پچھلے سال وزیرا عظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ ایساطریقہ کاروضع کیا جائے جس سے بیورو کریٹس کی کارکردگی کو ان کی عوامی مسائل کے حل کے لیے کی گئی کوششوں کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ اس ضمن میں وزیراعظم کے زیر نگرانی کام کرنے والے Prime minister,s Peformance Delivery Unit (PMDU) نے بیوروکرٹیس کی سالانہ کار کردگی کی جائزہ رپورٹ جسے Annual Confidential Report(ACR) اور Perfomance Evaluation Report ( PER) کہا جاتا ہے‘ میں طریقہ کار کی تبدیلی اور ایسے کالمز شامل کرنے کی ہدایت کی جن کی بنیاد پر یہ دیکھا جائے کہ متعلقہ افسر نے دوران تعیناتی عوامی شکایات کے ازالے کے لیے کیا کیا۔ نہ صرف وہ تفصیلات اس میں شامل ہوں گی بلکہ ان اعدادو شمار کی سینئر افسران تصدیق بھی کریں گے۔
سول سرونٹس پروموشن رولز 2019ء‘ جو گریڈ 18 سے گریڈ 21 تک کے افسران کی ترقیوں کے لیے بنائے گئے‘ کے مطابق سنٹرل سلیکشن بورڈ کی صوابدید پر 30 نمبر رکھے گئے ہیں جو اس سے قبل 15 تھے۔ ماضی میں ایک سول سرونٹ کو اگر سنٹر ل سلیکشن بورڈ کوئی نمبر بھی نہ دے تو وہ اگلے گریڈ میں جا سکتا تھا کیونکہ پیشہ ورانہ ٹریننگ کورسز اور ACRکے کل ملا کر 85نمبر بنتے تھے ۔
پچھلے چند ماہ سے افضل لطیف صاحب جن کا تعلق 18th CTPسے ہے‘ وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی سربراہی میں دو سلیکشن بورڈ منعقد ہوچکے ہیں اور جس انداز میں نئے قوانین کو انہوں نے نافذ کرتے ہوئے شفاف اور میرٹ کی بنیاد پر ترقیوں کی منظوری دی ہے اور متعددکیسز کو موخر یا Deferکیا ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس وقت ملکی بیوروکریسی میں دو آرا سامنے آچکی ہیں۔ وہ بیوروکریٹس جو سیاسی اثر و سورخ نہیں رکھتے اور مڈل کلاس کی اقدار کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی اہلیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں انہوں نے حالیہ سلیکشن بورڈ ز کے فیصلوں کو سراہا ہے ۔ اسے میرٹ کی بالادستی کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے تاہم وہ بیورو کریٹس جو سیاسی strings استعمال کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور باوثوق ذرائع کے مطابق ان میں سے متعدد ترقیاں حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ یا تو ان کے خلاف محکمانہ انکوائریاں زیر التوا رہیں یا ان کی فیلڈ میں تعیناتی خالصتاً سیاسی مداخلت سے عمل میں آئی تھی۔ ایسے افسران سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے پریشان ہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق پنجاب کے ایک اہم سیاسی خانوادے کا ایک فرد جو وفاقی کابینہ کا رکن بھی ہے‘کے پرائیویٹ سیکرٹری کے خلاف محکمانہ انکوائری ہونے کی وجہ سے وہ ترقی سے محروم ہو گیا ہے اور وزیر موصوف اس ضمن میں سیکرٹری پر دبائو ڈال رہے ہیں۔اطلاع یہ بھی ہے کہ وزیراعظم موجود ہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے بہت خوش ہیں اور خان صاحب کہتے سنے گئے ہیں کہ لگتا ہے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی کارکردگی زبردست ہے جس کے باعث ان کے خلاف شکوے اور شکایات وزیراعظم تک پہنچ رہے ہیں۔
ریاستی نظام میں بیورو کریسی کی حیثیت انجن کی سی ہے ۔ جب تک انجن مضبوط ہے‘ اس کے رنگ اور پسٹن اچھی حالت میں ہیں تو گاڑی اچھے انداز میں چلتی ہے ۔ ریاستی اداروں میں بیورو کریسی کا بھی یہی کردار ہوتا ہے ۔ اس کے ضابطے‘ طریقہ کار‘ ٹرانسفر پوسٹنگ اور ترقیوں کے مراحل اگر صحیح انداز میں طے پارہے ہوں تو قانون کا اطلاق ‘ پالیسیوں کا نفاذ اور روز مرہ زندگی کے عوامی مسائل کا حل سب مناسب انداز میں صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس انجن کی دیکھ بھال اور وقتاً فوقتاً اس کی فائن ٹیون نہ کی جائے تو گورننس کے مسائل بڑھ جاتے ہیں ۔ انتظامی بدنظمی لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے ۔
اس ضمن میں وہ مسائل جو بیورو کریسی کی اصلاح اور اسے ایک مضبوط انجن کے طور پر کام کرنے سے روکنے کے ذمہ دار ہیں ان کا تجزیہ اہم ہے ۔ سیاسی مداخلت سب سے پہلا اور دیرینہ مسئلہ ہے ۔ اگرچہ یہ پچھلی حکومتوں کے ادوار میں بھی رہی تاہم موجود ہ دور میں بالخصوص صوبوں میں طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز ہونے کے باعث یہ مداخلت بڑھی ہے ۔ دوسرے نمبر پر دو بڑے اہم عہدے جو صوبائی انتظامیہ کو متحرک رکھنے اور اسے ایک تعمیری سمت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یعنی چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس ‘ ان عہدوں کا اثر کم ہوتا نظر آرہا ہے جس کی بڑی وجہ ان عہدوں پر فائز افسران میں پایاجانے والا عدم تحفظ کا احساس ہے۔ اپنی ٹیم کا انتخاب کرنا اور اس کی کارکردگی پر تحسین تبھی ممکن ہے جب ان عہدوں پر موجود لوگ احساس تحفظ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوں۔ اگر ان افسران کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کم سے کم کتنا عرصہ اپنا عہدہ سنبھال پائیں گے تو پھر ان سے جوابدہی اور کارکردگی مانگنا عبث ہے۔ اگرچہ نیب قوانین میں ترمیم کی جاچکی ہے تاہم حالیہ دور میں بیوروکریسی کے اندر غیر فعالیت کی ایک وجہ اس ادارے کا خوف بھی تھا۔
پچھلی ایک دہائی میں ہمارے ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم نے بھی ہماری سول سروس میں بددلی پیدا کی ہے۔ کئی سول افسران اپنی ذمہ داریوں کو‘ جن کا تعلق روزمرہ کے معاشرتی اور شہری مسائل سے ہے‘ پورا کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کی دانست میں Proactiveہو کر ممکن ہے انہیں اپنے فیصلوں کے حوالے سے عدالتیں طلب کر لیں۔ اگرچہ میڈیا ایک ریاستی ستون ہے‘ میڈیا عوام کے حقوق اور حکومتی اختیارات کے استعمال اور کارکردگی پر اپنی سپاٹ لائٹ رکھتا ہے ۔ جمہوری معاشروں میں ایک واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتا ہے تاہم بریکنگ نیوز کی دوڑ اور حکومتی فیصلوں پر تنقید میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے حکومتی کارکردگی پر کی جانے والی بحث میں رپورٹنگ کا ٹارگٹ سول افسران بھی ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاست میں حکومتیں اور اپوزیشن دونوں غیر حقیقت پسندانہ وعدے کرتی ہیں اور عملدرآمد میں ناکامی پر ان کے بیوروکریسی سے تعلقات متاثر ہو جاتے ہیں۔ ایسانہیں کہ عمل درآمد سو فیصد ہو رہا ہوتا ہے۔ جس طرح میڈیا اور سیاست کا تعلق Uneasy رہتا ہے اسی طرح سیاسی حکومتوں اور بیورو کریسی کے تعلقات میں بھی اونچ نیچ آتی رہتی ہے ۔ حکومتیں عوامی شکایات کا ازالہ کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں اور اس ضمن میں بجائے اپنی پالیسی اور لیڈر شپ کے چنائو میں بہتری لانے کے وہ اکثر بیورو کریٹس کو عوامی شکایات میں ازالے پرناکامی کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔ دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ پالیسی سازی کا کام کرتی ہے اور اس پر عملدرآمد بیورو کریسی نے کروانا ہوتا ہے اور اس کیلئے سول سرونٹس کا پیشہ ورانہ ماہر اور غیر جانبدار ہونا ضروری ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں سیاسی اشیرباد کے ذریعے اعلیٰ تقرریاں اور مراعات کے حصول کیلئے سول سروس کا ایک حصہ سرگرم عمل رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس سروس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ سیاستدان اور بیورو کرٹیس اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ وہ جس گاڑی کو چلا کر اس قوم کو منزل مقصود پر پہنچانا چاہتے ہیں اس میں ایک کی حیثیت انجن کی اور دوسرے کی سٹیئر نگ کی ہے۔