دنیا کے وہ ممالک جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑے ہیں اور وہاں جمہوریت تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہوایسے ممالک کو خارجہ پالیسی کی طویل المیعاد منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے۔ ان ممالک میں اتفاق رائے پیدا کرنا زیادہ آسان نہیں ہوتا۔ آزادی کے بعد سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں اسے ایک ایسیAutonomous سپیس حاصل رہی ہے جس کی بدولت وہ سرد جنگ کے دنوں میں ایک غیر جانبدار پوزیشن لیتا رہا اور سرد جنگ کے بعد بھی دنیا کے تمام بڑے اور اہم ممالک کے ساتھ ایک ہی وقت میں تعلقات کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کی وجوہات تلاش کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ داخلی طو رپر سیاسی عمل کا تسلسل اور معاشی منصوبہ بندی دو ایسے عوامل ہیں جن کی بدولت اس ملک کے پاس یہ آپشن موجود رہا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں آزادانہ فیصلے کر سکے۔
تاریخی اعتبار سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں خطے کے اندر بالادستی کی خواہش‘ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں باہمی احترام‘ عدم مداخلت اور برابری کے مروجہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے تعلقات بنانا شامل ہے۔ابتدائی سالوں میں جو اہر لال نہرو کا ڈاکٹر ائن انہی اصولوں پر مبنی تھا جس کے نتیجے میں بھارت کی خطے میں چودھراہٹ کے عزائم نے اس کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیا۔ پنڈت نہرو چونکہ ڈیڑھ دہائی سے زائد بھارت کے وزیراعظم رہے‘ لہٰذا ان کا وژن ان کے بعد بھی ہمیں Consolidate ہوتا نظر آتا ہے۔ ہندوستان کا ایٹمی قوت بننے کا خواب اور چین اور پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک اختلافات اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘تاہم 1980ء کی دہائی میں جب اندراگاندھی قتل ہوئیں اور اس کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو اقتدار ملا تو اس وقت دنیا میں رونما ہونے والی چند اہم تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے بھارت اپنی اقتصادی پالیسی کو اپنے خارجہ تعلقات میں ایک اہم جگہ دینے کی تیاری کر رہا تھا۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں اس پر مزید پیش رفت دیکھی گئی۔ ہندوستان کی معیشت جو ابتدا سے ایک سوشلسٹ رجحان کو ظاہر کرتی رہی اب اسے مارکیٹ اکانومی کے اصولوں پر چلانے کی بات ہو رہی تھی۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق اقتصادی سوچ کی یہ تبدیلی بھارت چین سے متاثر ہو کر اپنا رہا تھا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں بھارت اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف اپنے قومی اقتصادی اہداف کے ساتھ منسلک کرتا ہوا نظر آیا۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دس سال اور پھر وزیر اعظم نریندر مودی کا دور اس بات کا ثبوت ہے کہ ان ادوار میں بھارت نے ایک مؤثر انداز میں جیو سٹر یٹیجک اور جیو اکنامک حقیقتوں کو Re-alignکیا۔ یقینا ایسا کرتے ہوئے بھارت کی دفاعی قوت میں اضافہ دیکھا گیا‘ جس کے نتیجے میں ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں کشیدگی بھی بڑھی اور خطے میں دیر پا امن کے قیام کو خطرات لاحق ہوئے۔جب بھارت اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی مقاصد کا احاطہ کرتا ہے تو اس میں قومی سلامتی و خودمختاری کے ساتھ دہشت گردی کی روک تھام‘ تخفیف اسلحہ اورایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ جیسے مقاصد کا پرچار کرتا نظر آتا ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ان مقاصد میں بنیادی تضا دات موجود ہیں۔بھارت خو ریاستی دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے۔ کشمیر میں فوج کشی‘ کلبھوشن یادیو جیسے مہروںکے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت گرد نیٹ ورک کو کنٹرول کرنا اور ہمارے ملک کے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے اس کا ہاتھ ہونا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کے مقصد کو مخص ایک Facade کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
تخفیفِ اسلحہ اور ایٹمی ہتھیاروں کے عد م پھیلاؤ جیسے حساس اور اہم مقاصد میں بھی اس کی سنجیدگی بے بنیاد ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں بھارت کا ڈیفنس اور ملٹری بجٹ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اس وقت اس کا کل دفاعی بجٹ70ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے اور اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے بات کی جائے تو اس نے ابھی تک NPTپر دستخط نہیں کیے۔ بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے TRIAD حاصل کر لیا ہے۔ بحر ہند میں وہ اپنی ملٹری پاور کو بڑھا رہا ہے۔ ہندوستان ورٹیکل پرولیفریشن کا مرتکب ہو چکا ہے۔غیر جانبداری کے اصول کو بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی میں بہت اہمیت دی ہے‘ تاہم پوری سرد جنگ میں متعدد ایسے مواقع آئے جب اس کی غیر جانبداری عیاں ہو گئی مثال کے طور پر 1962ء میں بھارت چین سرحدی تنازع کے بعد جب امریکہ نے بھارت کو نیو کلیئر امبریلا کی پیشکش کی تو بھارت نے اسے قبول کر لیا۔ اس کے بعد 1979ء میں روس کے افغانستان پر فوجی حملے کو بھارت نے Condemn نہیں کیا۔ حال ہی میں چند نئے رجحانات بھارت کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں مسلم دنیا کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات‘ امریکہ کے ساتھ جیو سٹریٹیجک پارٹنرشپ اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کے مقابلے میں اپنی معیشت کا پھیلاؤاور دفاعی قوت میں اضافہ شامل ہیں۔انڈین فارن پالیسی Analysts کے مطابق بھارت کا اصل چیلنج چین ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ یہ لکھتے ہیں کہ چین بھارت کا Upper riparian ہمسایہ ہے۔ بھارت کو ملنے والا دریاؤںکا پانی چین کے کنٹرول میں ہے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی کونسل میں چین بھارت کی بطور مستقل رکن کے شمولیت کو ویٹو کرتا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ بحرہند پر اس کی ملکیت ہے‘ لہٰذاوہ بیجنگ کو اس سمندر میں بلاروک ٹوک آمدورفت کی اجازت نہیں دے سکتا۔ نیو کلیئر سپلائی گروپ میں بھارت کی شمولیت پر چین اعتراض کرتا ہے‘ اس کے علاوہ بھارتی حکمران ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے کہ سی پیک اور BRI جیسے منصوبے چین کے توسیع پسندانہ عزائم ظاہر کرتے ہیں‘ اس لیے بھارت ان منصوبوں کی مخالفت کرتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کو چین سے ایک مسئلہ پاکستان اور چین کے تاریخی اور برادرانہ تعلقات بھی ہیں۔
پچھلے سات آٹھ برسوں میں ہندوستان کے اندر آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے بعد خطے کے تمام ممالک خوفزدہ ہیں کہHindutvaکا فلسفہ بھارت کو جنگی جنون میں مبتلا کر سکتا ہے او ر بھارتی قیادت مقامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر اپنے ہمسایے بالخصوص پاکستان کے ساتھ‘ جارحیت کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ اس خدشے نے علاقائی امن کے لیے سنجیدہ خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق بھارتی جمہوریت ایک Noisyڈیمو کریسی ہے۔ رنگ و نسل‘ مذاہب‘ تمدن اور زبان کے تضادات اس معاشرے کی پہچان ہیں‘لہٰذا اگر بھارت اس روش پر گامزن رہا جو ایک انتہا پسندانہ روش ہے تو اس کے اند ر مختلف قسم کے معاشرتی اور لسانی گروہ کسی ممکنہ ردعمل کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں مسلمانوں اور سکھوں کی طرف سے ایسے ردعمل کا اظہار دیکھا جا چکا ہے۔ اگر یہ ردعمل شدت اختیار کر گیا تو پھر وہ اقتصادی ترقی جو بھارت نے پچھلے پچیس سال میں حاصل کی ہے اور جس کی بنیاد پر دفاعی اخراجات بھی بڑھا لیے ہیں‘ اسے ایک شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ مستقبل میں بھارت کو ایک ہی وقت میں ماسکو‘ واشنگٹن اور بیجنگ سے معاملات چلانے آسان نہیں ہوں گے کیونکہ اب تک یہ سہولت اسے اپنی اقتصادی ترقی کے باعث حاصل رہی ہے۔ تاہم اگر اندرون ملک مختلف قوتوںسے تعلق رکھنے والے گروپس میں اختلافات بڑھ گئے تواقتصادی شرح نمو بے حد متاثر ہو سکتی ہے۔