جمہوری نظام میں حکومتوں کی تبدیلی کا طریقہ کار آئین میں درج ہوتا ہے۔ اس نظام کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں ادارہ جاتی طریقِ کار کے مطابق ملک چلایا جاتا ہے۔ سیاسی بحران بالعموم دو وجوہ کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اول‘ عالمی ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں جن کے اثرات ملکی سیاسی نظام کے لیے نئے چیلنجز پیدا کرتے ہیں‘ اور اگر یہ نظام ان عالمی تبدیلیوں کو بہتر حکمت عملی اور فیصلہ سازی سے جذب نہ کر سکے تو پھر بحران مزید شدت اختیار کر جاتا ہے۔ دوسری صورت میں ملکی سیاست میں پیدا ہونے والی نئی حرکیات سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہیں۔ موجودہ سیاسی بحران جس کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے‘ اس وقت گہر ا ہوتا نظر آیا جب اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر اتفاق رائے کر لیا؛ اگرچہ اس تحریک کو پیش کرنے کی تاریخ اور یہ کہ متبادل وزیر اعظم کون ہو گا‘ ایسے معاملات ہیں جو ابھی اپوزیشن نے طے نہیں کئے۔ یہی وجہ ہے جس کے باعث عدم اعتماد کی تحریک کو رائے عامہ کے حلقے‘ قومی سطح کے صحافی حتیٰ کہ حکمران بھی سنجیدہ لیتے نظر نہیں آتے۔
تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو عدم اعتماد کی تحریک‘ جس نے صحیح معنوں میں ملک کو ایک سیاسی بحران سے دوچار کر دیا‘ 1989ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں لائی گئی تھی۔ اگر موجودہ صورت حال اور اس دور کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت نہ صرف ملکی اخبارات کی شہ سرخیاں اس تحریک کے بارے میں تھیں بلکہ بے نظیر صاحبہ کی حکومت کی رخصتی کو یقینی سمجھا جا رہا تھا کیونکہ اس وقت محترمہ کے مقابلے میں وہ تمام دیدہ اور نادیدہ قوتیں اکٹھی تھیں جو‘ ایک غالب رائے کے مطابق‘ ملک میں سیاسی تبدیلی لانے کی طاقت رکھتی ہیں۔ اس وقت قومی سطح پر ہونے والے تبصروں‘ تجزیوں اور قیاس آرائیوں میں وہ گرم جوشی نظر نہیں آتی۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ موجودہ حکومت کے سیاسی اور غیر سیاسی اتحادی ابھی پوری طرح سے اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں نہیں ڈال رہے۔
ایک اور وجہ جو ہمارے سیاسی منظر نامے کی رونق کو کم کر رہی ہے‘ اُن شعلہ بیاں تقریروں اور پریس کانفرنسوں کا نہ ہونا ہے جو اُس دور میں اسمبلی کے فلور اور اخبارات کی زینت بنتی تھیں۔ باہمی چپقلش اور ایک دوسرے پر الزامات تو اب بھی لگ رہے ہیں‘ لیکن طاقت کے ڈھانچے کی تشکیل اس وقت ایسی ہے کہ اس میں ابھی تک توازن حکومت کے حق میں ہے یعنی ادارے اور سیاسی اتحادی حکومت سے بہت فاصلے پر کھڑے نظر نہیں آ رہے؛ اگرچہ مخلوط نظام حکومت کی ہیئت کے عین مطابق اتحادی گاہے گاہے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ جہاں تک عدم اعتماد کی تحریک کی ٹائمنگ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کئی آرا موجود ہیں۔ کیا آئندہ ماہ لانگ مارچز کو کامیاب بنانے کے لیے یہ حکمت عملی بنائی گئی ہے؟ کیا یہ ایک پریشر ٹیکٹک ہے جس کے ذریعے بقیہ ڈیڑھ سال میں حکومت کو دباؤ میں رکھا جا سکے؟ کیا یہ نئے انتخابات کی تیاری ہے کیونکہ اپوزیشن کے کہنہ مشق رہنما جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا بگل بجانے والی قوتیں کافی پہلے سے سوچ بچار شروع کر دیتی ہیں اور یہ کہ اس تحریک کا خوف رہی سہی حکومتی رِٹ کو کمزور کر دے گا اور معاشی چیلنج مزید گہرا ہو جائے گا‘ جس کے بعد اگلے انتخابات میں اپوزیشن ایک متبادل چوائس کے طور پر زیادہ فعال ہو سکے گی۔ اس صورت حال میں عوامی سطح پر اور مقتدر قوتوں کی نظر میں اپوزیشن اپنے آپ کو alternative کے طور پر پیش کر سکے گی۔
سیاسیات کا طالب علم موجودہ سیاسی منظر نامے کا تجزیہ کئی حوالوں سے کر سکتا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کی سنجیدگی کو اُسے اس طرح سے دیکھنا چاہیے کہ کیا حکومتی اتحادی کابینہ سے باہر آ چکے ہیں؟ کیا اپوزیشن کے بیانیے میں اتنی طاقت ہے کہ پاکستان کے اہم شہروں اور شاہراہوں پر زندگی مفلوج ہو چکی ہے‘ اہم تجارتی مراکز ہڑتالوں کے باعث بند ہو رہے ہیں؟ ایسی کوئی صورت حال موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف اتحادیوں کو اپوزیشن کیا آفر دے رہی ہے‘ یہ ایک اہم پہلو ہے۔ وزارتوں کے ساڑھے تین سال انجوائے کرنے کے بعد اتحادی کیوں کابینہ سے نکلیں گے؟ اس وقت جبکہ انہیں حکومتی کارکردگی کے لیے جواب دہ بھی نہیں ہونا اور پھر آئندہ انتخابات بھی زیادہ دور نہیں‘ نئے انتخابات کے لیے اقتدار میں رہنا کتنا ضروری ہے یہ تمام حکومتی اتحادی بخوبی سمجھتے ہیں۔ بے نظیر صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی سنجیدگی کا ایک اور مظہر اُن کے مقابلے میں اپوزیشن کے ایک اہم امیدوار کا ہونا بھی تھا‘ یہاں ایسا کوئی معاملہ نظر نہیں آتا۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کا اندرونی سیاسی اختلاف ایک کھلی حقیقت ہے۔ آج بھی پاپولر ووٹ لندن میں موجود میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے اثر میں ہے‘ شہباز شریف بلا شبہ اپنے آپ کو ایک مضبوط منتظم کے طور پر منوا چکے ہیں؛ تاہم پاپولر ووٹ اُن کے زیر اثر نہیں؛ البتہ ان کی Negotiation skills کے سبھی معترف ہیں‘ لہٰذا (ن) لیگ کے اندرونی بیانیے اور سیاسی اثر و رسوخ کی بانٹ بھی اس تحریک کے مستقبل پر سوالات اُٹھائے دیتے ہیں۔
ملک کے اندر سیاسی سمجھ بوجھ‘ شعور اور رائے رکھنے والے طبقات کا خیال ہے کہ عدم اعتماد کی ٹائمنگ درست نہیں۔ اس کے نتیجے میں ہارس ٹریڈنگ کا بازار گرم ہو سکتا ہے۔ ملکی معیشت سوات‘ چھانگا مانگا اور مری کے ریسٹ ہاؤسز کی نئی سیاست اور سیاسی خرید و فروخت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جمہوری اور سیاسی عمل کا تسلسل وہ حقیقت ہے جسے پاکستان کے اندر تمام سٹیک ہولڈرز‘ سیاسی اور غیر سیاسی‘ تسلیم کرتے ہیں۔ اگرچہ عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ ہے مگر کیا اس کے بعد ملک کے جملہ مسائل حل ہونے کے قریب ہوں گے‘ اس کا واضح جواب کوئی بھی نہیں دے پا رہا۔ چلیں اگر اس تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد فوراً انتخابات کی طرف بھی جانا پڑا تو کیا ہماری سیاسی جماعتیں انتخابی قوانین‘ مردم شماری پر تحفظات جیسے مسائل حل کر چکی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
اس تمام صورتحال میں ملک کسی نئے سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اُس کم از کم اتفاق رائے کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جس کی بنا پر جمہوریتیں چلا کرتی ہیں۔ تالی دو ہاتھوں سے بجا کرتی ہے‘ پہل یقیناً حکومت کو کرنی چاہیے اور اپوزیشن کے ساتھ مطلوبہ کم سے کم اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ وزیر اعظم اپوزیشن کو جتنا بھی غیر اہم سمجھیں مگر یہی وہ سیاسی قیادت ہے جو مستقبل قریب میں ملکی سیاست میں Relevant ہو گی۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں جو دباؤ اپوزیشن اور ملکی معاشی مسائل کے باعث حکومت پر ہے اس سے نکلنے کا واحد طریقہ کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ جتنا بھی وقت حکومت کے پاس ہے اگر اس میں کچھ اہم سیاسی تقرریوں پر نظر ثانی کر لی گئی اور معیشت کو سنبھالنے کی سنجیدہ کوشش ہوئی تو حکومت بہ آسانی اس سیاسی دباؤ سے نکل آئے گی۔