عمران خان کے کارڈز اور سرپرائزز

تین اپریل کا دن ملک کی سیاسی تاریخ میں کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔اس روز ایک ڈرامائی انداز میں قومی اسمبلی کے اندر عدم اعتماد کی تحریک مسترد ہوئی اور اس کے کچھ دیر بعد وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت وجود میں آئی ۔ اس سے قبل کپتان ایک طویل سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔ اگرچہ ان کی سیاست ایک نظریے کی بنیاد پر آگے بڑھی تاہم اقتدار میں آنے کے لیے انہوں نے وہ تمام سیاسی سمجھوتے کئے جو پاور پالیٹکس کے تقاضے سمجھے جاتے ہیںمثلاً اس ملک کی مقتدر قوتوں کا تعاون اور ایسے افراد کو ٹکٹ دینا جو تمام سیاسی جماعتوں کی ضرورت سمجھے جاتے ہیں۔ ان رہنماؤں کو عرف عام میں Electables کہا جاتا ہے۔
خان صاحب ایک پاپولسٹ ہیں۔ عوام کو جمع کرنا اور بے لاگ انداز میں سیاسی اشرافیہ پر تنقید کرنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ اسی اندازِ سیاست کو اپنا کرانہیں عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ہمارے عوام جو مسائل میں گھرے ہوئے ہیں انہیں عمران خان کی شکل میں ایک سیاسی مسیحانظر آیا؛چنانچہ انہوں نے اس مقبولیت کو انتخابی کامیابی میں تبدیل کر دیا۔ جیسے ہی یہ واضح ہو گیا کہ مرکز ‘کے پی اور پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت بنائے گی خان صاحب کے سپورٹرز اور ووٹرز جو کہ اپنی توقعات کو پہلے ہی بلند ترین سطح پر لے جا چکے تھے‘ سمجھنے لگے کہ ایک آئیڈیل نظام حکومت اب اس ملک کا مقدر بنے گا اور اہل ترین افراد تعینات کیے جائیں گے بالخصوص اہم ترین سیاسی مناصب قابل ترین افراد کو ملیں گے۔مگر وفاقی کابینہ کی تشکیل وہ پہلا مرحلہ تھاجس نے عوامی توقعات پر کاری ضرب لگائی۔ وہی پرانے آزمودہ چہرے نظر آئے‘ لہٰذا اپنے پہلے ٹیسٹ میں پی ٹی آٹی حکومت بمشکل 33فیصد نمبر لے سکی۔ اس کے بعد صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہوا۔ ایک بار پھر سب کی نظریں خان صاحب کے حسنِ انتخاب پر تھیں۔ صوبہ پنجاب جو ملکی سیاست میں اہم ترین محرک ہے‘ نہ صرف آ بادی کے اعتبار سے بلکہ ملک کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ صوبہ پنجاب کے زیر اثر ہے۔ یہاں ایک مضبوط اور مؤثر حکومت وفاق میں استحکام کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ عمران خان اس صوبے میں اپنی حکومت بنا کر ایک ایسے چیلنج کو قبول کر رہے تھے جو متقاضی تھا کہ پی ٹی آئی شہاز شریف کے متبادل کے طو ر پر اپنا ایک مضبوط وزیر اعلیٰ میدان میں اتارے۔ یوں سمجھ لیجئے خان صاحب کو ایک ہائی اوکٹین وزیراعلیٰ کے بعد ایک Turbo چیف منسٹر یہاں لانا تھا لیکن عثمان بزدار کی نامزدگی نے نہ صرف ہم سب کو حیران کر دیا بلکہ پی ٹی آئی کے اندر بھی اس فیصلے کے نتیجے میں دھڑے بندی مضبوط ہونے لگی۔ یہاں عمران خان نے سیاسی فہم کا ثبوت نہ دیا۔انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے تھی کہ صوبے کی منہ زور اور سیاست زدہ بیورہ کریسی کو عثمان بزدار قابو نہیں کر سکتے۔ کابینہ کے اندر مختلف دھڑوں اور پنجاب اسمبلی کے اراکین کے مختلف گروپس کو ایک مضبوط وزیراعلیٰ ہی اپنے ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔ یہ ممکن نہ تھا کہ خان صاحب اسلام آباد سے پنجاب چلائیں۔ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومتی کارکردگی پر سب سے بڑا سوالیہ نشان رہے گی۔ اس تعیناتی نے خان صاحب کے پولیٹیکل کیپٹل اور ان کی اپنی جماعت پر گرفت‘ دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
عمران خان بلاشبہ ایک مقبول سیاسی لیڈر ہیں اور رہیں گے ‘اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں‘ البتہ اپنے دور حکومت میں جو سیاسی Management Skills انہیں استعمال کرنا تھیں وہ انہوں نے معلوم ہوتا ہے آؤٹ سورس کی ہوئی تھیں۔ جہانگیر خان ترین پہلے چند مہینوں میں اتحاد یوں اور پارٹی کے مؤثر افراد کے ساتھ رابطوں میں رہے اور پھر ایسی قوتیں جو نظر نہیں آیا کرتیں وہ خان صاحب کے لیے یہ کام کرتی رہیں۔ سیاست میں وہ بھی جب آپ اقتدار میں ہوں تواس طرح کی Dependence لیڈرز کے لیے نقصان دہ ہوا کرتی ہے کیونکہ مخلوط حکومتوں میں وزیراعظم ا ور وزرائے اعلیٰ کو اتحادیوں کے معاملات کا بھر پور ادراک ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو خان صاحب کا اتحادیوں کے ساتھ ابلاغ کمزور نظر آیا۔
احتساب کا نعرہ بلاشبہ سیاسی اعتبار سے خان صاحب کے لیے بہت فائدہ مند رہا لیکن کارکردگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس عمل میں سے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے پی ٹی آئی کے ووٹرز نے جن کی توقع کی تھی کیونکہ عدالتوں سے بڑی Convictions نظر نہیں آئیں ‘ اگرچہ کرپشن کیسز کی پروجیکشن بہت ہوئی ۔ معاشی حوالے سے دیکھا جائے تو عمران خان حکومت جب بر سر اقتدار آئی تو معاشی اشاریے ایک مناسب تصویر پیش کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ ہماری اکانومی اس وقت بھی قرضوں پر کھڑی تھی لیکن بظاہر ایک کمزور ہوم ورک کے ساتھ جب ملکی معیشت کو چلا یا جانے لگا تو چند اہم فیصلوں میں تاخیر کے باعث ملک میں مہنگائی بڑھنے لگی۔ ان فیصلوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ کی جانے والی ڈیل میں تاخیر بھی شامل تھی۔ دوسری طرف خان صاحب کی حکومت کو کووڈ کے بحران سے بھی نمٹنا پڑ گیا۔ المیہ یہ ہے کہ عوامی سوچ عالمی منڈیوں کی صورت حال اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے اور مرکز کے اختیارات جیسے محرکات کو سمجھ کر حکومت کی معاشی کارکردگی کو نہیں جانچتی بلکہ عوام براہ راست وزیراعظم کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
میڈیااور عمران خان حکومت کے تعلقات uneasy رہے۔ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اور پیکا قوانین ہوں یا وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں کے بیانات ‘ ان سبھی میں میڈیا کے بارے میں جارحانہ جذبات کا اظہار نظر آتا ہے۔عمران خان صاحب کا Idiomپولیٹیکل نہیں ہے۔ وہ ایک غیر روایتی سیاست دان ہیںلیکن جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو آپ کا Expression لازمی طور پر پولیٹیکل ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنے سماج اور روایات کے فریم ورک میں رہ کر سوچنا اور بولنا پڑتا ہے کیونکہ خواص کا تمدن‘ اور اقدارمعاشرے کے عوامی طبقات کے لیے رول ماڈل بنتے ہیں۔ اپوزیشن کے درمیان اتحاد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ این آر او سے لے کر احتساب کا خوف یا ان کی سیاسی مقبولیت کے کم ہونے کا خوف ‘ یہ سب متعلقہ عوامل ہو سکتے ہیں لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انہیں یکجا کرنے میں عمران خان صاحب کا بھی کردار رہا ہے۔ یہاں خان صاحب کی پولیٹیکلManagementکمزور رہی ہے۔
جمہوری معاشروں میں پارلیمنٹ ان اداروں میں سر فہرست ہے جو Conflict Resolutionکے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ ادارہ غیر فعال رہا ہے۔ اگرچہ اس میں اپوزیشن کا بھی قصور ہے۔ ایسا ماحول جس میں حکومت اور حزب ِاختلاف کم از کم سیاسی اتفاق رائے سے ایوان کو چلا پاتے ‘وہ قائم کرنے میں حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی ناکام نظر آتی ہے۔ آخری تجزیے میں یہ ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو فعال رکھیں۔
اگرچہ اہل سیاست کے لیے معروضی حقائق کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہوا کرتا لیکن خان صاحب کو اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا غیر جذباتی تجزیہ کرنا چاہیے ۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کس طرح برقرار رکھتے ہیں۔ اس وقت جس سیاسی بیانیے کے ساتھ وہ انتخابات کی طرف جائیں گے اس میں ان کے پاس تین ایسے کارڈز ہوں گے جو ہمارے ملک میں ووٹ لینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کارڈز میں ان کی ذاتی ایمانداری کا عنصر‘ قوم پرستی اور امن پسندی شامل ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں