اتحادیوں کی چاندی

عملی اور نظری سیاست کے اصول ضروری نہیں ایک جیسے ہوں۔ جن اصولوں کو سیاسی فلسفہ بیان کرتا ہے میدان سیاست میں ان کی پیروی نہیں کی جاتی۔ اسی لیے سیاست کو بہت سارے لوگ پاور پالیٹکس کہتے ہیں‘ یعنی سیاست کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار ہے جس سے انکار مشکل ہے‘ لہٰذا سیاسی جماعتیں چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی ان کا اصل مقصد اقتدار حاصل کرنا ہی ٹھہرتا ہے‘ اور حصولِ اقتدار کے لیے سیاسی جماعتیں جن نظریات اور اخلاقی اصولوں کا پرچار کرتی ہیں انہیں موقع ملتے ہی فراموش کر دیتی ہیں۔ ہاں البتہ جن سیاسی نظاموں میں رائے دہندگان باشعور ہیں اور آئین کی بالا دستی کا اصول مسلمہ ہے وہاں آسانی سے اہل اقتدار و سیاست اخلاقی اصولوں کو پس پشت نہیں ڈال سکتے۔
مخلوط حکومتیں اپنے وجود کے اعتبار سے غیر مستحکم تصور کی جاتی ہیں۔ چونکہ ایسی حکومتوں میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہوتی لہٰذا اقتدار بانٹا جاتا ہے، حصہ بقدر جُثہ کا اصول کار فرما ہوتا ہے۔ حکمران اتحاد میں موجود چھوٹی جماعتوں کے حصہ میں اگرچہ وزراتوں اور دیگر عہدوں کا ایک محدود تناسب آتا ہے؛ تاہم وہ سیاسی سودے بازی کے حوالے سے ایک اہم حیثیت اختیار حاصل کر لیتی ہیں۔ حکومت پر دبائو ڈالنے کے مواقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ انہیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے بغیر حکومتی اتحاد بکھر سکتا ہے کیونکہ ایسے نظام میں کسی کے بھی پاس سادہ یا مطلق اکثریت تو ہوتی نہیں۔
ہمارے ملک میں بھی مخلوط حکومتوں کے تجربات کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات مرکز اور صوبے‘ دونوں سطح پر کیے گئے۔ 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو نے ایک مخلوط حکومت کی سربراہی کی۔ ان کا دور عدم استحکام کا شکار رہا۔ ان کے سیاسی مخالفین ان کی عددی حیثیت کو نشانہ بناتے رہے۔ معاملہ عدم اعتماد تک بھی گیا۔ اس دوران ان کے اتحادی غیر معمولی اہمیت حاصل کر گئے اور پھر سیاسی سودے بازی اور اقتدار کی بساط کو پلٹ دینے کی جنگ میں بڑی جماعتیں چھوٹے گروپس کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی نظر آئیں۔ اس وقت سیاسی اخلاقیات اور نظریات بڑی آسانی سے پاور پالیٹکس کے اصولوں کے ہاتھوں شکست کھاتے دیکھے گئے۔
ملکی سیاست میں پی ایم ایل (این) پچھلی تین دہائیوں میں ایک ایسی خوش قسمت جماعت ثابت ہوئی ہے‘ جسے جب اقتدار ملا تو اس کی اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر ملا۔ اگرچہ 2008 سے 2013 کے دوران صوبہ پنجاب میں اسے ایک مخلوط حکومت بنانا پڑی؛ تاہم اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آدھے سے زائد اراکین کا ہم خیال گروپ اس کی مدد کو آیا اور پورے پانچ سال ساتھ رہا۔
مخلوط حکومتوں کے حوالے سے پاکستان کی سیاست میں ایم کیو ایم کا کردار بہت دلچسپ رہا ہے۔ اس جماعت کے پاس کبھی بھی خالصتاً اپنی حکومت نہیں رہی؛ البتہ جمہوریت اور آمریت‘ دونوں طرح کے ادوار میں اس جماعت نے بطور اتحادی ایک فول پروف انداز میں اپنی سیاسی اہمیت تسلیم کروائی اور سیاسی قیمت وصول کی۔ بطور اتحادی ایم کیو ایم ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے ساتھ کام کر چکی ہے‘ جن میں سے کچھ کو ان کا غیر فطری اور کچھ کو فطری اتحادی کہا جاتا ہے لیکن یہ کریڈٹ ایم کیو ایم کو دینا پڑتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی نظریے اور پاور پالیٹکس کو ایک ساتھ لے کر چلنے کا فن جانتی ہے۔ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی بنیاد پر بننے والی یہ جماعت بغیر حکومتی کارکردگی کی ذمہ داری اٹھائے انگریزی محاورے کے مطابق ابھی تک کیک کھا بھی رہی ہے اور کیک کا کچھ حصہ گھر بھی لے جا رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن بھی انتہائی ہنر مند اور با صلاحیت اتحادی ثابت ہوئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت بن رہی تھی تو مولانا کے بیانات سامنے آئے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں‘ لیکن بعد ازاںچشم فلک نے یہ نظارے دیکھے کہ بے نظیر کی وفاقی کابینہ میں انہیں حصہ ملا۔
مولانا صاحب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مستقل مزاج اتحادی واقع ہوئے ہیں حالانکہ 2007 کی آل پارٹیز کانفرنس منعقدہ لندن میں جب فضل الرحمن صاحب تقریر کر رہے تھے تو نواز شریف اپنے دائیں بیٹھے برادر اصغر سے سرگوشیوں میں مولانا کی تجاویز پر تحفظات کا اظہار کر رہے تھے۔
پرویز مشرف کے دور میں مولانا صاحب وکٹ کے دونوں اطراف کھیل رہے تھے۔ ایم ایم اے کے پاس دو صوبائی حکومتیں تھیں‘ اور مرکز میں وہ مولانا کی سربراہی میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک فرینڈلی اپوزیشن تھی۔
قاف لیگ کی بطور اتحادی تاریخ بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ پرویز مشرف کو اقتدار میں رہنے کے لیے بھرپور تعاون دیا اور اس کے بدلے میں اقتدار کے مزے لوٹے۔ بعد ازاں زرداری صاحب کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شریک ہوئے اور عمران خان کی حکومت بنی تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد حکومتی بندوبست میں مرکز اور پنجاب میں لمحہ موجود تک شریک سفر ہیں۔
موجودہ سیاسی بحران میں قاف لیگ اور ایم کیو ایم بڑی اہم حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ سندھ ہائوس سے نشر ہونے والے انٹرویوز‘ جن میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین نظر آ رہے ہیں‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ عددی قوت قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے بغیر پوری کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔
ایک زمانے میں ہمارے شہروں میں دیواروں پر اشتہارات کی بھر مار ہوا کرتی تھی۔ کچھ اتائی لوگ اپنی قوت بخش ادویات کی مشہوری کے لیے ایک تحریر دیواروں پر لکھواتے تھے کہ ''مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘‘۔ اگرچہ اب نئے قوانین کی موجودگی کے باعث بہت ساری دیواروں سے ایسی تحریریں اور اشتہارات ہٹا دیئے گئے ہیں‘ لیکن قاف لیگ کے اکابرین کے موجودہ رویے سے وہ اشتہار اور تحریر اس طرح زندہ ہو گئی ہے کہ ''اقتدار کا شوق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘‘۔
اللہ تعالیٰ بڑے چوہدری صاحب کو شفائے کاملہ عطا فرمائے تاہم اس حالت میں ان کا اسلام آباد کا سفر اور پھر اپوزیشن رہنمائوں کے گھروں میں تشریف لے جانا‘ اس محاورے کی توثیق نہیں تو اور کیا ہے۔ شاید اسی لیے سیاست دانوں کے شوق اقتدار کو دیکھ کر کہا گیا ہو گا کہ
کروںگا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ہمارے عوام پچھلے چند دنوں سے جس اعصاب شکن سیاسی ماحول میں رہ رہے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی اجتماعی اخلاقیات کو روزانہ کی بنیاد پر پستی کی نئی حدوں کو چھوتے دیکھ رہے ہیں۔ باہمی چپقلس اور عدم رواداری ہماری سیاست کی پہچان بن چکی ہے۔ اس سارے ماحول میں رائے دہندگان کے لیے سبق بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ آئندہ جب موقع ملے تو کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت سے جتوائیں یعنی ووٹ کا استعمال کرتے وقت یہ پہلو مد نظر رکھیں کہ اگر مخلوط حکومت بنی تو ہمیشہ کی طرح اتحادیوں کی چاندی ہوتی رہے گی۔
یقینا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کے لیے جو چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی مہذب معاشروں کے طرح سیاست مکمل نہیں تو بڑی حد تک ایک اجتماعی اخلاقی فریم ورک کے اندر رہ کر آگے بڑھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں