اے میرے پیارے وطن

ملک میں ہر سال 23 مارچ کو بطور یوم پاکستان منایا جاتا ہے۔ آج ہی کے دن 82 سال قبل برصغیر کے مسلمانوں نے فیصلہ کیا تھا کہ انہیں ایک آزاد مملکت چاہیے۔ ایک ایسی مملکت جس میں معاشرے کے تمام طبقات سماجی اور معاشی انصاف حاصل کر سکیں۔ جس میں قانون کی حکمرانی ہو۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ پاکستان کے بننے کی تحریک ایک سیاسی تحریک تھی؛ تاہم جس جداگانہ قومی تشخص کی بنیاد پر جنوبی ایشیا کے مسلمان آزادی مانگ رہے تھے‘ اس کا اصل محرک مذہب تھا‘ یعنی مسلمانوں نے مسلم قومیت کی بنیاد پر الگ وطن حاصل کیا؛ البتہ بانیٔ پاکستان کے سیاسی تصورات اور آزادی کے فوراً بعد پہلی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کے مطابق پاکستان کو ایک ایسی ریاست بننا تھا جس میں غیر مسلم شہری بھی ریاست اور قانون کی نظر میں برابر اور پہلے درجے کے اہل وطن تصور ہوں گے۔
اس دن کو مناتے ہوئے ہمیں کئی سال ہو چکے۔ قومی تعطیل ہونے کے علاوہ اس روز ہمارے سیاسی رہنما اور ریاستی اداروں کے سربراہان کے بیانات کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک تجدید عہد کی جاتی ہے کہ ہم ملک کو قائد کا پاکستان بنائیں گے۔
کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اس تجدید کی ہر سال ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے؟ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ہر گزرتے سال کے بعد ہم بانیٔ پاکستان کے تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نئی منزلوں کو حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی مجموعی قومی اور ریاستی کار کردگی کا ایک سرسری جائزہ لینا چاہیے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو گا کہ وہ ریاست جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی اس کو ہم کس طرح چلا سکے ہیں اور ایسا کیوں ہے کہ ہر سال اس دن کو مناتے ہوئے ہم اب بھی یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اس ملک کو بانیٔ پاکستان کے وژن کے مطابق چلایا جائے گا‘ یعنی اب تک ہم جتنا بھی قومی سفر طے کر کے یہاں تک آئے ہیں وہ شاید اس تصور کے مطابق نہیں ہے؟
دراصل قائد اعظم نے جو ریاست جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو حاصل کر کے دی وہ ایک مسلم قومی فلاحی ریاست تھی؛ تاہم کچھ ہی عرصے بعد اسے ایک قومی سلامتی کی ریاست میں تبدیل کر دیا گیا۔ جہاں بہت ساری دیگر وجوہات اور چیلنجز اس قومی فلاحی ریاست کے حصول میں رکاوٹ بنتے رہے وہیں ایک بہت بڑا محرک بانیٔ پاکستان کی رحلت بھی تھی۔ چونکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت میں آزادی کے فوراً بعد ہی ان ریاستی رہنما اصولوں کو طے کر لیا گیا جس کے نتیجے میں ایک نیا آئین اور زرعی اصلاحات جیسے اہم قومی فیصلے کر لیے گئے۔ اس میں کئی اور وجوہات کے علاوہ جو اہم ترین محرک تھا وہ جواہر لال نہرو کی قیادت تھی‘ جو بھارت کو آزادی کے بعد سترہ سال تک مسلسل حاصل رہی۔ اگرچہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں جتنے بھی لیڈرز پیدا ہوئے‘ انہوں نے جس وژن کی بنیاد پر اپنی قوموں کے لیے آزادی حاصل کی وہ وژن Timeless ثابت نہیں ہوئے‘ وقت کے ساتھ ان میں تبدیلیاں ہوئیں، نئے فیصلے کیے گئے‘ بدلتے ہوئے حالات میں قومی مفادات نئے تناظر میں تشکیل دیئے گئے؛ البتہ لیڈرز کے وژن کا بنیادی فریم ورک وہی رہا۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان میں بننے والی سول اور ملٹری حکومتوں نے مختلف انداز میں ریاستی ترجیحات کا تعین کیا۔ اس حوالے سے چند ایسے بڑے فیصلے جو ان حکمرانوں کے تصور مملکت کی عکاسی کرتے تھے ان میں ایوب خان کا قومی سلامتی کی ریاست کا تصور تھا‘ جو بھرپور معاشی ترقی کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو آئے اور انہوں نے سوشل ڈیموکریسی کا تصور پیش کیا۔ کئی مبصرین کے خیال میں ان کا یہ تصورِ ریاست جواہر لال نہرو کے سیاسی تجربہ سے متاثر تھا‘ جس کے مطابق سیاست کا انداز تو عوامی ٹھہرا مگر معیشت کا مضبوط نظم ریاست کے پاس رہا۔ ہم نے دیکھا کہ ایوب خان کی طرح بھٹو کا تصور مملکت بھی ملک کے ایک بڑے حصے میں غیر مقبول ٹھہرا۔
جنرل ضیاء الحق کے نظریہ ریاست کے مطابق مملکت کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جانا چاہتے تھا‘ لہٰذا ایک کنزرویٹو اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ جنوبی ایشیاء کی مذہبی روایت اپنی اصل میں وسطی ایشیاء سے متاثر رہی ہیں‘ لیکن ضیاء الحق اس روایت پر عرب کی چادر چڑھانا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی عدم رواداری اور شدت پسندی‘ دونوں ہمارے معاشرے کی پہچان بن گئے۔
1988 سے لے کر 1999 تک کا سفر کسی بھی واضح قومی سمت کے بغیر طے کیا گیا۔ سیاسی عدم استحکام اور سست معاشی شرح نمو کے طور پر ہمیں اس غیر واضح سمت کی قیمت ادا کرنا پڑی۔
پرویز مشرف نے مملکت کو چلانے کے لیے ایک نئے تصور کو متعارف کروایا‘ جس کو Enlightened Moderation کہا گیا۔ اس نے ملک میں واضح طور پر دو طبقے‘ جو اپنی فکری حیثیت میں ایک دوسرے سے بالکل مخالف سمت میں تھے، پیدا کر دیئے۔ لبرل فاشسٹ اور شدت پسند کہلانے والے یہ فکری گروہ ہمارے معاشرے میں نظر آنے لگے۔
2008ء سے ہمارے ملک میں ایک نیا سیاسی تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے کی بنیاد پر میثاق جمہوریت پر رکھی گئی‘ جسے عرف عام میں مفاہمت کی سیاست کہا گیا‘ جس کے موجد جناب زرداری تھے؛ تاہم مخالفین کی اس تنقید کے باعث کہ یہ ایک مک مکا کی سیاست ہے اس تاثر نے سیاسی منظر نامے پر ایک تیسری سیاسی قوت کے لیے گنجائش پیدا کر دی‘ جس کے نتیجے میں عمران خان حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ خان صاحب نے مفاہمت کی سیاست کی مخالفت کر کے اور کرپشن کو پاکستان کے مسائل کی اصل وجہ قرار دے کر ایک ایسا تصورِ ریاست پیش کیا ہے جسے وہ مدینہ کی ریاست سے تشبیہ دینے لگے۔ گورننس کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہا؛ تاہم ہمارے ملک کے اندر ایک سیاسی optimism مضبوط ہوا کہ ہم بالآخر طویل المیعاد سیاسی استحکام کے لیے ضروری جمہوری تسلسل کو یقینی بنانے میں ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔ 2008 سے 2013 اور پھر 2013 سے 2018 تک ہم جمہوری عمل کو مکمل کر کے ہی ادارہ جاتی عمل سے سیاسی نظام کو مضبوط کر رہے ہیں‘ لیکن ملک میں جاری حالیہ سیاسی بحران نے نئے سوالات پیدا کر دیئے ہیں اور ہمارے سیاسی Idealism کو shatter کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ لوگ جو سمجھ رہے تھے کہ اب پاکستان میں بانیٔ پاکستان کے تصور کے مطابق آئین کی بالا دستی اور اعلیٰ اخلاقی و جمہوری قدروں کو ملحوظ رکھ کر ریاست چلائی جائے گی‘ انہیں مایوسی نے گھیر لیا ہے کہ کہیں ہم دوبارہ دائرے کے سفر میں گھومتے ہوئے واپس وہیں تو نہیں پہنچ جائیں گئے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔ اس صورت حال نے قوم کی امید کو کمزور کرنا شروع کر دیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہ امید ٹوٹ جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں