انا پرستی اور جمہوری تماشا

دوسری جنگ عظیم کے بعد تیسری دنیا کے کئی ممالک میں طلسماتی لیڈرشپ کا تصور مقبول ہوا۔ نامور جرمن سوشیالوجسٹ میکس ویبر نے یہ تصور پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق ضروری نہیں کہ اتھارٹی روایتی اور قانونی طریقوں سے ہی حاصل ہو بلکہ بعض اوقات یہ لیڈر کی طلسماتی شخصیت سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ میں بیسویں صدی اس اعتبار سے اہم رہی کہ اس میں متعدد عرب، افریقی، اور ایشیائی ممالک میں طلسماتی لیڈرز پیدا ہوئے۔ اس طرح کے قائدین جمہوری اور غیر جمہوری‘ دونوں نظاموں میں سامنے آئے۔
اس قسم کی قیادت اگرچہ عوامی سطح پر بے حد مقبول ہوتی ہے؛ تاہم اس کا المیہ یہ ہے کہ اس طرز قیادت میں ادارہ سازی کا عمل سست ہو جاتا ہے‘ اور اجتماعی دانش کا اصول کمزور پڑ جاتا ہے کیونکہ شخصی اوصاف عوامی رائے اور ادارہ جاتی عمل پر غالب آ جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت ان کی قانونی اور ادارہ جاتی اتھارٹی پر غالب رہی۔ بہت سارے فیصلے، خواہ وہ داخلی امور کی انجام دہی کے حوالے سے تھے یا خارجہ امور کے سلسلے میں، وہ ان کی ذاتی اور شخصی صلاحیتوں کے زیر اثر رہے۔
ناقدین کے مطابق اس طرح کی قیادت میں یہ خطرہ رہتا ہے کہ سیاسی اور آئینی اداروں کی ترویج اور استحکام کا عمل متاثر ہو جائے اور لیڈرز کی انفرادی خوبیاں یا خامیاں اہم داخلی اور سیاسی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کرنے لگیں۔
اس کے علاوہ اس طرزِ قیادت کا ایک منفی پہلو ذاتی پسند یا نا پسند بھی ہو سکتا ہے۔ بالخصوص جب طلسماتی لیڈرز نرگسیت اور انا پرستی جیسے خطرناک مائنڈ سیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ ویسے تو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر‘ دونوں طرح کے ممالک میں ایسی قیادتیں دیکھنے کو ملتی ہیں؛ البتہ ترقی پذیر دنیا میں‘ جہاں سیاسی روایت کمزور ہے‘ ایسی لیڈر شپ کے باعث اہم قومی سیاسی بحرانوں کے پُر امن حل ڈھونڈنے میں مشکلات درپیش رہی ہیں۔ کمزور ادارہ جاتی نظام ہونے کے باعث جب بھی طلسماتی قیادت کسی سیاسی بحران سے دو چار ہوئی تو ایک بار پورے سیاسی نظام کے وجود کو خطرات لاحق ہونا شروع ہو گئے۔
آزادی کے فوراً بعد ہمارے ملک میں وفاق کے دونوں حصوں کے مابین پایا جانے والا عدم اتفاق اور عدم اعتماد ہم ایک جمہوری تسلسل اور سیاسی عمل کے ذریعے دور کر سکتے تھے مگر ایسا نہ کرنے کی وجہ سے جس حکمران اشرافیہ کے ہاتھ میں ملک باگ ڈور آئی اس نے ادارہ سازی کے بجائے اپنی ذاتی انا اور پسند نا پسند کو ترجیح دی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
ایوب خان ایک بہت ہی با اختیار صدر تھے۔ جن سیاست دانوں کو انہوں نے اپنے آپ سے ایک بڑے فاصلے پر رکھ دیا تھا‘ انہی سیاست دانوں کے ساتھ آخر میں مذاکرات کی بات کرتے نظر آئے کیونکہ اقتدار کے عروج کے دنوں میں وہ کوئی سیاسی میکنزم‘ جو Inculsive ہوتا، نہ بنا پائے۔ ذاتیات اور انا پرستی ملکی سیاست پر چھائی رہی۔ نتیجہ پھر ہمارے سامنے ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں آئے تو مغربی پاکستان میں ان کی سیاسی مقبولیت ہمالیائی تھی؛ تاہم کچھ ہی عرصے میں ان کے سیاسی مخالفین کی تعداد بڑھنے لگی۔ سیاسی اختلافات ذاتی بن گئے۔ سیاسی پولرائزیشن اتنی شدید ہو گئی کہ حزب اقتدار اور جزب اختلاف ایک دوسرے کی جانی دشمن نظر آنے لگیں۔ لہٰذا 1977 کا بحران‘ جو سیاسی روایت اور سیاسی ادارہ جاتی عمل کے ذریعے حل ہونا چاہیے تھا‘ وقت گزر جانے کے باعث ایک خلا پیچھے چھوڑ گیا جسے کسی اور نے پُر کیا۔ نوے کی دہائی‘ جسے ہماری سیاسی تاریخ میں ایک Lost Decade سمجھا جاتا ہے‘ کے دوران بھی سیاسی جماعتیں اس کم از کم سیاسی اتفاق رائے کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں جس کی بنیاد پر جمہوریتیں چلا کرتی ہیں؛ تاہم اس دوران جہاں سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے درپے تھیں‘ وہیں شخصی اختلافات اور انا کا ٹکرائو ہمیں سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان بھی نظر آیا اور اس کی بھاری قیمت ملکی معیشت اور ریاستی ڈھانچے کو ادا کرنی پڑی۔
یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ اقتدار میں (1993-96 کے دوران) بے نظیر بھٹو صاحبہ کے اپنی ہی پارٹی کے صدر سردار فاروق احمد خان لغار ی صاحب کے ساتھ اختلافات سامنے آ گئے۔ یہ اختلافات سیاسی کم اور ذاتی نوعیت کے زیادہ تھے۔ دونوں شخصیات کی بھاری بھرکم انا ٹکرائی اور نظام زمین بوس ہوتے دیکھا گیا۔
ملک میں جاری حالیہ سیاسی بحران کے نتیجے میں ایک بار پھر ہماری سیاست کی خامیاں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ ماضی کی طرح اس بار بھی اقتدار کی شطرنج کے کھلاڑی ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بلا شبہ سیاسی جماعتیں اپنی سرشت میں اقتدار کی تمنا لیے ہوتی ہیں کیونکہ پاور میں آئے بغیر وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کر سکتیں‘ لیکن اقتدار میں آنے اور پھر اس سے نکلنے کا ایک آئینی اور جمہوری طریقہ ہوا کرتا ہے۔ بالغ سیاست وہی کہلواتی ہے جو اس راستے کا نہ صرف متعین کرتی ہے بلکہ اس کے علاوہ تمام راستے بند کر دیتی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں آئینی اور جمہوری راستوں سے اقتدار میں آنے کا طریقہ کسی سیاست دان نے بھی اختیار نہیں کیا۔ بظاہر عوامی حمایت اکٹھی کرنے والے اور انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے والے رہنمائوں اور جماعتوں نے بڑی آسانی سے کندھے، بیساکھیاں اور پھٹے استعمال کر کے حکومت میں آنے کو ترجیح دی ہے۔
جب ہمارے سیاستدان اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو وہ سیاسی اخلاقیات پر شاندار مقالہ جات پڑھتے سنے جاتے ہیں۔ چونکہ‘ جیسے کہ کہا جاتا ہے‘ عوام کی یادداشت گولڈ فش مچھلی کی طرح short lived ہوتی ہے لہٰذا یہی سیاست دان جب برسر اقتدار ہوتے ہیں اور سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں‘ تو لوگ ان کی پہلے کی باتوں کو بہ آسانی بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح جب لوگ کسی جماعت کو مسترد کرتے ہیں تو کچھ عرصہ بعد اسی کو دوبارہ موقع دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی بات اہل سیاست کو دراصل زندہ رکھتی ہے۔
تو طے یہ ہوا کہ اگر کسی ملک کی سیاست کے کھلاڑی صرف اور صرف اقتدار کی سیاست کرنا چاہیں ۔ اور اس کے لیے وہ کسی بھی اخلاقی اصول کو ملحوظ رنہ کھتے ہوں ۔ تو پھر وہاں یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ سارے طبقات جو سیاست اور حکومت کے کھیل سے دور ہیں ، وہ ایک قومی ذمہ داری سمجھ کر سیاسی دھول اور غلاظت کو صاف کرنے کے لیے نہ صرف اپنی اپنی جگہ کو شش کریں بلکہ وہ طاقت کے مراکز پر عوامی رائے عامہ کا دبائو بڑھائیں تاکہ کھیل قاعدے اور اصولوں کے فریم ورک میں رہ کر کھیلا جائے ۔ یاد رہے کہ اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں سے آزاد سیاست قومی مسائل کے حل کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں