سوشل میڈیا

پچھلی دو دہائیوں میں اس کرۂ ارض پر زندگی کے انداز حیران کن طور پر تبدیل ہوئے ہیں۔اس کا بڑا محرک انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے‘ جسے چوتھا صنعتی انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں اس ٹیکنالوجی نے تجارت ‘پیداواراور سیاست کے انداز تبدیل کردیے ہیں‘ وہیں معاشرتی زندگی کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ کئی معاشرے اس رفتار سے اپنے آپ کو تبدیل ہی نہیں کرپارہے جس تیزی کا یہ معلوماتی انقلاب تقاضا کرتا ہے۔
کسی زمانے میں یہ محاورہ بہت معانی رکھتا تھا کہ کسی انسان کو پہچاننے کا بہترین معیار یہ ہے کہ اُ س کے دوستوں کا پتہ لگایا جائے‘ یعنی یہ دیکھا جائے کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ میل ملاقات اور راہ و رسم رکھے ہوئے ہے ‘مگر جدید دور کے انسان کو آپ اس کسوٹی پر نہیں پرکھ پائیں گے۔ آج اس محاورے کو شکست ہو چکی ہے کیونکہ آج کے انسان کے دوست تو خو د اُسے بھی معلوم نہیں کہ کون ہیں۔ دورِ جدید کا انسان زیادہ وقت جس صحبت میں گزارتا ہے وہاں تو چہرے ضروری نہیں اصلی ہوں ‘ وہاں بننے والے تعلقات ایک بٹن کو دبا کر ختم یعنی Unfollow کئے جا سکتے ہیں۔
آج ہم میں سے بیشتر لوگ ایک ہی وقت میں دو مختلف قسم کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ایک زندگی حقیقی ہے جو خاندان‘ ورک پلیس ‘ خوشی غمی میں شرکت اور مارکیٹوں میں خریدو فروخت کرتے ہوئے گزاری جارہی ہے اور دوسری وہ متوازی زندگی ہے جو ورچوئل انداز میں گزاری جارہی ہے۔ اس میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس یا پلیٹ فارمز اُن عمارتوں ‘ مارکیٹوں اور سڑکوں کی مانند ہیں جہاں لوگ سرحدوں سے آرپار ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ گوگل ‘ فیس بک ‘ ٹوئٹر وغیرہ ایسے رابطوں کے لیے مقبول اور عالمی دسترس رکھنے والے میڈیم سمجھے جاتے ہیں جو اِن رابطوں کو ممکن بناتے ہیں۔
ان پلیٹ فارمز کے ذریعے قائم ہونے والے معاشرتی تعلقات حقیقی زندگی کے روابط سے بالکل مختلف ہیں۔ ورچوئل زندگی میں اخلاقی اور معاشرتی آداب ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ مختلف گروہ جواِن پلیٹ فارمز کے ذریعے رابطے میں ہیں وہ اپنے اخلاقی ضابطے خود طے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ٹوئٹ یا فیس بک پرلگائی گئی پوسٹ پر مختلف ریمارکس آنا شروع ہوجاتے ہیں جن میں بعض موزوں‘ منطقی یا علمی ہو سکتے ہیں لیکن اُسی پوسٹ یا ٹوئٹ پر کئی ایسے تبصرے اور آرابھی دیکھنے کو ملیں گے جو اخلاقی گراوٹ‘ عزتِ نفس کی پامالی یا ذاتیات پر حملے جیسے خطرات سے لبریز ہوں گے۔
حکومتیں ‘ تجارتی گروہ ‘ مذہبی اور نظریاتی گروپ اور سیاسی جماعتیں اب اس کے ذریعے اپنے مفادات اور ایجنڈا کی تکمیل کے لیے جمہوری انداز میں چلائے جا رہے ہیں یا غیر جمہوری ‘ سیاسی محرکات سوشل میڈیا کے کردار کو متعین کرتے نظر آتے ہیں۔ اکیسو یں صدی کی پہلی دہائی کے آغاز میں یوکرائن میں برپا ہونے والا اورنج انقلا ب ہو یا اس کے بعد عرب سپرنگ‘ ان واقعات نے سوشل میڈیا کی اہمیت کو مسلمہ کردیا۔ عرب سپرنگ میں تو موبائل فونز کے چارجز تک کے کردار کو عالمی تبصروں اور تحقیقی مقالوں میں جگہ ملنے لگی تھی۔ سوشل میڈیا نے دنیا میں سفارتکاری کے اصولوں اور تقاضوں کو بھی تبدیل کردیا۔ سربراہانِ ریاست ایک ٹوئٹ سے دنیا کو اہم ترین ایشوز پر اپنا ردعمل دینے لگے ہیں۔ آج کامیاب سفارت کاری کے لیے اس ٹیکنالوجی سے واقف ہونا ایک بنیادی ضرورت یا معیار قرار دیا جا چکا ہے۔
اسی طرح سوشل میڈیا نے سیاست کے رنگ ڈھنگ کو بدلنے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ کسی بڑے سیاسی واقعے کے نتیجے میں Memes اور ہیش ٹیگ ٹرینڈز رائے عامہ پر حاوی ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہاں اس پہلو کو مدِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ سیاسی تناظر میں سوشل میڈیا کا کردارکون متعین کرتا ہے۔ بیرونی قوتیں ‘ ملکی اپوزیشن اور حکومت ِ وقت یہ تین ایسے محرکات ہیں جو اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا جمہوری حکومتوں کو کمزور کر رہا ہے کیونکہ ایکٹو کردار ادا کرنے کے بجائے صارف یہاں چلنے والی بحث سے متاثر ہو کر اپنی رائے تبدیل کرلیتا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں ‘ ٹریڈ یونینز‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سو سائٹی کے ذریعے وہ سیاسی عمل میں شرکت سے محروم رہتا ہے۔ لیکن ایک رائے یہ ہے کہ سوشل میڈیا عوامی مسائل کو اُجاگر کر کے حکومتوں کو بروقت ایکشن لینے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی طرح کمزور جمہورتیوں میں بھی اس کا کردار زیر بحث ہے جہاں خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ انقلابی نظریات اس میڈیم کے ذریعے ایسے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جو حکومتوں اور اداروں کی کارکردگی سے دلبرداشتہ ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ہماری نوجوان آبادی‘ جو در اصل ایسا قومی سرمایہ ہے جو مستقبل میں ملک کے لیے ضروری ہے‘ کو اس نے کس طرح متاثر کیا ہے؟ نوجوانوں کی اجتماعی اخلاقیات کس طرح گراوٹ کا شکار ہوئی ہیں ‘خاندانی نظام کو سوشل میڈیا نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا یا ہے‘ ہماری روایات کا جنازہ نکل چکا ہے‘ کیونکہ دور نزدیک اور نزدیک دور ہو چکا ہے۔
Techno Optimism یعنی ٹیکنالوجی سے خوش امیدی اپنی جگہ کہ سوشل میڈیا ایک ایسی سماجی طاقت ہے جو نوجوان نسل کو باشعور‘ بااختیار اور طاقتور بنا دے گی‘ لیکن ہمارے معاشرے میں اس ٹیکنالوجی کا مثبت اثر بہت کم نظر آرہا ہے؛ البتہ اس کے منفی اثرات بہت نمایاں ہیں۔ کتب بینی زوال کا شکار ہے‘ موبائل فونز کے استعمال کے باعث ٹریفک حادثات بڑھ رہے ہیں‘ اجتماعی اخلاقیات بہت تیزی سے تباہ ہو رہی ہیں۔ ہونا تو چاہیے کہ ہم آن لائن اور آف لائن Ethics ایک ہی رکھیں مگر ہماری حقیقی اور ورچوئل زندگی کے درمیان واضح تضادات موجود ہیں۔ ملک میں جاری حالیہ سیاسی کشیدگی میں ‘ خواہ وہ حکومتی جماعت ہے یا اپوزیشن ‘ فریقین نے جس طریقے سے سوشل میڈیا کو استعمال کیا ہے اس نے اخلاقی گراوٹ اور عدم برداشت کی نئی پستیوں میں پھینک دیا ہے۔ کیا ہمارا ملک اس سب کا متحمل ہو سکتا ہے؟کیا ہم آئندہ نسلوں کی معاشرتی اور سیاسی تربیت اس طرح کریں گے؟کورونا میں تو سوشل میڈیا کا مثبت کردار سامنے آیا تھا‘ تعلیم کے حصول کو ہم نے اسی میڈیم کے ذریعے ممکن بنایا ‘ آن لائن گورننس‘ تعلیم اور معیشت سے ہمارا معاشرہ روشناس ہو رہا تھا۔ سوشل میڈیا کے کردار اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے اس کے کہ ریاستی مشینری کے ذریعے آزادی ٔاظہار کے حق پر قد غن لگائی جائے‘ کیوں نہ ملک میں میڈیا لٹریسی کو فروغ دیا جائے۔ یہ لوگوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ عادتاً کسی رائے ‘ خبر یامعلومات کو قبول کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کریں۔ وہ اس قابل ہوں کہ خبر اور معلومات کو جانچ سکیں اور دیگر ذرائع پر بھی اس کی حقانیت کو پرکھ سکیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ ملک میں تعلیم کے معیار کو بلند کرنا اس کا فرض ہے کیونکہ با مقصد اور اعلیٰ تعلیم سے ہی انسانی ذہن سوچنے کے قابل ہوں گے اور اگر سوچ سکیں گے تو پھر سازشی نظریات اور Fake پروپیگنڈا کو وہ خود جانچ لیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں