ـتحریک انصاف کا اندرونی بحران

آزادی سے قبل پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے قیام سے لے کر ری پبلکن پارٹی اور کنونشن لیگ کی تشکیل‘ اور پھر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد نئی مسلم لیگ کی پیدائش تک ہماری سیاسی روایت کنٹرولڈ رہی۔ جو سیاسی جماعتیں سیاسی عمل اور عوامی حمایت کے بطن سے پیدا ہونی چاہیے تھیں وہ بند کمروں اور اقتدار کی غلام گردشوں میں جنم لیتی رہیں۔ یہ ہماری تاریخ کا وہ کڑوا سچ ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
البتہ 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور پھر نوے کی دہائی میں بننے والی عمران خان کی تحریک انصاف دو ایسی سیاسی تنظیمیں سمجھتی جاتی ہیں جو باقاعدہ ایک سیاسی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئیں۔ دونوں جماعتوں میں جہاں یہ مماثلت موجود ہے کہ وہ گراس روٹ لیول سے ابھریں وہیں دونوں کے درمیان ایک واضح تضاد بھی ہے اور وہ تنظیمی ڈھانچے کا ہے۔ پیپلز پارٹی کی ملک گیر تنظیم یقینا بھٹو کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس جماعت کے نظریاتی وابستگی سے سرشار ورکرز‘ جنہیں جیالے کہا جاتا ہے‘ کی پارٹی کے ڈھانچے میں ہر سطح پر موجودگی کی وجہ سے بھی مضبوط رہی۔
جنرل ضیاء کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے کارکنان پر کیے گئے مظالم کے باوجود یہ تنظیمی ڈھانچہ ختم نہ ہوا بلکہ 1988ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو حکومت مل گئی۔ اس جماعت کا ورکر اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ صرف اسی صورت سکڑا جب اس جماعت نے اپنی نظریاتی سیاست سے انحراف شروع کیا۔ اقتدار میں آنے کے لیے ڈیلز کی گئیں تو قیادت اور کارکنان کا رابطہ کمزور ہوتا چلا گیا اور آج شاید جیالوں کی پہلی نسل کے چند لوگ ہی رہ گئے ہوں گے‘ بصورت دیگر نئی ممبر سازی کا تصور اس جماعت میں alien سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اندر مضبوط تنظیمی ڈھانچے اور ڈسپلن نظر آتے ہیں‘ جس کی اصل وجہ کوئی سیاسی نظریہ یا سماجی اور اقتصادی ترقی کا وژن نہیں بلکہ ان جماعتوں کے ورکرز کی اپنی جماعتوں کے ساتھ عقیدت ہے۔ یہ ورکرز اپنے قائدین کی بات ماننا اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں؛ تاہم باوجود مضبوط تنظیمی صلاحیتوں کے یہ جماعتیں عوامی مقبولیت میں بہت پیچھے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بعد اگر کسی جماعت کے کارکنوں کے بارے میں یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ نظریاتی طور پر اپنی جماعت سے وابستہ ہیں تو وہ 2011 کے بعد پی ٹی آئی کے ورکز ہیں۔ پھر اس جماعت نے اپنے اندر انتخابات بھی کروا ڈالے‘ جس سے یہ تاثر اور بھی گہرا ہوتا چلا گیا کہ اس جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ موثر انداز میں تشکیل پا جائے گا؛ البتہ حالیہ چند ماہ میں پی ٹی آئی کے اندر دھڑے بندی بڑھ چکی ہے۔ اس میں تنظیمی خامیاں صاف نظر آ رہی ہیں۔ ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کھلم کھلا صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین پارٹی لائن سے مختلف سمت میں جاتے نظر آئے ہیں۔
ملک میں جاری موجودہ سیاسی بحران میں یہ جماعتی بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کا تکیہ حکمران جماعت کے ناراض یا منحرف اراکین پر ہے۔ ایسی صورت حال میں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ملک میں سیاسی جماعتوں کے اندر ڈسپلن کے عمومی مسائل کا احاطہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ ہماری دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں‘ باوجود اندرونی اختلافات کے جو وقت کے ساتھ ساتھ ابھرتے رہے اور بعض شکلوں میں نون لیگ میں آج بھی ہیں‘ تنظیمی ڈسپلن پی ٹی آئی کے مقابلے میں بہتر ہے۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں جماعتی درجہ بندی، پارٹی انتخابات اور تنظیمی امور بہتر انداز میں چلائے جاتے ہیں؟ حیران کن طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تو پھر ان جماعتوں پر ان کی قیادت کی گرفت مضبوط کیوں ہے؟ ان کے درجنوں اراکین منحرف کیوں نہیں ہوتے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ جو پچھلے چند سالوں سے اپوزیشن میں ہے‘ کا سیاسی قلعہ یعنی وسطی پنجاب اب بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے اراکین‘ چاہے وہ صوبائی اسمبلی کے ہیں یا قومی اسمبلی کے‘ کی غالب تعداد اپنی قیادت کے ساتھ کھڑی ہے۔ تقریباً یہی صورت پیپلز پارٹی کے اندر بھی ہے‘ لیکن پی ٹی آئی اقتدار میں ہونے کے باوجود جماعت کے اندرونی بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں‘ جو متعدد بار اقتدار میں رہیں‘ نے اپنی constituencies میں ایک بنیفشریز کی کلاس پیدا کی ہے۔ سرکاری ملازمتیں اور ٹھیکے دیئے ہیں، من پسند تعیناتیاں کرائی ہیں اور اس کے علاوہ با اثر سیاسی خاندانوں کو اپنا ہمنوا بنایا ہے۔ اس سب کو Politics of Patronage کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کے اندر موجود اراکین بھی زیادہ تر وہی Beneficiaries ہیں‘ جو قیادت کے زیر بار ہیں‘ جن کے وسط مدتی اور طویل مدتی مفادات اپنی جماعتی قیادتوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باعث ان دونوں بڑی جماعتوں کی قیادتیں اپنے کاروبار اور سرمایہ کے حجم کے اعتبار سے بھی اپنی جماعتوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ ایسی صورت میں ان جماعتوں کے اندر اراکین، کارکنان اور ہمدرد اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قیادت کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی ان کے مفاد میں ہے۔ ہاں البتہ اگر پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں عمران خان صاحب جس نئی سیاست کو متعارف کرانے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئے تھے‘ اسے ایک چوتھائی بھی حاصل کر لیتے تو پھر ان جماعتوں کی مقبولیت اور ان کی clientist سیاست زوال کا شکار ہو سکتی تھی‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جہاں تک تحریک انصاف کے اندر جماعتی نظم کے فقدان کا تعلق ہے‘ اس کی بڑی وجہ حکومت میں آنے کے بعد اس کی تنظیمی خامیوں کو درست نہ کرنا تھا‘ اور اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے اقتدار میں آنے تک اپنی جماعت کے جن صاحب ثروت افراد سے جماعت کے لیے مالی معاونت لی‘ انہیں حکومت میں آنے کے بعد ایک موثر اور اچھی حکمرانی کے ذریعے کنٹرول کرنے کے بجائے یا تو سائیڈ لائن کر دیا یا ان کے خلاف احتساب کی کارروائی شروع کر دی۔ یہ با اثر گروپس اور شخصیات جو کہ سیاسی اعتبار سے بھی طاقتور ہیں‘ انہیں خان صاحب سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہوتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے جماعت میں اپنے اپنے دھڑے بنا لیے۔ ان گروپس کو جماعتی نظم کا پابند بنایا جا سکتا تھا‘ اور چونکہ دوسری دو بڑی جماعتوں کے برعکس تحریک انصاف کی قیادت مڈل کلاس سے تھی، فنی اعتبار سے؛ اگرچہ خان صاحب ایک بہت بڑے گھر میں رہتے ہیں‘ اس کے باوجود پارٹی پر موثر کنٹرول تب ممکن ہوتا اگر اعلیٰ سیاسی تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جاتیں۔ بیوروکریسی کے ساتھ فنکشنل تعلقات ہوتے۔ پارلیمنٹ فعال رکھی جاتی اور اپوزیشن کو اہم ملکی مسائل پر اپروچ کیا جاتا اور عوام کی روزمرہ زندگی کے لیے ضروری اشیا کی فراہمی اور قیمت پر کڑی نظر اور موثر کنٹرول رکھا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں