گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دنیا میں قومی سلامتی کا تصور اپنے معنی اور مفہوم‘ دونوں اعتبار سے وسعت اختیار کر چکا ہے۔ دورِ جدید کی ریاستیں قومی سلامتی کی ضرورتوں اور تقاضوں کا تجزیہ کرتے وقت جیو پولیٹیکل صورت حال کے ساتھ ساتھ اپنے اندرونی سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت بھی محسوس کرنے لگی ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ جدید اسلحہ‘ نیوکلیئر ہتھیار اور ریاستی مشینری کی طاقت ریاستوں کو یکجا رکھنے کے لیے کافی نہیں کیونکہ مضبوط دفاع اور جدید ہتھیار صرف اسی صورت کام آئیں گے جب قوم‘ باوجود مختلف نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے کے‘ اپنی ریاست کے ساتھ جڑی ہو گی اور ایسا تب ممکن ہو گا جب ریاست کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے Inclusive ہوں گے۔ لوگوں کے لیے بلند معیارِ زندگی‘ اعلیٰ تعلیم اور روزگار کا حصول خواب نہ ہو بلکہ یہی ترغیبات انہیں ریاست کے ساتھ منسلک رکھنے میں کردار ادا کر رہی ہوں۔
عہد حاضر میں جنگوں کی پانچویں نسل کا تصور بھی اس سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ جنگوں کی نئی قسم جسے ہائبرڈ وار کہا گیا ہے اس میں دشمن جنگ کے لیے کسی مخصوص میدان کا چناؤ نہیں کرتا۔ یہ جنگ غیر فوجی اور غیر روایتی بھی ہو سکتی ہے۔ دشمن آپ کی اندرونی کمزوریوں کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ گورننس کی ناکامیاں‘ کمزور معیشت‘ غیر ہنر مند اور بے روزگار نوجوان نسل ایسی جنگوں میں آسان اہداف بنتی ہے‘ لہٰذا بیانیے کی اس جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو اپنی اندرونی کمزوریوں کو اپنی طاقت میں بدلنا ہوتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر ملک کے اندر موجود آبادی ریاستی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرے‘ ایک مؤثر لیڈر شپ دستیاب ہو اور حکومتی ادارے فعال ہوں۔
اسی تناظر میں پاکستان میں بھی اس ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ ایک نئی دستاویز کے ذریعے ایک جامع قومی سلامتی پالیسی کا اجرا کیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلا سکیورٹی ڈاکومنٹ ہے تاہم اس پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ با خبر حلقے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ تقریباً ہر سال ہمارے ڈیفنس اور سٹریٹیجک سٹڈیز کے ادارے‘ این ڈی یو اور آرمڈ فورسز وار کورس اس طرح کے پالیسی پیپر تیار کرتے ہیں؛ تاہم اس حوالے سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وفاقی کابینہ نے اس پالیسی دستاویز کی سیاسی اونرشپ لی ہے اور اسے پبلک کیا ہے۔ اس پالیسی کی سب سے خاص بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ یہ ایک Citizen Centric پالیسی ہے اور پہلی بار قومی سلامتی کے غیر روایتی پہلو یعنی ہیومن سکیورٹی کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ایک مربوط اور جامع سکیورٹی پالیسی کا اعلان ایک خوش آئند قدم ہے۔ اسے ریاستی پالیسی کہنا درست ہوگا۔ درحقیقت آزادی کے بعد سے ہی ہمارے ملک کا تعارف ایک قومی سلامتی کی ریاست کے طور پر ہونے لگا۔ ہماری مغربی اور مشرقی سرحد پر موجود خطرات نے اس تصور کو تقویت دی۔ ہمارا فوکس دفاعی تیاری اور دشمن (بھارت) کے مقابلے میں روایتی دفاعی طاقت کے عدم توازن کو دور کرنے میں لگ گیا اور یوں ملکی آبادی کی معاشی اور معاشرتی سکیورٹی کے تقاضے پس منظر میں جانے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم معاشی طور پر ایک کمزور ملک رہے۔ اقوام عالم میں کمزور معیشت کے ساتھ آپ اپنی خود مختاری اور قومی مفاد کا تحفظ نہیں کر سکتے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں دوسری ریاستوں کے فیصلوں اور رویوں پر اثر انداز ہونے کے لیے اندرون ملک قومی دولت اور صنعتی پیداوار کا پھیلاؤ ضروری محرکات ہیں۔ اس کے علاوہ قومی خود مختاری کا تحفظ بھی معاشی خود انحصاری کا متقاضی ہوتا ہے۔
تقریباً ایک دہائی قبل ہمارے ایک سابقہ سپہ سالار نے ایک اہم تقریب میں کہا تھا کہ اس وقت ملک کو بیرونی خطرات کے مقابلے میں اندرونی سلامتی کے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ گورننس کے وہ مسائل بھی شامل ہیں جن میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مناسب روزگار کے مواقع نہ ہونا‘ غربت‘ زندگی کی بنیادی سہولتوں تک رسائی کا مشکل ہونا شامل ہیں۔ اگرچہ نئی پالیسی میں معاشی تحفظ اور قومی یک جہتی کو اہم ترین ترجیحات قرار دیا گیا ہے اور یہ دعویٰ بھی کہ اس پالیسی کی تیاری میں تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے؛ تاہم اس بابت کئی خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اس پر ایک سیر حاصل بحث نہیں ہوئی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم دستاویز کی تیاری میں ایک وسیع البنیاد سیاسی اتفاق رائے حاصل نہیں کیا گیا۔ جن طویل المیعاد ترجیحات کا تعین اس پالیسی میں کیا گیا ہے اُن پر عمل در آمد کسی ایک دورِ حکومت میں ممکن نہیں۔ آئندہ آنے والی حکومتوں کو بھی ان لانگ ٹرم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے اور اس سب کے لیے ایک وسیع البنیاد اتفاق رائے کی بنیاد پر ایسا اہم ڈاکو منٹ تیار ہونا چاہیے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جو مقاصد اور ترجیحات اس میں طے گئی ہیں وہی آج کے دور کی ضرورت ہے اور شاید پاکستان میں ایک جامع قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کی بہت عرصہ سے ضرورت تھی؛ تاہم جس سیاسی عزم اور تسلسل کی ضرورت ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے وہ وسیع تر قومی مشاورت اور سیاسی اونر شپ سے ہی ممکن ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس پالیسی کا عملی نفاذ کیسے اور کتنے عرصے میں ممکن ہو گا۔ بلند بانگ دعوے تو پہلے بھی کئے جاتے رہے ہیں۔ اصل بات طے شدہ ترجیحات کا حصول اور اس کے لیے درکار انسانی وسائل‘ سیاسی استحکام اور معیشت کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کرنا ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور رسہ کشی عروج پر ہے۔ سیاسی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے لہٰذا ان حالات میں طویل المیعاد پالیسی مقاصد کا حصول ابھی دور معلوم ہوتا ہے۔
بیرونی محاذ پر ہمیں مشرق اور مغرب کے درمیان جاری سرد جنگ میں ایک Balancing Act کی ضرورت ہے۔ پہلے سے موجود تجارتی مفادات‘ قرضوں کا حصول اور ادائیگی‘ وہ محرکات ہیں جو ہمارے مغرب کے ساتھ تعلقات کے لیے اہم ہیں۔ دوسری طرف چین کے ساتھ اقتصادی شراکت داری اور خطے میں بھارت کے امریکہ کے ساتھ بڑھتے تعلقات‘ ہماری انرجی کی ضرورتیں‘ یہ سب ہمارے لیے چین اور روس کی اہمیت بڑھاتے ہیں۔ تو جہاں نئی قومی سلامتی پالیسی کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی آبادی کو با ہنر اور خود مختار بنانا ہے اور بنیادی معاشی اصلاحات لانی ہیں وہیں جیو پولیٹیکل ماحول میں یہی اندرونی محرکات ہماری طاقت بنیں گے جو ہمیں موجودہ عالمی ماحول میں غیر جانب دار رہنے اور ایک متوازن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے میں مدد دے سکتے ہیں۔