خارجہ پالیسی کی تشکیل بھی قومی پالیسی کی طرح ملک کے اندر ہی ہوتی ہے۔ ایک کامیاب اور موثر خارجہ پالیسی کیلئے ملک میں دو لوازمات کا پایا جانا ضروری ہے۔ اول‘ ایک مربوط اور مستحکم سیاسی نظام جس میں پالیسی ساز اور پالیسی پر عملدرآمد کروانے والے اداروں میں یکسوئی اور عملی روابط موجود ہوں۔ دوم‘ ایک مضبوط معیشت۔ اس اعتبار سے خارجہ پالیسی دراصل قومی پالیسی کا خارجی پہلو اور ملک کی مجموعی اندرونی کیفیت کی توسیع ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی تاریخی اعتبار سے مغرب کی طرف جھکی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس پسندیدگی اور جھکاؤ کی دو بنیادی وجوہ ہیں، سکیورٹی اور معیشت۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کی خارجہ پالیسی میں بیرونی امداد پر انحصار، بھارت کے خارجہ امور پر رد عمل اور مسلم دنیا کے مسائل کے حل میں دلچسپی چند مسلسل رویوں کے طور پر نمایاں نظر آتے ہیں؛ تاہم پچھلی ایک دہائی میں مغرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہماری خارجی ترجیحات تبدیل ہوئی ہیں‘ جس کی اصل وجہ امریکہ کا بھارت کی طرف جھکاؤ اور اسے انڈوپیسفک علاقے میں ایک سٹریٹیجک پارٹنر کے طور منتخب کرنا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم نہ کرنا، بین الاقوامی معاشی اداروں کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھانا اور چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات پچھلی ایک دہائی سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ ویسے تو تاریخی اعتبار سے دونوں ممالک کے تعلقات ایک ہی وقت میں قربت اور پھر دوری کی حدوں کو چھوتے ہوئے نظر آئے۔ دراصل یہ باہمی تعلق اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فریقین کبھی بھی ایک دوسرے کے دوست نہیں رہے بلکہ حلیف یا پارٹنرز بنے۔ اس طرح ضرورتوں، مصلحتوں اور جزوقتی شراکت داری نے اس تعلق کو نبھایا اور جیسے ہی ضرورتیں پوری ہو جاتیں یہ دونوں دوری اختیار کر لیتے۔
پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ سرد مہری 2011ء کے اوائل میں اس وقت شروع ہوئی جب ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا۔ اس کے بعد ایبٹ آباد اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے واقعات نے اس تعلق کو کاری ضرب لگائی جواب تک دونوں کو قریب آنے سے روک رہی ہے۔ موجودہ امریکی انتظامیہ‘ جو تقریباً ایک سال پہلے منتخب ہوئی، اس بارے میں واضح نہیں کہ وہ پاکستان کو انڈوپیسفک فریم ورک میں کہاں رکھے۔ صدر جو ہائیڈن نے اب تک برخلاف روایت وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کال بھی نہیں کی۔
پاکستان میں نئے امریکی سفیر کی تعیناتی کا عمل ابھی نامکمل ہے اور اس سے قبل امریکہ کی پاکستان کے لیے نئی پالیسی کی سمت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ دوسری طرف پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے کیونکہ دنیا کا فنانشل سسٹم امریکی کنٹرول میں ہے۔ ہماری قرضوں پر کھڑی معیشت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ امریکہ کو ناراض کیا جائے؛ تاہم ماضی کی طرح امریکہ سے Patron-Clientتعلق ہمارے پالیسی سازوں کے مطابق ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔
دوسری طرف چین کے ساتھ وسعت اختیار کرتے ہوئے تعلقات میں، پاک امریکہ تعلقات کو کس طرح جاری رکھا جائے، یہ ہمارا اصل چیلنج نظر آتا ہے۔ ورچوئل جمہوری سمٹ میں شرکت نہ کرنا اور ونٹر اولمپکس میں ہماری شرکت جس میں امریکہ اور اہم مغربی ممالک شریک نہیں ہو رہے، دونوں ہماری خارجہ پالیسی کی نئی سمت کا پتہ دیتی ہں۔ اگرچہ ہمارا سرکاری موقف Politics Block سے دور رہنا ہے لیکن عملی طور ہم چین کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کی سمت جوڑ چکے ہیں۔
مستقبل میں امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور داخلی استحکام، امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشتگردی کیلئے درکار ہیں؛ تاہم اس تعلق میں دو طرفیت اور طویل المیعاد قربت کیلئے ہمیں ایک مضبوط معیشت اور سیاسی طور پر قابلِ حکمرانی پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ مضبوط پاکستان سے امریکہ تعاون کا خواہاں ہوگا اور کمزور پاکستان امریکہ کے تعاون کامنتظر نظر آئے گا۔
جہاں تک چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کا ذکر ہے اگرچہ تاریخی حوالے سے یہ تمام موسموں کا تعلق ہے لیکن موجودہ صورتحال میں دوطرفہ تعلقات میں کئی نئی جہتیں پیدا ہو چکی ہیں جنہیں ہمیں بہت عمدہ سفارت کاری ، بروقت فیصلہ سازی اور اپنے قومی اداروں کی کارکردگی کو موثر بنا کر مزید وسعت اور استحکام دینا ہے۔ سی پیک اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات کا امتحان معلوم ہوتا ہے۔ یہ منصوبہ پہلے فیز کو عبور کرکے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جہاں چین پاکستان کو ٹیکنالوجی ، صنعتوں کی منتقلی اور اکنامک زونز کی تشکیل کے حوالے سے نئے اہداف دینے کو ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اپنے دورِ حکومت کے چوتھے دورہ چین پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس دورے کے بڑے مقاصد میں سی پیک منصوبوں کے علاوہ چین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی آڑ میں مغرب اور امریکہ ونٹر اولمپکس کا بائیکاٹ کر چکے ہیں اور سے قبل ورچوئل جمہوری سمٹ میں بھی چین کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں وزیر اعظم کا دورہ چین کے ساتھ یکجہتی کا مظہر ہے۔ اس لحاظ سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔
افغانستان پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہم مسئلہ اور چیلنج ہے۔ اگرچہ طالبان برسر اقتدار آ چکے ہیں؛ تاہم ہماری مغربی سرحد پر سکیورٹی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بارڈر فینسنگ پر حملے، کالعدم ٹی ٹی پی کا پھر سطح پر نمودار ہونا اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات، طالبان حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات کو آزما رہے ہیں۔
حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو ہماری افغان پالیسی پچھلے چالیس برسوں میں مکمل ناکام اور counter-productive رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان اس افغان پالیسی کو Reset کرے۔ اب تک حکومتی بیانات اور پالیسی کی تشکیل میں شریک سٹیک ہولڈرز جن پالیسی ترجیحات کا اظہار کر چکے ہیں ان پر خلوص نیت اور ایک مضبوط سیاسی ادارے کے ساتھ عمل ہونا چاہیے۔ افغانستان میں ہمارے فیورٹ پالیسی آپشنز صرف قیام امن میں شراکت داری اور ایسٹ ویسٹ کوریڈور کی تشکیل ہونی چاہیے۔
بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات جمود کا شکار ہیں۔ پلوامہ واقعہ کے بعد ان تعلقات میں کوئی معنی خیز پیشرفت نہیں ہوسکی۔ ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کو آرٹیکل 370 اور 35A کی بحالی سے مشروط کر چکے ہیں۔ ملک کی اندرونی سلامتی کے مسائل، معاشی چیلنج اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم مشرق سرحد کو پُرامن رکھیں۔ ویسے بھی جارحیت بھارت کے فائدہ میں ہے کیونکہ اس طرح وہ بین الاقومی توجہ پاک بھارت بارڈر پر مرکوز کرانے میں کامیاب ہو گا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی سے دنیا کی توجہ ہٹ جائے گی۔
لیکن بھارت کو ہمارے خلاف جارحیت سے روکنا اور کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنا‘ ہمارا اصل چیلنج ہے۔ اس کیلئے ہمیں ایک مؤثر سفارتکاری کے ذریعے دنیا کو اس بات کیلئے قائل کرنا ہو گا کہ وہ کشمیر کو Humanitarian prism سے دیکھے اور یہ بھی ممکن بنانا ہوگا کہ بین الاقوامی برادری اور اہم مسلم ممالک پاکستان سے تعاون کے لیے تیار نظر آئیں۔ دوسرا یہ کہ کشمیر کو مقامی تحریک کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب معاشی اور سیاسی اعتبار سے ایک مضبوط پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے مذکورہ بالا اہداف حاصل کرتا نظر آئے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ Foreign Policy begins at Home۔