روس آپشن

دنیا کے سیاسی نقشے پر سرد جنگ کا آغاز اور پاکستان کا قیام دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی نمودار ہوئے۔ تاریخی حوالے سے روس پاکستان تعلقات وقفے وقفے سے سرد مہری کا شکار رہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں روس کی بھارت سے دوستی، پاکستان کا مغرب کی طرف جھکاؤ اور ہماری نظریاتی اور تزویراتی ترجیحات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدا میں ہماری حکمران اشرافیہ کی اس سوچ نے بھی ہمیں روس سے دور رکھا کہ علاقائی ماحول میں ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور معاشی مشکلات کو ڈیل کرنے کے لیے مغرب ہمارے لیے زیادہ موزوں آپشن ہو گا۔
1950ء کی دہائی میں ہماری مغربی دفاعی معاہدوں میں شرکت اور پھر U2 کا واقعہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا باعث بنا۔ ردعمل کے طور پر روس نے سلامتی کونسل میں کشمیر کے معاملے پر بھارت کے حق میں اپنا ویٹو استعمال کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت ہوئی لیکن افغانستان پر روسی حملے نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا کر دی کیونکہ پاکستان افغان جنگ میں روس مخالف کیمپ میں تھا اور ہماری نظر میں وہ افغان عناصر جو روس کے خلاف مزاحمتی جنگ لڑ رہے تھے انہیں سپورٹ کرنا ملکی مفاد میں تھا۔ جنیوا معاہدے کے بعد روسی فوجوں کا انخلا شروع ہوا اور افغان خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔
دوسری طرف سرد جنگ ختم ہونے کے آثار بھی نمایاں ہونا شروع ہوئے۔ سرد جنگ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا تھا لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کر لینا روس کو ہم سے دُور رکھنے کی وجہ بنا کیونکہ روس کا خیال تھا کہ طالبان کا نظریہ وسطی ایشیا میں پہنچ جائے گا اور یوں وہاں روس کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
نائن الیون کے بعد دنیا کئی حوالوں سے تبدیل ہوئی۔ واحد سپر پاور امریکہ نے ان واقعات کی ذمہ داری افغانستان میں موجود طالبان اور القاعدہ پر عائد کی اور یوں ایک طویل جنگ کا آغاز کردیا جس میں ہم اتحادی تھے۔ بظاہر یہ جنگ دہشتگردی کے خلاف تھی لیکن اس جنگ میں امریکہ کے کئی وسیع البنیاد تزویراتی مقاصد بھی شامل تھے جنہیں وہ افغانستان میں موجود رہ کر حاصل کرنا چاہتا تھا‘ لہٰذا نو گیارہ کے بعد مغربی افواج کی افغانستان میں موجودگی روس پاکستان تعلقات کے راستے میں حائل ہوئی۔
پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل کے عمل میں ایک سنجیدہ فکری عمل کا آغاز ہوتا نظر آیا۔ اس کے مطابق پاکستان نے مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں پیدا ہونے والے جمود کو دیکھتے ہوئے کچھ نئی ترجیحات پر غوروفکر شروع کیا۔ چند محرکات جن کے نتیجے میں یہ نئی سوچ پیدا ہوئی ان میں بھارت اور امریکہ کی سٹریٹیجک پارٹنرشپ، پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری، جو دراصل اکیسویں صدی میں 2011ء میں پے در پے ہونے والے واقعات کے نتیجے میں پیدا ہوئی‘ جن میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، ایبٹ آباد کا واقعہ اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ شامل تھے۔
اس تناظر میں جہاں ہماری خارجہ پالیسی کی دیگر سمتیں طے کی گئیں وہیں روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے پر کام شروع کیا گیا؛ چنانچہ ماسکو اسلام آباد تعلقات پچھلے کچھ سالوں میں بہتری کی طرف گئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف تعاون، دو طرفہ دورے، نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن میں روسی سرمایہ کاری، یہ وہ تمام پیش رفت تھی جس نے پاکستان کے لئے ماسکو کو مغرب کے مقابلے میں ایک Viable آپشن کے طور پر پیش کیا؛ تاہم اس دوران قابل ذکر بات یہ رہی کہ ہماری اندورنی سکیورٹی کی صورتحال کے باعث‘ باوجود تاریخوں کے تقریباً طے کئے جانے کے کوئی ہائی لیول شخصیت یعنی روسی صدر پاکستان نہیں آ سکے؛ البتہ روسی وزیر خارجہ اس عرصہ میں پاکستان تشریف لاتے رہے۔
خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال بالخصوص افغانستان‘ جو سیاسی استحکام کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کا متقاضی ہے‘ امریکہ اور چین کے مابین جاری سرد جنگ، ہماری انرجی کی ضروریات اور دنیا میں Economic Regionalismکا مقبول ہوتا ہوا تصور اس بات کا متقاضی ہے کہ پاک روس تعلقات کو وسعت دی جائے۔
وزیر اعظم کے حالیہ دورۂ چین کے بعد ملکی میڈیا میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ وہ رواں ماہ میں روس جا سکتے ہیں۔ یہ ایک اہم ڈویلپمنٹ ہے۔ اگر یہ دورہ ہو جاتا ہے تو دونوں ملک اپنے تعلقات میں بالخصوص معاشی تعاون کو وسعت دے سکیں گے؛ تاہم موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں اس دورے کا بڑا مقصد سکیورٹی تعاون نظر آتا ہے جسے ہمیں افغانستان کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔
اکیسویں صدی میں بین الریاستی تعلقات میں چند منفرد حقیقتیں سامنے آئی ہیں۔ ایک ہی وقت میں سٹریٹیجک معاملات پر عدم اتفاق اور اقتصادی تعاون، ایک ساتھ چلتے نظر آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت چین تعلقات اور امریکہ چین تعلقات۔ اسی طرح دوستوں اور دشمنوں کی واضح تقسیم بین الاقوامی تعلقات میں ماند پڑچکی ہے۔
اس ماحول میں نئی دہلی اور ماسکو کے تعلقات ہمارے روس کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہونے چاہئیں۔ ہر ملک اپنے کاروباری مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم روس کے تجارتی اور اقتصادی مفادات کو کس حد تک اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کے بعد روس اپنی صنعتی مصنوعات، تیل اور گیس جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی مارکیٹوں تک لے کر جانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی لوکیشن اور سی پیک کوریڈور اس کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف پچھلے کچھ برسوں سے ہماری خارجہ پالیسی کی نئی سمت‘ جو جیو سٹریٹیجی سے جیو اکانومی کی طرف جاتی ہوئی بتائی جا رہی ہے‘ کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہمیں روس کے ساتھ اپنے اقتصادی تعاون کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
مثالیت پسندی سے ہٹ کر اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو روس کے ساتھ تعلقات میں وسعت ملکی مفاد میں ہے؛ تاہم اس باہمی تعلق کے تمام ثمرات ہم اس صورت میں حاصل کر سکیں گے اگر ہم اندرونِ خانہ سیاسی طور پر مستحکم اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہوں۔ کیونکہ روس اپنی اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے اسی طرح کا پاکستان دیکھنا چاہے گا۔
مستقبل میں روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کی ممکنہ جہتیں کاؤنٹر ٹیررازم، انرجی، سکیورٹی، افغانستان میں استحکام اور دو طرفہ تجارت کا پھیلاؤ ہو سکتی ہیں۔ پاکستان اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات اور زرعی سازوسامان روس کو برآمد کر سکتا ہے۔ روس سے بڑھتا ہوا تعلق جنوبی ایشیا میں پاک بھارت کشیدگی کو بھی کم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ روس فی الوقت بھارت کے ساتھ دفاعی تجارت کر رہا ہے لیکن مستقبل میں بھارت اپنی انرجی کی ضروریات روس سے پورا کرے گا اور اس مقصد کے لیے روس کی مصنوعات اور انرجی بذریعہ پاکستان بھارتی مارکیٹ تک جائیں گی۔ بدلے میں ہم روس کو پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کے لیے قائل کر سکتے ہیں۔ یقیناً یہ بات ہماری اندرونی سلامتی اور معاشی عمل کی بہتری کا باعث بنے گی۔
بین الاقوامی تعلقات میں ریاستوں کے مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ ان مفادات کے حصول کے لیے وہ دوست اور دشمن تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ روس پاکستان تعلقات کے ماضی، حال اور مستقبل پر یہی اصول کارفرما ہوتا نظر آتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں