احتساب: وہ انتظار تھا جس کا …

'' نسلِ انسانی اور ایٹمی اسلحہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘یہ کہنا تھا جاپان کے شہر ناگا ساکی کے مئیرIccho Itoh کا۔ شاید اس رائے سے انکار ممکن نہیں لیکن ہمارے ملک میں پچھلے کچھ سال سے تواتر کے ساتھ کچھ سیاسی رہنما یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ احتساب اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ حالانکہ علم سیاست کی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ جمہوریت ہی د راصل ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتیں عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں۔ وہ عوام کے پیسے کی امین ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں عوام سے ٹیکس لینے کا اختیار بھی عوام ہی دیتے ہیں۔ جیسے مشہور مقولہ ہے: No taxation without representation ‘تو پھر جمہوریت اور احتساب کا عمل ایک ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ آئیے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہو ا کچھ یوں ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب کا نام اور عمل دونوں اپنے معنی ‘ تاثیر اور سنجیدگی کھو چکے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب ہمیں 1949ء سے اس وقت ملنا شروع ہوتا ہے جب جناب لیاقت علی خان کے دور میں PRODA (Public Representative Offices Disqualification Act) بنا۔ اگرچہ اس قانون کے تحت دو وزرائے اعلیٰ نواب افتخار الدین ممدوٹ اور پیر الٰہی بخش جو بالترتیب پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ تھے ‘ ہی کو فارغ ہونا پڑا تاہم اُس وقت کی اپوزیشن نے اس قانون کو جانبدار قرار دیا۔ یہ قانون 1954ء تک نافذالعمل رہا۔ پھر ایوب خان کے دور میں 1959ء میں PODO (Public Offices Disqualification Order) اور EBDO (Elective Bodies Disqualification Order) بنا جس کے تحت قیوم خان اور حسین شہید سہر وردی جیسے سینئر سیاستدان نااہل قرار پائے۔ یحییٰ خان اور بھٹو دور میں بھی احتساب قوانین بنے اور متعدد سول افسران کو جبراً رخصت کیا گیا۔ ناقدین کے مطابق ان تمام افراد کو فیئر ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا۔ 1990 ء میں بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے خلاف صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے 20 کے قریب مقدمات دائر کئے اور جب بے نظیر 1993ء میں دوبارہ برسراقتدار آئیں تو انہوں نے نواز شریف پر موٹر وے‘ پیلی ٹیکسی اور کوآپریٹو سکینڈل میں کک بیکس لینے کے الزامات لگائے۔مشہو ر کالم نگار اردشیرکاؤس جی نے نوے کی دہائی کے آخر میں اپنے ایک کالم میں سیف الرحمن کو‘ جو نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں احتساب بیورو کے چیئرمین تھے‘ وزیراعظم نواز شریف کاWrong Hand لکھا۔ یہ ایک بہت معنی خیز ٹرم تھی‘ یعنی اس وقت کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کودیوار سے لگانا چاہتی تھی اور وہ یہ کام سیف الرحمن کے ذریعے کر رہی تھی۔
پرویز مشرف کے دورِ حکومت کے آغاز میں نیب آرڈیننس کا بہت چرچا ہوا۔ چونکہ پرویز مشرف ایک Well Meaningشخص تھے اور گفتگو میں انہیں ملکہ حاصل تھا لہٰذا ان کے ابتدائی انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں میں قوم اُن سے توقع لگابیٹھی کہ اس بار ملک میں کڑا اور بے رحم احتساب ضرور ہوگا‘ لیکن صرف چند اہم کاروباری شخصیات کو جنہیں بعد میں شوکت عزیز صاحب‘ جو وزیر خزانہ تھے‘ کے کہنے پر چھوڑدیا گیا۔یہ احتساب بے اثر رہا۔ 2002ء کے انتخابات میں نیب کی مافوق الفطرت طاقت کا ذکر ایک اہم ریٹائرڈ شخصیت اپنی کتاب میں لکھ چکی ہے۔
پانامہ سکینڈل اور اس کے بعد ملک کے وزیر اعظم کی نااہلی نے ایک بار پھر ہماری قومی گفتگو اور سیاست میں احتساب کے بیانیے کو مضبوط بنا دیا۔ہاں یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ جو عوام آزادی سے لے کر اب تک اس نعرے کو بہت سنجیدہ لیتے رہے وہ پچھلے کچھ عرصہ سے دلبرداشتہ نظر آتے ہیں۔ احتساب کے عمل میں عوام اور سنجیدہ حلقوں کی عدم دلچسپی کی بڑی وجوہات میں اس عمل کی شفافیت کا معیار ‘ پراسیکیوشن کا معیار اور کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عمل میں سست روی شامل ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت اور سیاست جس سیاسی منطق پر کھڑی ہوئی وہ احتساب تھا۔ حکومت بننے کے ساتھ ہی عوام نے عمران خان کے ساتھ بہت بلند توقعات وابستہ کر لیں۔ اس کی دو وجوہ تھیں‘ ایک یہ کہ وہ خان صاحب کو پہلی بار آزما رہے تھے اور دوسرا یہ کہ رائے عامہ کو عمران خان نے حکمران اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف موبلائز کیا تھا لیکن عوامی توقعات کے مطابق احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ اصولی طور پر سیاسی اشرافیہ کو اپنے مالی معاملات میں شفاف ہونا چاہیے۔ جتنا عرصہ وہ اقتدار میں رہتے ہیں اس دوران اُن کے اثاثے‘ کاروبار اور مالی حیثیت کے بارے میں پوچھ گچھ عوام اور قانون کی ذمہ داری ہے تاہم پچھلے چند سال میں بالخصوص اور ہماری ملکی تاریخ میں بالعموم احتساب صرف کچھ بیوروکریٹس‘ پرائیویٹ کمپنیوں اور غیر سیاسی افراد کا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو عدالتوں سے سزائیں ہوئیں اور پلی بارگین یا ریکوری نظر آئی۔ احتساب کے خواب کو ایک حقیقت میں ڈھالنا ہے تو ہمیں سیاست کو احتساب سے الگ کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں احتساب کرنے والی قوتیں اور جن کا احتساب کیا جانا ہوتا ہے‘ دونوں بھرپور پروپیگنڈا کرتی ہیں۔ حکومت کو حاصل کردہ ثبوتوں اور معلومات کو مؤثر اور قابلِ اعتماد شہادتوں کے طور پر کرپشن میں ملوث عناصر کے خلاف عدالتوں میں لے کر جانا چاہیے‘ مگر وہ ایسی دستاویز کو اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنانا پسند کرتی ہے‘ جس سے اس عمل کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوال اُٹھ جاتے ہیں اور جو عمل قانون کے دائرہ کار میں طے ہونا چاہیے وہ میدانِ سیاست میں موضوع بحث بن جاتا ہے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جاتی ہے‘ لہٰذا احتساب سے منطقی نتائج حاصل کرنے کے بجائے جزوقتی سیاسی مقاصد اور فوائد پورے کئے جا رہے ہوتے ہیں۔
نیب کے ڈھانچے اور اس کے اختیارات کے حوالے سے بھی ملک میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق احتساب کے لیے ایک الگ تھلگ انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اورملک میں پہلے سے موجود قوانین اور ادارے جن میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘ آڈیٹر جنرل اور اینٹی کرپشن شامل ہیں‘ کافی ہونے چاہئیں۔ انہی اداروں کو فعال اور خودمختار بنا کر احتساب کا عمل آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ نیب ایک سیاسی ہتھیار ہے جسے وقتاً فوقتاً حکمران اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں اور اس سیاسی انتقامی روش کو نیب تقویت دینے کا باعث بنتا ہے۔
دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں حکمران اشرافیہ کو رول ماڈل کا درجہ ملتا ہے‘ تاہم اس اشرافیہ کو اس مقام کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اُن کی پبلک لائف سپاٹ لائٹ میں ہوتی ہے۔ اُن کے کاروباری ذرائع‘ اولاد کے مالی معاملات اور رہن سہن بھر پور طریقے سے Scrutinize کئے جاتے ہیں‘تاہم ہمارے ملک کی تاریخ احتساب کے حوالے سے قابلِ فخر نہیں۔ ایک غیر جانبدارانہ اور بے رحم احتساب کے لیے سیاسی اتفاق رائے‘ جو احتساب کے قوانین اور اس کے ڈھانچے کو متعین کرے‘ ضروری ہے۔ بصورت دیگر سیاست اور احتساب ٹام اینڈ جیری کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے نظر آئیں گے۔
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں