7 اگست 1952ء کو بھارت کے وزیراعظم جواہرلال نہرو نے کشمیریوں کے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا، جو تاریخ میں درج ہوگیا اور یوں نہرو وہ واحد بھارتی حکمران بن گیا جس نے انتہائی واضح انداز میں اس مسئلہ پر ریاستی پوزیشن بیان کی۔
''ہم آپ کو اپنی طاقت کے زور پر، آپ کی منشا کے خلاف اپنے ساتھ نہیں رکھیں گے‘‘ (We want no forced marriages, no forced unions) لیکن پچھلی تین دہائیوں میں کسی بھی بھارتی لیڈر نے اس وعدے کا پاس نہیں رکھا اور تحریک آزادیٔ کشمیر ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کی قربانی سے مزین نظر آتی ہے۔ ریاستی دہشت گردی کی اس سے بدتر مثال جدید انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
قائد اعظم نے فرمایا تھا ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ جس کے بعد ہماری خارجہ پالیسی کی تشکیل میں کشمیر کو ایک ستون کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آزادی سے اب تک اس مسئلے پر ہمارا بیرونی طرزِ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ بانیٔ پاکستان کی کشمیر کو دی گئی اہمیت ہمارے لیے کیا حیثیت رکھتی ہے۔ ملک میں قائم رہنے والی جمہوری اور آمرانہ حکومتوں نے اس ایشو کر برابر اہم سمجھا۔ اندرونِ ملک ہماری سیاسیہ کے درمیان کشمیر کاز پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان کے سیاسی اُفق پر نمودار ہونے کے پیچھے کارفرما عوامل میں ان کی مسئلہ کشمیر پر ایک واضح پوزیشن، شاندار تقاریر اور تحریریں بھی شامل تھیں۔
تاہم پچھلی تین سے چار دہائیوں سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف ایک غیرجذباتی تجزیہ کا متقاضی ہے کیونکہ اس دوران ہمارا کشمیر پر مقدمہ 'باوجود وادیٔ کشمیر میں بدترین بھارتی ریاستی دہشت گردی کے‘ اقوامِ عالم کی نظر میں کمزور ہوا ہے۔
امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد (مرحوم) نے 1990ء میں اس دن یعنی 05 فروری کو یوم کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد آج تک یہ دن سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ آج تقریباً تیس برس بعد ہم یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ کیا اس دن کو ملکی و قومی سطح پر منانے سے ہم کشمیر کاز کو فائدہ پہنچا سکے ہیں؟ کیا کشمیر پر ہمارا اصولی موقف دنیا نے تسلیم کر لیا ہے؟ کیا بین الاقوامی برادری بھارت کی اس طرح سے سرزنش کر پائی ہے، جیسے اخلاقی، اصولی اور قانونی طور پر اسے کرنی چاہیے؟ حتیٰ کہ برادر مسلم ممالک اپنے دائرہ اثر میں رہ کر بھارت پر اس مسئلہ کے حل کے لیے دباؤ ڈالتے نظر نہیں آتے۔
1990ء کی دہائی میں پاکستان میں قائم ہونے والے مختلف حکومتوں نے کشمیر کمیٹی کو بہت اہمیت دی۔ نوابزادہ نصراللہ خاں (مرحوم) ایک عرصہ تک اس کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ اس کمیٹی نے ان کی قیادت میں اہم یورپی ممالک کے دورے بھی کیے اور دنیا کو اس مسئلہ پر پاکستان کے اصولی موقف سے آگاہ کرنے کی کوششیں کیں؛ تاہم اگر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی مناسب سمجھے تو اُس دہائی سے لے کر آج تک اس کمیٹی کے ارکان کے دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کا جائزہ لے اور پھر بالخصوص مولانا فضل الرحمن صاحب کی چیئرمین شپ کے دور کا آڈٹ کرے تو اندازہ کرنا آسان ہوگا کہ کس طرح قومی خزانے کا خطیر حصہ اس کمیٹی کے اراکین کی مراعات کی نذر ہوتا رہا۔
سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد بھارت کے اقتصادی ارسطو من موہن سنگھ نے اپنے ملک کو دنیا کے کارپوریٹ نقشہ پر متعارف کرانے کا ویژن پیش کیا۔ دیگر ریاستی اداروں کے تعاون اور بھرپور سیاسی عزم کے تحت بھارت نے ان سالوں میں اپنی معاشی سوچ کو دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل کیا۔ بھرپور ملکی وسائل انسانی ترقی پر صرف کرنا شروع کیے۔ کیونکہ ہُنرمند آبادی ہی مستقبل تھا۔ اس پولیٹیکل اکانومی ویژن کی بدولت بھارتی معیشت چین کی نقل کرتے ہوئے تیزی سے ترقی کرنے لگی جبکہ ہم اس دہائی میں دنیا کی اُن اقوام میں شمار ہونے لگے جن پر سب سے زیادہ پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ ہماری معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی جبکہ ملکی سیاست میں انتقام اور سیاسی رنجشیں اپنے عروج پر تھیں۔
اب تک مسئلہ کشمیر پر بھارت بھرپور پروپیگنڈا کے ذریعے دنیا کی توجہ وادی میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہٹانے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ محض پروپیگنڈا یا اعصابی جنگ کے ذریعے ہی ممکن نہیں ہوا بلکہ بھارت نے اپنے قومی سیاسی تجربے کو بھی بہت مثبت انداز میں دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ اگرچہ بھارتی جمہوریت کسی بھی طرح مثالی نہیں لیکن اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں قومی سیاسی تجربات سے بھرپور ایک تاریخ ہے جس پر کسی صورت فخر نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر اگر جمہوری عمل تسلسل سے چل بھی پڑا ہے تو طرزِ حکمرانی، گڈ گورننس کے مسائل اور سیاسی عدم استحکام بڑے چیلنجز ہیں۔
سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم نے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے دنیا کو ہنرمند افرادی قوت مہیا کی ہے جو عالمی معیشت کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ سشما سوراج نے طنزاً کہا تھا کہ ہمارا ہمسایہ شدت پسند پیدا کر رہا ہے۔
کشمیر پر بھارت کے پروپیگنڈا کا اہم عنصر یہ رہا ہے کہ یہ تحریک کشمیری سرزمین سے نہیں پھوٹی بلکہ سرحد پار حمایت سے؛ اگرچہ مودی حکومت کے اقدامات اور اس کے انتہا پسندانہ فلسفے نے اس بھارتی موقف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے؛ تاہم پچھلی تین دہائیوں میں دنیا سے اس تحریک کی جائزیت اور مقامی حیثیت کو منوانے میں پاکستان کو مشکلات درپیش رہیں۔ اس کی بڑی وجوہات میں کمزور ملکی معیشت‘ فرقہ وارانہ شدت پسندی‘ جہادی کلچر اور غیرریاستی عناصر کے سامنے ریاستی رٹ کا کمزور ہونا تھا۔
دنیا کے طاقتور ممالک جو بھارت کو پاکستان کے ساتھ اس تنازع کے حل میں مجبور کر سکتے ہیں وہ سب اپنے کاروباری مفادات کے باعث بھارت کی طرف کھڑے نظر آتے ہیں کیونکہ بھارت تقریباً 500 ملین آبادی کی مڈل کلاس اکانومی ہے۔ ہمار ا انحصار غیرملکی قرضوں اور امداد پر ہے۔ اقلیتوں کے حقوق، مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار ہمارے ہاں وہ اندرونی محرکات ہیں جو کمزور نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ہم جتنے مرضی یوم کشمیر مناتے رہیں، تقریبات، سیمینارز منعقدکریں، وہ سب ایک حد تک مؤثر ہو سکیں گے۔ اگر صحیح معنوں میں ہم نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے تو ہمیں سمجھنا ہو گا کہ پاکستان نے اب تک کشمیریوں سے کئے گئے سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت کے وعدے کو پورا کر دیا ہے۔ اب دراصل ریاست پاکستان کی اُس وعدے کو پورا کرنے کی باری ہے جو اس نے پاکستانیوں سے کیا ہوا ہے، یعنی ایک مضبوط معیشت، اندرونی و بیرونی قومی سلامتی کا تحفظ، ہنر مند آبادی جو جدید معیشت کا حصہ بن سکے۔
کیونکہ یہی وہ ایجنڈا ہے جو دراصل ہمیں اس قابل بنائے گا کہ ہم کشمیر کے تنازع کا حل دنیا سے لے سکیں‘ اور ہمارا موقف دنیا تسلیم کر سکے یعنی کشمیر کے حل کی طرف جانے والا راستہ ایک مضبوط ملکی معیشت سے ہوتا ہوا اپنی منزل تک پہنچے گا۔ ''تاریخ میں موجود بد ترین تنازعات بھی بالآخر حل ہوئے، کشمیر کے تنازع کو بھی حل کی طرف جانا ہے ، لیکن یہ راستہ پر امن ہو گا یا نہیں۔ کچھ کہنا مشکل ہے‘‘۔