گورننس اور سیاست کی مہنگائی

مہنگائی نے صرف اشیائے ضروریہ کو ہی مہنگا نہیں کیا بلکہ ریاست کو چلانے کے لیے کیے جانے والے اخراجات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔اسی طرح سیاست کبھی نظریے کی بنیاد پر کی جاتی تھی اور کسی سیاسی جماعت کی مقبولیت کے باعث اس کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، چاہے ٹکٹ ہولڈر کوئی عام کارکن ہو یا مڈل کلاس کا نمائندہ ، کامیابی جماعتی وابستگی اور نظریاتی پوزیشن سے جڑی ہوتی تھی‘ تاہم پچھلی تین دہائیوں سے زائد عرصہ میں وطن عزیز میںسیاست کرنا بہت مہنگا شغل بن چکا ہے۔
ہماری سیاست میں دولت کے بنیادی کردار کو اس وقت فروغ ملا جب 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے۔ ایم آر ڈی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا لہٰذا یہ انتخابات خالصتاًشخصی اثرورسوخ ، برادری ازم اور دولت کے بل بوتے پر لڑے گئے۔ ان انتخابات میں امیدواروں نے ہماری سیاست میں ایک نئے رجحان کو متعارف کروایا۔ گاڑیوں پر لگے پوسٹرزاور امیدواروں کی تصاویر پر خوب پیسہ خرچ کیا گیا۔ ہمیں یاد ہے کہ لاہور کے ایک مشہور حلقۂ انتخاب میں جہاں اس وقت کی ایک نسبتاً غیر معروف کاروباری شخصیت الیکشن لڑ رہی تھی۔ ان کے انتخابی حلقے میں آویزاں بینرز اور پوسٹرز بہت رنگین ، عمدہ کاغذ اور کپڑے سے بنے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کی انتخابی مہم میں استعمال ہونے والی پرائیویٹ گاڑیاں بے حد قیمتی سمجھی جاتی تھیں۔ وہ ایسا زمانہ نہیں تھا کہ آپ کو سڑکوں پر اور وہ بھی لاہور میں‘ نت نئے ماڈل کی مہنگی گاڑیاں دیکھنے کو ملیں لیکن اس مذکورہ انتخابی مہم میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کی شان ہی کچھ الگ تھی۔ اس وقت مبینہ طور پر ایک خبر یہ بھی چلی کہ امیدوار کی جو تصویر پوسٹر کی شکل میں گاڑیوں پر آویزاں ہے وہ یورپ کے ایک ملک کے فوٹو گرافر کو پاکستان بلوا کر بنوائی گئی تھی۔
یہ رجحان ملکی سیاست میں نوے کی دہائی اور پھر آج تک مضبوط ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ 1988ء کے بعد ہمارے ملک میں انتخابات قومی سطح پر جماعتی بنیادوں پر ہی کروائے گئے۔ آج ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ عام کارکن یا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا امیدوار انتخابی سیاست میں حصہ لے سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ جماعتوں میں اب بھی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹکٹ ملتے ہیں تاہم یہ تعداد ملکی سیاست کے مجموعی ماحول میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سیاست صرف ہمارے ملک میں مہنگی ہو گئی ہے یا دنیا کے باقی ممالک میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھنے کو ملتا ہے؟ دولت کا عمل دخل یقینا دنیا کی نام نہاد مہذب جمہوریتوں میں بھی بڑھ چکا ہے‘ تاہم ان ممالک میں جمہوری سیاست کے لوازمات اور اعضا بہت مضبوط ہیں۔ مثال کے طور پر قانون کی حکمرانی ، وسیع اور مضبوط سول سوسائٹی ، ایک مؤثر میڈیا اور ایک بہت بڑی مڈل کلاس، یہ سب وہ عوامل ہیں جو ان نظاموں میں موجود Oligarchies کو ماڈریٹ رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان ممالک میں بھی نا قدین سیاست اور حکومت میں سرمایہ دار طبقے کے بڑھتے ہوئے کردار کو نشانہ بنارہے ہیں۔
ناموردانشور نوم چومسکی امریکہ کی جمہوریت میں سرمایہ دار طبقے کے کردار کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ امریکہ میں دو جماعتی نظام بڑے مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے لیکن وہاں ایک ہی جماعت سیاست کو طے کرتی ہے اور وہ ہے وہاں کا سرمایہ دار طبقہ ، جو فیصلہ کرتا ہے کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ میں سے کون سی جماعت الیکشن جیتے گی۔ ہندوستان میں نریندر مودی جب پہلی بار وزیراعظم بنا تو کئی اخبارات اور اداریوں میں یہ لکھا گیا کہ اس وقت ہندوستان ایک ڈیموکریٹ ری پبلک نہیں بلکہ کارپوریٹ ری پبلک بن چکا ہے کیونکہ بھارت کے سرمایہ داروں نے بی جے پی کی انتخابی مہم پر مبینہ طور پر بہت زیادہ سرمایہ لگایاتھا؛چنانچہ اگر کسی ملک میں انفرادی طور پر سیاستدان اپنی دولت کی بنیاد پر الیکشن لڑتا ہے اورانتخابی اخراجات جو نظر آتے ہیں اور وہ جو نظر نہیںآسکتے کیونکہ انہیں صرف تیسری آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے، ان دونوں کو ملا لیا جائے تو کوئی عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ انتخابی سیاست میں حصہ لے سکے گا۔ تو دوسری طرف جماعتی نظام کے مضبوط اور جمہوری ہونے کے باوجود سرمایہ کسی نہ کسی شکل میں سیاست پر اثر انداز ہوتا نظر آتا ہے۔ دونوں صورتوں میں جمہوریت ایکCapitalist Democracy یا سرمایہ دار انہ جمہوریت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
دنیا میں ڈیجیٹل انقلاب کے بعد ہمارا طرز زندگی تبدیل ہو چکا ہے ۔ جہاں ہمارا طرزِ معیشت اور معاشرت نئی جہتوں کو اپنا رہا ہے وہیں اس ٹیکنالوجی نے طرزِ سیاست کو بھی متاثر کیا ہے۔ سیاست اور طرزِ حکمرانی دونوں آج کے دور میں اس جدید ٹیکنالوجی کو اپنا چکے ہیں ۔ ای گورننس کا بہت چرچا ہے۔ وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ اور صوبے کے اعلیٰ انتظامی عہدے داران سب گورننس کے اس طریقہ کو اپنا رہے ہیں۔ اس ضمن میں ویڈیولنک کے ذریعے میٹنگ کرنا اور فیصلوں تک پہنچنا ایک مروجہ طریقہ بن چکا ہے۔ اس سے جہاں وقت کی بچت ہوتی ہے وہیں خرچہ بھی کم ہوتا ہے۔ جہازوں اور مہنگی گاڑیوں کے قافلوں کی شکل میں سفربچ جاتا ہے‘ لہٰذا اس طرز گورننس کو کم خرچ اور زیادہ مستعد سمجھا جانے لگا ہے۔ تاہم بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی حکمران اس جدت کو قبول کرتے نظر نہیں آتے۔ ہمارے حکمران ملک کے اندر حکومتی اخراجات کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ معلوم نہیں ہوتے ۔ چند ایسی مصروفیات اور دورے جو شاید نہ بھی کیے جائیں تو ملکی معاملات با آسانی چلائے جا سکتے ہیں، ان دوروں کو بھی بہت زیادہ Projectکیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ایک زمانے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس ہر صوبائی دارالحکومت میں منعقد کیا جائے گا۔ ایک بار اس دور میں وفاقی کابینہ کا اجلاس گوادر میں بھی منعقد ہوا۔ ظاہر ہے اس تمام سرگرمی میں بھر پور قومی وسائل خرچ ہوئے ہو ں گے جو کہ بہ آسانی بچائے جا سکتے تھے۔اس طرح کے فیصلوں کی بنیاد یہ دلیل ہو اکرتی ہے کہ اس سے قومی وحدت کو فروغ ملے گا، مگر ان کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ قومی وحدت وفاقی کابینہ کے اجلاس مختلف صوبائی دارالحکومتوں میں منعقد ہونے سے حاصل نہیں ہوا کرتی اس کے واسطے آپ کو بلارنگ و نسل اور عقیدہ، تمام پاکستانیوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بہم پہنچانی ہوتی ہیں۔
ملک میں آنے والی حالیہ حکومتی تبدیلی کے نتیجے میں اب ایک وفاقی کابینہ تشکیل پا رہی ہے ۔ وزیراعظم اپنا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ابھی وفاقی کابینہ بنی نہیں اور وزیراعظم کراچی تشریف لے گئے ان کے ساتھ ایک وفد بھی گیا۔ ایئر پورٹ پر پوری سندھ کا بینہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کی قیادت میں جناب وزیراعظم کا استقبال کیا۔ پھر اس کے بعد متعدد اجلاس اور بریفنگز منعقد ہوئیں۔اب جبکہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اسلام آباد میں موجود تھی‘ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی صاحب بھی اسلام آباد میںتھے تو شاید ہمارے وزیراعظم اگر تھوڑانتظار کرتے، کابینہ تشکیل پا لینے دیتے اور پھر اگر بہت ہی کوئی ضروری دورہ تھا تو چلے جاتے کیونکہ مذکورہ دورے کا کوئی واضح مقصد سامنے نہیں آ سکا سوائے اس کے کہ یہ ایک خیر سگالی دورہ تھا۔اس طرح 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے اور پھر ریلیف کا عمل آگے بڑھانے کیلئے مبینہ طور پر کروڑوں روپے ہیلی کاپٹرز کے کرایوں کی مد میں حکومتی خزانے سے ادا ہوتے ر ہے۔ یہ تمام اخراجات بچائے جا سکتے تھے اگر پہلے سے موجود ادارہ جاتی ڈھانچے کو فعال بنا کر متاثرہ علاقوں تک گورننس کو ممکن بنایا جاتا‘لیکن ہماری حکمران اشرافیہ ذاتی تشہیراور Political Gimmicksپر زیادہ یقین رکھتی ہے اس لیے کم خرچ طرزِ حکمرانی کو چھوڑ کر ایک مہنگا طرز حکمرانی اپنا نے کو ترجیح دیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں