سرپرائز

ملک کی حالیہ سیاسی تاریخ میں ہماری سیاسی ڈکشنری میں متعدد نئے الفاظ اور محاوروں کا اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی لفظ ''یو ٹرن‘‘ ملکی سیاسی گفتگو اور بیانات کی زینت بننا شروع ہوا‘ بالخصوص اپوزیشن خان صاحب کی حکومت کے بدلتے ہوئے فیصلوں پر اِسی اصطلاح کے ذریعے تنقید کرتی رہی۔ جب خان صاحب کی حکومت نے آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ کیا تو اپوزیشن کی طرف سے یہ اصطلاح بھرپور طریقے سے استعمال ہوئی کیونکہ حکومت میں آنے سے قبل عمران خان کہا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف نہیں جاؤں گا۔
پنجاب کی منصب داری جب سردار عثمان بزدار کے پاس آئی تو خان صاحب نے اپنے اس فیصلے کو Justify کرنے کے لیے انہیں وسیم اکرم ''پلس‘‘ کا لقب دے ڈالا۔ بس پھر کیا تھا، جب بھی بزدار سرکار پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے چاہے وہ میڈیا اینکرز تھے یا سیاسی مخالفین، وسیم اکرم پلس کے الفاظ ہی منتخب کرتے نظر آئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور ممکن ہے ابھی کچھ اور وقت ہماری سیاسی زبان انہی کو دہراتی رہے۔
2017ء کے پی ٹی آئی کے جلسہ منعقدہ لاہور میں خان صاحب نے ایک مشہور جملہ کہہ ڈالا ''میاں صاحب جان دیو، ساڈی واری آن دیو‘‘ مطلب ہے کہ اب بس بھی کریں‘ ہم نے بھی تو کھیلنا ہے۔ اس طرح کی لینگوئج کرکٹ میں بولی جاتی ہے کیونکہ خان صاحب ایک سابقہ قومی ہیرو اور کرکٹ کے کامیاب کپتان کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں‘ لہٰذا سیاست میں بھی انہوں نے اس کھیل کی اصطلاحات اور جارگن کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہی گیند سے دو یا تین وکٹیں اڑا دینا وغیرہ۔
2014ء میں جب خان صاحب نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو وہاں ایک یادگار جملہ بولا ''امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے‘‘۔ اب یہ جملہ پچھلے سات آٹھ برسوں سے اس تمام سیاسی ڈسکورس میں استعمال ہو رہا ہے جو چاہے جلسے میں موجود مقرر کہہ رہے ہوں یا ہمارے بڑے جید قسم کے میڈیا اینکرز ہوں۔ اس حوالے سے خان صاحب کو ان کے سیاسی مخالفین کئی بار آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بھی نظر آئے۔ کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کے تصور کو خان صاحب اپنے ساتھ منسوب کرتے ہیں اور کہہ چکے کہ میں ہی وہ پہلا کھلاڑی یا کپتان تھا جس نے نیوٹرل امپائرز کے معاملے پر سب سے پہلے آواز اٹھائی۔ اسی اصطلاح کو انہوں نے سیاست میں بھی متعارف کروا دیا‘ اور پھر ہمارے ملک میں سیاسی ٹاک شوز اور انٹرویوز میں امپائروں کی نیوٹریلٹی ایک بنیادی موضوع گفتگو بن گئی اور اب تو اس نیوٹریلٹی پر گفتگو کئے بغیر شاید ہم ملک میں جاری حالیہ سیاسی بحران کے محرکات کو ہی نہ سمجھ سکیں۔
مولانا فضل الرحمن پہلے دن سے عمران خان حکومت کے سخت ناقد رہے۔ اس مخالفت کی ایک سے زاہد وجوہات پر بحث ہو سکتی ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی مخالفت کیوں کی البتہ پی ٹی آئی نے جواب میں جہاں انہیں کئی ایسے القابات سے نوازا جو شاید غیر پارلیمانی اور غیر شائستہ ہونے کی وجہ سے ان صفحات پر لکھے نہیں جا سکتے تاہم اس حوالے سے ایک اور اصطلاح جو ہماری سیاسی لغت میں شامل ہو گئی وہ ہے ''سیاست کا بارھواں کھلاڑی‘‘ جیسے ہم جانتے ہیں کہ مولانا 2018ء کے انتخابات میں ہار گئے اور رکن پارلیمنٹ نہ بن سکے‘ اور جب وہ پارلیمان میں نہ ہوتے ہوئے پارلیمانی سیاست کے رُخ متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کرتے رہے تو پی ٹی آئی والے انہیں سیاست کا ''بارھواں کھلاڑی‘‘ کہتے ہیں۔ اب یہ ٹرم بھی کرکٹ سے مستعار لی گئی ہے۔ کرکٹ کے معنوں میں بارھواں کھلاڑی وہ ہوتا ہے جو میدان میں نہیں اترتا اور اس کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب فیلڈنگ کے دوران کوئی کھلاڑی زخمی ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے گراؤنڈ سے باہر چلا جائے تو وہ اس کی جگہ آ کر فیلڈنگ کرتا ہے۔
حالیہ چند ہفتوں میں ملک کی سیاست تحریک عدم اعتماد کے گہرے سایوں میں گھری رہی۔ اس دوران بھی مسلسل ہمیں ایسے نئے الفاظ، جملے، محاورے اور ٹرمز سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیںجو روایتی سیاسی گفتگو میں استعمال نہیں ہوتیں مثلاً ''سرپرائز‘‘ جو کہ ٹائم لائن کے اعتبار سے ہماری سیاست میں سب سے جدید اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔
جیسے جیسے عدم اعتماد پر ووٹنگ قریب آتی گئی خان صاحب کہنے لگے کہ میں اپوزیشن کو سرپرائز دوں گا۔ کیا وہ سرپرائز ان کے جلسے تھے؟ اور اسی طرح اپوزیشن بھی اس بات کا تواتر سے ذکر کرنے لگی کہ ابھی تو اصل سرپرائز ہم نے دینا ہے۔ کیا وہ سرپرائز سندھ ہاؤس میں مقیم پی ٹی آئی کے منحرف اراکین ہو سکتے تھے؟ پھر جب عدم اعتماد کی تحریک آخری مراحل میں داخل ہوئی تو ایک اور اصطلاح سامنے آئی۔ اس بار یہ 'ٹرمپ کارڈ‘ کی اصطلاح تھی۔ خان صاحب کے ترجمان پھر سیاسی ٹاک شوز میں کہتے سنے گئے کہ وزیر اعظم کے پاس ٹرمپ کارڈ ابھی باقی ہے۔ پھر یہ کہا گیا کہ ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد ہیں، اور کئی بیانات کے مطابق ایک درجن سے زائد ٹرمپ کارڈز، حکومت کے پاس ہیں۔
حکومت کی ہر چال اور اپوزیشن کے اس پر جوابی وار کو دیکھتے ہوئے، عوام سمجھنے لگے کہ شاید یہ ٹرمپ کارڈ ہو گا، شاید یہ ہی سرپرائز تھا۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ عدم اعتماد کے لیے مقرر کردہ دن یعنی 3 اپریل کو جو رولنگ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے دی اسے بھی پوری قوم نے سرپرائز ہی کہا۔
اب یہ درخواست کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے اور اسے غیر موثر قرار دیا جائے، دوسرے لفظوں میں اپوزیشن جو ماضی میں آٹیکل 69 کی رو سے اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ سپیکر کو مذکورہ آرٹیکل مطلق اتھارٹی دیتا ہے کہ رولنگ دے اور وہ کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی‘ اب وہ عدالت سے اس رولنگ کو جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد غیر موثر ہو گئی اور قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اسے مسترد کروانا چاہتی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہ تمام نئی اصطلاحات، الفاظ اور سرپرائزز کا سلسلہ جس نے ملک میں ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا کر دی ہے کہاں جا کر رکے گا۔ ملکی معیشت کے تمام اشاریے منفی سمت میں جا رہے ہیں۔ پوری قوم ایک نفسیاتی ہیجان کا شکار ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ملکی نظام رُک گیا ہے۔ اس سارے ماحول میں ہمارے تمام سیاسی کھلاڑیوں‘ چاہے وہ فیلڈنگ سائیڈ پر ہیں یا بیٹنگ سائیڈ پر‘ کو چاہیے کہ اپنے ہی قائم کردہ ریکارڈ کو خدا کے واسطے توڑ ڈالیں۔ افہام و تفہیم کا راستہ اپنائیں۔ 22 کروڑ عوام کو سیاسی استعارے، اصطلاحات اور سرپرائز نہ دیں۔ اور نہ ہی ان بے کس عوام کو ان کی کوئی ضرورت ہے بلکہ انہیں سیاسی استحکام دیں۔ مل کر بیٹھ جائیں اور ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کریں۔
کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اگر جمہوریت کسی بحران کا شکار ہو جائے تو اس کا حل مزید جمہوریت ہوا کرتی ہے، یعنی نئے انتخابات۔ لہٰذا ہمیں بھی بحیثیت ایک جمہوری ملک کے اسی راستے پر چلنا چاہیے۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ جمہوریت میں لاکھ خرابیاں ہو سکتی ہیں مگر اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نظام میں بحرانوں کے حل موجود ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں