑے اقتصادی بحران پیدا کیے ہیں‘ موجود بحران بھی اسی کا پیدا کردہ ہے۔ خیال ہے کہ کورونا کے تھم جانے کے بعد محض مارکیٹوں کا استحکام اس مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہوگا بلکہ طاقتور اقوام کو ایک ایسا اقتصادی فریم ورک تیار کرنا ہو گا جو انسانوں کی فلاح کے ساتھ ان کی سیفٹی کو بھی یقینی بنائے آخر ہم سب کی زندگیوں کا انحصار بھی تو اس پر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں