ٹوٹے دل مل جاتے ہیں

پوری قوم جب کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے 5 فروری کو یوم کشمیر منارہی تھی عین اسی وقت لاہور میں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی صف ِاول کی قیادت ایک ظہرانے سے لطف اندو ز ہور ہی تھی۔ یہ ظہرانہ جہاں سیاسی لحاظ سے اہم سمجھا گیا وہیں اس کی ایک اور انفرادیت بھی سامنے آئی یعنی مہمان کھانا گھر سے لے کر آیا ۔تو پھر یہ صرف ظہرانہ نہیں تھا یا پھر ایک انوکھا ظہرانہ تھا جس میں مہمان گھر سے نکلتے وقت اپنا کھانا بھی ساتھ ہی لے آئے۔
''ماضی کو بھلا کر قوم کے وسیع تر مفاد میں ہم ساتھ چلیں گے‘‘۔ یہ ایسا فقرہ ہے جسے پاکستانی سیاست کا Déjà vuکہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ اس اصول کی عملی شکل وطنِ عزیز میں کئی بار نظر آچکی ہے اور قوم آزادی کے قریب کی سیاسی تاریخ میں ''نویں خبرآئی اے‘ خضر ساڈا بھائی اے‘‘ سے لے کر شہباز شریف کے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو دیے گئے ظہرانے کے بعد 5 فروری کو میڈیا سے گفتگو میں اس کو نمایاں دیکھ سکتی ہے۔
تاریخی لحاظ سے 1970ء کے بعد پاکستان کی سیاست بھٹو اور بھٹو مخالف سوچ میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ملک میں 1988ء کے انتخابات کئی حوالوں سے ہمارے سیاسی کلچر پر اثر انداز ہوئے۔ ان انتخابات سے قبل جو مہم بالخصوص اس وقت اپوزیشن آئی جے آئی نے چلائی اُس کا لب و لہجہ اور نعرے ‘ جو کہ بتایا جاتا ہے جماعت اسلامی نے تیار کئے تھے‘ ہمارے ملک میں عدم برداشت اور سیاسی پولرائزیشن کو بڑھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ان انتخابات کے بعد جو حکومتی بندوبست سامنے آیا اس میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک بڑے صوبے اور مرکز میں دو مختلف جماعتوں کی حکومت تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں جماعتوں یعنی پی پی پی اور آئی جے آئی اور بعد میں پی ایم ایل این نے ایک دوسرے کی سیاسی سپیس ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ۔ ملکی و سائل صرف اسی کوشش پر صرف ہوتے گئے کہ ہم نے ایک دوسرے کو سیاسی اعتبار سے مکمل طور پر Eliminate کرنا ہے۔اس روش نے عدم برداشت اور انتقامی سیاست کو پروان چڑھایا۔اسی دہائی میں نواز شریف صاحب نے لاہور میں ایک انتخابی مہم میں یہاں تک کہہ دیا کہ میرا جی چاہتا ہے‘ پی پی پی کو بحیرہ عرب میں پھینک دوں۔ تاہم پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ہماری قومی سیاسی لیڈر شپ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھی۔ اسی دوران چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ لندن میں میثاقِ جمہوریت ہوا اور ماضی کے سیاسی حریف‘ ٹوٹے ہوئے دلوں کو ملاتے نظر آنے لگے۔ صرف یہیں تک نہیں بلکہ کچھ ہی سالوں میں یعنی 2008ء کے الیکشن کے بعد زرداری صاحب رائے ونڈ تشریف لے گئے ‘ پر تکلف کھانے کھائے گئے اور عہدکیا گیا کہ اب یہ دل صرف ہماری زندگیوں تک ملے نہیں رہیں گے بلکہ اگلی نسلیں بھی اس ملاپ کو برقرار رکھیں گی۔ اسے کہتے ہیں کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ ماضی کے حریف جو ایک دوسرے کو ملک دشمن اور سکیورٹی رسک کہہ چکے تھے وہ اب دل ملارہے تھے۔
2008ء کے انتخابات کے بعد دل کچھ عرصہ ملتے رہے تاہم شہباز شریف کی لاہور کی تقریر‘ بالخصوص وہ جملے جو صدر زرداری کے بارے میں کہے گئے اور مسلم لیگ (ن) کا وفاقی کابینہ سے علیحدگی کا فیصلہ ‘ دلوں کو دور کرنے میں کامیاب نظر آنے لگا۔ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ آتا ہے۔ اکتوبر 2011ء کے عمران خان کے لاہور کے جلسے ‘ جس میں برخلاف توقع بہت بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے‘ کے بعد عمران خان ملک کے سیاسی منظر نامہ پر ایک تیسری سیاسی قوت کے طور پر نمودار ہوئے۔ اُن کا پاپولسٹ ایجنڈا بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ جس الیکٹرک انداز میں انہوں نے 2013ء کی انتخابی مہم چلائی ان سب باتوں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ پیدا کر دیا۔
عمران خان کے دھرنے کے دوران ہم نے دیکھا کہ جو ملکی سیاست بھٹو حمایت اور بھٹو مخالفت میں تقسیم تھی وہ اب تبدیل ہو رہی تھی اور بظاہر سٹیٹس کو اور اینٹی سٹیٹس کو میں تقسیم تھی۔پانامہ لیکس پر پیپلز پارٹی نے نواز شریف سے اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں شفا فیت کا مطالبہ بھی کیا اور اس دوران آزاد کشمیر کے انتخابات میں بلاول بھٹو کی للکار ‘اس وقت کی مرکزی حکومت کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتی رہیں۔2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان کا مجوزہ ایجنڈا جو انہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے نشری تقریر میں پیش کیا اُس نے روایتی سیاسی حریفوں یعنی دو بڑی جماعتوں کی سیاست کو ایک سنجیدہ چیلنج سے دوچار کردیا۔
ملکی سیاست پر گہر ی اور بالغ نظر رکھنے والے حلقے اُس وقت یہ کہہ رہے تھے کہ اگر اس ایجنڈے کا 20فیصد بھی اگلے پانچ سال میں مکمل ہوگیا تو ماضی کی ان بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاست حقیقی خطرے سے دو چار ہو جائے گی۔ چونکہ وہ ایجنڈا Utopian ثابت ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ عاقبت نا اندیشانہ فیصلے جو موجودہ حکومت نے کئے‘ ان کے نتیجے میں پی ڈی ایم بن گئی۔ دل جو ٹوٹ چکے تھے‘ دوبارہ مل گئے اور چونکہ ٹارگٹ مشترکہ تھااس لیے دلوں کا ملاپ نظر آنے لگا۔ تمام سیاسی گفتگو ‘ تجربات ‘ میڈیا پر مرکوز ہو گیا۔
پی ڈی ایم کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب پیپلز پارٹی نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اب کچھ عرصہ دل پھر فاصلے پر دھڑکتے نظر آئے لیکن ایک اہم تعیناتی پر وزیر اعظم کا تامل دلوں کو پھر سے ملانے کا باعث بنا اور عدم اعتماد کی تحریک کی بازگشت سنائی دینے لگی ۔تو پھر اس ظہرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ صرف ایک کرٹسی کال (Courtesy Call ) تھی یا ایک اہم سیاسی بیٹھک؟ ان سوالوں کا جواب مل سکتا ہے اگر اس ظہرانے کی ٹائمنگ کو دیکھا جائے‘ یعنی وزیر اعظم کا دورۂ چین اور باخبر حلقوں کا یہ تاثر کہ '' سب ٹھیک ہے‘‘۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے یہ بیٹھک منعقد ہوئی۔ پھر آئندہ لانگ مارچز‘ جہاں پی پی پنجاب سے اپنے مارچ کی رونق بڑھانا چاہتی ہے۔ہماری سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ٹوٹے ہوئے دل ملتے رہے ہیں‘آئندہ بھی ملیں گے‘ لیکن ہمار المیہ یہ ہے کہ دل عوامی مفاد اور قومی مسائل کے حل کے لیے نہیں ملتے بلکہ جزوقتی سیاسی مصلحتوں اور ضرورتوں کے لیے ملتے ہیں۔
کتنا اچھا ہوتا کہ اس ظہرانے کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کم از کم اگلے پانچ سال کا اکنامک روڈ میپ پیش کیا جاتا۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی طرف سے ایک متبادل پروگرام پیش کیا جاتا۔ بتایا جاتا کہ کس طرح معیشت کو فکس کیا جائے گا‘ کس قسم کی ادارہ جاتی اصلاحات لائی جائیں گی‘ پاکستان کی اکثریتی آبادی جو نوجوان نسل پر مشتمل ہے اس کو ہنر مند اور با وسیلہ کیسے بنایا جائے گا۔ اگر ان اعلیٰ مقاصد کے لیے ملیں تو پھر 22 کروڑ عوام اس کے امین ہوں گے اور یہ دلوں کا ملاپ دیرپا ہوگا۔ ویسے ملکی سیاسی اشرافیہ کی خدمت میں عرض ہے :
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں