امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملے، بدلہ لے لیا، جنگ بڑھانا نہیں چاہتے: جواد ظریف ہمارے تمام اہلکار محفوظ، جوابی طاقت استعمال نہیں کرینگے: ٹرمپ
عراق میں عین الاسد اور اربیل فوجی اڈوں پر درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے، 80 امریکی دہشت گرد مارے گئے، ایران کا دعوی حملے بدھ کی صبح ساڑھے 5بجے ’’شہید سلیمانی‘‘ آپریشن کے تحت کیے گئے ،طمانچہ مارا، خامنہ ای،اب حملہ کیا تو اسرائیل کو نشانہ بنائینگے ، پاسداران انقلاب، جنرل سلیمانی کرمان میں سپرد خاک
بغدادمیں ایرانی سفارت کار کی طلبی، امریکا کی خلیجی ممالک کیلئے پروازیں بند، برطانوی وزیراعظم کا ٹرمپ سے فون پر رابطہ، اڈوں کومعمولی نقصان پہنچا، ایران پر مزید سخت پابندیاں لگائیں گے ، امریکی صدر بغداد ،تہران،واشنگٹن (دنیا مانیٹرنگ،نیوز ایجنسیاں) ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں2 امریکی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائلوں سے حملے کیے ہیں ۔ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے دعویٰ کیا ہے کہ عراق میں موجود امریکی اہداف پر ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں کم از کم 80 امریکی دہشت گرد مارے گئے ۔حملے کا نام ‘‘آپریشن سلیمانی’’ رکھا گیا تھا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے گزشتہ رات جوابی کارروائی کرکے امریکیوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے ،بتایا گیا ہے میزائل حملے کے بعد تہران میں عوام نے جشن بھی منایا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا بدلہ لے لیا، جنگ کو بڑھانا نہیں چاہتے ۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں کم از کم دو فضائی اڈوں اربیل اور عین الاسد کو نشانہ بنایا گیا، تاہم ان حملوں میں کسی جانی نقصان کے متعلق اطلاعات نہیں ہیں،حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 5 بجے ایران سے کیا گیا، جس میں ایک درجن سے زائد میزائل فائر کیے گئے ۔ امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ امریکی ریڈار دوران پرواز میزائلوں کابروقت پتا چلانے میں کامیاب رہے ، جس کے باعث امریکی فوجی محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے تھے ۔ تفصیل کے مطابق ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے دعویٰ کیا ہے کہ عراق میں موجود امریکی اہداف پر ایرانی میزائل حملوں کے دوران 15 میزائل داغے گئے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں روکا جا سکا۔ایرانی سرکاری ٹیلی وژن نے ملک کی طاقتور فورس پاسداران انقلاب کے اعلیٰ ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ اگر امریکا نے کوئی جوابی کارروائی کی تو ایران نے علاقے میں 100 دیگر اہداف کو اپنے نشانے پر لیا ہوا ہے ۔ مزید کہا گیا کہ حملے میں امریکی ہیلی کاپٹروں اور دیگر جنگی ساز و سامان کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔ایران کا کہنا ہے یہ میزائل حملے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام ہے ۔ عراقی فوج کے ذرائع نے بتایا حملے پر ایئر بیس کے اندرسائرن کی آوازیں سنی گئیں، جب کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے بھی علاقے پر پروازیں کیں۔ ایرانی خبررساں ایجنسی مہر کی رپورٹ کے مطابق پاسداران انقلاب اسلامی نے اعلان کیا ہے کہ عراق میں امریکا کے عین الاسد ایئر بیس پر کیے گئے ‘‘شہید سلیمانی’’ فوجی آپریشن میں 80 امریکی فوجی دہشت گرد ہلاک ہوئے ۔ اطلاعات کے مطابق فوجی اڈوں پر بڑی مقدار میں امریکا کے جنگی وسائل کو تباہ کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق امریکا کا عین الاسد ایئر بیس بڑا اہم ہے ، یہاں 4000 امریکی فوجی موجود ہیں۔ ایران کے حملے میں کئی امریکی ڈرون اور ہیلی کاپٹرز بھی تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کا جوابی اور دفاعی حملہ بڑا اہم اور مؤثر ہے ۔ پاسداران انقلاب کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی طرف سے مزید کسی بھی کارروائی کا اس سے بھی زیادہ سخت جواب دیا جائے گا اور اسرائیل و امریکا کے اتحادی ممالک کو نشانہ بنایا جائے گا۔بیان میں امریکا سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو مزید جانی نقصان سے بچانے کے لیے عراق سے واپس بلوائے ۔پاسداران انقلاب نے کہا دشمن کے فوجی اڈے تباہ کرنے کے لیے ہائی الرٹ ہیں، امریکا نے اب حملہ کیا تو اسرائیل کو نشانہ بنائیں گے ۔ امریکا اوراسرائیل کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھتے ۔ اسرائیلی شہر حائفہ اور تل ابیب کو تباہ کر کے رکھ دیں گے ۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے آپریشنز ہیڈ کوارٹرز آکر کارروائی کی سربراہی کی۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکا نے عین الاسد کا فضائی اڈا پہلی مرتبہ 2003 ء میں استعمال کیا تھا، جب امریکا کی زیر قیادت حملے میں اُس وقت کے عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا اور پھر اس کے بعد نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں استعمال کیا گیا ۔ایرانی حملوں کے بعد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کشیدگی کم کرنے کی خواہش ظاہر کر دی ۔ مارک ایسپر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے ، امریکا ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا خواہاں ہے ، اگر جنگ کی گئی تو امریکا اسے ختم کرنے کے لیے تیار ہے ۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان اسٹیفنی گریشام کے مطابق ایران نے جس ایئر بیس عین الاسد کو نشانہ بنایا وہاں صدر ٹرمپ نے دسمبر 2018 ء میں دورہ کیا تھا۔ پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوفمین نے ایک بیان میں کہا ہم نقصانات کے ابتدائی جائزے پر کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا جنگ کے خدشے اور کشیدگی میں اضافے کے بعد فوجی اڈوں پر ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے ۔ عراقی فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ میزائل حملوں میں کوئی عراقی شہری ہلاک نہیں ہوا۔بیان کے مطابق 22 میزائل داغے گئے ، جن میں سے 17 میزائلوں نے عین الاسد بیس، جب کہ 5 نے اربیل اڈے کو نشانہ بنایا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ایرانی قوم آج دنیا کے غنڈوں کے خلاف متحد ہوگئی ہے ، جوابی کارروائی امریکا کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ ایران اس سے بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ انہوں نے کہا امریکی ایئربیس پر حملہ کامیاب رہا۔ ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ خطے میں امریکا کی موجودگی کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے امریکا جنرل سلیمانی کو شہید کرکے اس کے سنگین نتائج سے لاتعلق نہیں رہ سکتا بلکہ اسے اس مکروہ اقدام کا جواب دینا ہو گا۔ بدھ کو تہران میں کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے صدر روحانی نے کہا امریکا نے بزدلانہ حرکت کے ساتھ ایک تاریخی غلطی کی۔انہوں نے میزائل حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا امریکا کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔ صدر حسن روحانی کے ترجمان حسیم الدین آشنا نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا عراق میں امریکی فورسز پر حملے کے جواب میں اگر امریکا نے حملہ کیا تو خطے میں بھرپور جنگ شروع ہو جائے گی۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق اپنے دفاع میں مناسب اقدام کرتے ہوئے عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، جہاں سے ہمارے شہریوں اور سینئر حکام کے خلاف بزدلانہ حملہ کیا گیا اور ہم نے بدلے کی کارروائی مکمل کر لی۔ ہم کشیدگی میں اضافہ یا جنگ بڑھانا نہیں چاہتے لیکن کسی بھی جارحیت کے جواب میں اپنا دفاع کریں گے ۔ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا امریکا نے دوبارہ حملہ کیا توجواب مزید سخت ہوگا ۔ انہوں نے کہا عراق میں امریکی فوجی اڈوں پرحملہ ایرانی فورسز کی صلاحیتوں کا بہت چھوٹا سامظاہرہ تھا۔مہر خبررساں ایجنسی نے اے ایف پی کے حوالے سے بتایا کہ عراقی حکام نے کہا ایران نے عراق کے اندر عین الاسد اور اربیل میں امریکی فوجی ٹھکانوں پرمیزائل حملوں سے قبل عراقی حکومت کو آگاہ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق عراقی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں تصدیق کی گئی کہ ایران کی جانب سے باضابطہ پیغام موصول ہوا ہے ، جس میں عراق کی سرزمین پرامریکی فوجیوں پر میزائل حملے کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں حملوں کے بعد عراق میں امریکی میزائل حملے میں جاں بحق ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ان کے آبائی علاقے کرمان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ایران نے امریکا سے بدلہ لیتے ہی جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین کی ہے ۔اس سے قبل گزشتہ روز جنازہ میں بھگدڑ مچنے کے بعد ان کی تدفین مؤخر کر دی گئی تھی۔ دریں اثناء ایران کی جانب سے فوجی اڈوں پر حملے اور خودمختاری کی خلاف ورزی پر عراقی وزارت خارجہ نے بغداد میں ایرانی سفارت کار کو دفترخارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔عراقی ٹی وی کے مطابق سفارت کار کو بدھ کی سہ پہر طلب کیا گیا۔اس موقع پر جاری بیان میں کہا گیا فریقین تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے تعمیری کوششیں کریں،اپنے معاملات کے لیے عراقی سرزمین کو میدان جنگ نہ بنائیں۔ عراق میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ تہران اور واشنگٹن کے مابین بڑھتی کشیدگی کی قیمت عراق کو ادا نہیں کرنی چاہیے ۔ یواین مشن نے اپنے بیان میں کہا حالیہ حملوں سے ایک مرتبہ پھر عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ دونوں فریق تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت شروع کریں۔ دوسری جانب کشیدگی کے تناظر میں امریکا نے عراق، ایران اور خلیجی ملکوں کے لیے اپنی سول پروازوں پر پابندی لگا دی ہے ، جب کہ حکام کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صورت حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے دنیا بھر میں امریکی مشنز کے نام ہنگامی پیغام بھی بھیجا ہے ، جس میں انہوں نے کہا ہے امریکی سفارت کار اجازت کے بغیر ایرانی اپوزیشن گروہوں سے نہ ملیں۔ ایرانی اپوزیشن سے ملاقات کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے ۔ عالمی برادری نے ایران اور امریکا سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ترکش صدر طیب اردوان اور روسی صدر پیوٹن نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا دونوں جانب سے حملوں اور طاقت کے استعمال سے مشرق وسطیٰ کے پیچیدہ مسائل کا حل نہیں نکالا جا سکتا، دونوں ملک خطے میں موجودہ کشیدگی کی صورت حال میں کمی کے لیے پُرعزم ہیں اور فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈپلومیسی کو اولین ترجیح بنائیں۔ عراق میں امریکا کے اتحادی برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، پولینڈ، ڈنمارک، ناروے اور دیگر ملکوں کا کہنا ہے کہ ایرانی حملے میں ان کے فوجی محفوظ رہے ہیں۔برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک ریب نے ایرانی حملے کی مذمت کی ہے ۔ انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ اس طرح کے خطرناک اقدامات سے باز رہے اور فوری طور پر کشیدگی کا خاتمہ یقینی بنائے ۔پولینڈ کی وزارت دفاع سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بدھ کو ہونے والے حملے میں پولینڈ کا کوئی فوجی زخمی نہیں ہوا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ عراق میں ان کے ملک کا تمام فوجی اور سفارتی عملہ محفوظ ہے ۔ عراق میں آسٹریلیا کے تقریباً 300 فوجی تعینات ہیں۔نیوزی لینڈ کے قائم مقام وزیر اعظم ونسٹن پیٹر کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے تمام فوجی بھی محفوظ ہیں۔اے ایف پی کے مطابق نیٹو کے سیکریٹری جنرل سٹولٹن برگ نے عراق کے امریکی فوجی ٹھکانوں پر ایرانی راکٹ حملوں کی مذمت کر دی۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا نیٹو ایران پر زور دیتا ہے کہ وہ مزید پُرتشدد اقدامات سے گریز کرے ۔جرمنی نے بھی ایرانی میزائل حملوں کی مذمت کی۔ جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے ترجمان نے رپورٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی سے گریز کرتے ہوئے مذاکرات کی طرف آئیں۔ جرمن وزیر دفاع کرامپ کارنباوئر نے بھی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ ایرانیوں پر ہے کہ وہ کشیدگی میں مزید اضافے سے گریز کریں۔ ادھر جرمن وزیر خارجہ ہایکو ماس نے بھی ایران پر زور دیا کہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جن سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ایران پر زور دیا ہے کہ اتحادی فورسز کے عراقی ٹھکانوں پر مزید میزائل حملے نہ کرے ۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ہفتہ وار سوال جواب سیشن میں انہوں نے امریکی حملے کا دفاع اور عراقی عوام کی سلامتی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر محتاط اور خطرناک حملوں کے بجائے ایران کشیدگی میں کمی پر توجہ دے ۔ انہوں نے کہا جنرل سلیمانی نے یمن میں حوثی باغیوں اور لبنان میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کو مسلح کیا، شام میں بشار الاسد کو سپورٹ کیا۔ جنرل سلیمانی نے برطانوی فورسز کے خلاف استعمال کے لیے جنگجوؤں کو دھماکا خیز ڈیوائسز فراہم کیں، ان کے ہاتھ برطانوی فوجیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے ۔ انہوں نے لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربین کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت عالمی قانون کے تحت غیر قانونی تھی، قانونی حیثیت کا تعین برطانیہ نے نہیں کرنا کیوں کہ یہ ہمارا آپریشن نہیں۔ تاہم معقول حلقے تسلیم کریں گے کہ اپنے فوجی ٹھکانوں اور عملے کا دفاع کرنا امریکا کا حق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عراق سے غیر ضروری عملے کو ہٹا لیا گیا ہے ، البتہ رائل نیوی کے دو جنگی جہاز آبنائے ہرمز میں برطانوی تجارتی جہازوں کے تحفظ کے لیے موجود ہیں ۔چین نے بھی ایرانی حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے ۔چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا مشرق وسطیٰ میں تناؤ کسی کے مفاد میں نہیں، فریقین کو مذاکرات کے ذریعے تنازع کے حل کی کوشش کرنی چاہیے ۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور گرگش نے خطے کو موجودہ کشیدہ صورت حال سے نکالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کشیدگی میں کمی عقل مندی اور انتہائی ضروری ہے ، استحکام کے حصول کے لیے سیاسی راستہ اختیار کیا جائے ۔ جاپان نے عالمی طاقتوں سے کشیدہ صورت حال میں کمی پر زور دیا۔پولینڈ نے عراق میں تعینات اپنے سفیر بیاٹاپیکاساکو واپس بلالیا ۔پولش وزارت خارجہ کے مطابق یہ اقدام عراق میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث اٹھایا گیا ہے ۔ کینیڈا نے عراق کاسفر کرنے والے اپنے شہریوں کیلئے ٹریول ایڈوائزری جاری کر دی۔ بھارت نے بھی اپنے شہریوں کو عراق کا سفر اختیار کرنے سے گریزکا انتباہ جاری کیا ہے ۔ واشنگٹن (دنیا مانیٹرنگ، نیوز ایجنسیاں) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں میں تمام امریکی اہلکار محفوظ رہے ، کوئی امریکی زخمی نہیں ہوا، البتہ فوجی اڈوں کو کچھ نقصان پہنچا، ارلی وارننگ سسٹم نے بہترین کام کیا، ایران کے خلاف جوابی طاقت استعمال نہیں کریں گے ، تاہم ایران پر مزید سخت پابندیاں لگائیں گے اور اس کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے ۔ حملوں کے بعد وائٹ ہاؤس سے بدھ کے روز قوم سے براہ راست خطاب میں انہوں نے کہا کہ ایران کا جارحانہ انداز اور دہشت گردی کے ہتھکنڈے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے ۔ امریکی صدر نے کہا قاسم سلیمانی کو میرے حکم پر مارا گیا، وہ دنیا میں کئی کارروائیوں کے ذمہ دار تھے ۔صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران امریکی مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت ان کے پیچھے کھڑی رہی، جو ایک غیر معمولی اقدام قرار دیا جا رہا ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ایرانی میزائل حملوں میں کوئی امریکی یا عراقی ہلاک نہیں ہوا۔ ایران نے یمن، لبنان، عراق اور افغانستان میں تباہی مچائی، ہم نے ایرانی رویے پر برداشت کا مظاہرہ کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکی کافی عرصے سے ایران کے رویے کو برداشت کر رہے تھے مگر اب معاملہ برداشت سے باہر ہوگیا تھا۔قاسم سلیمانی امریکی مفادات پر حملوں کی تیاری کر رہے تھے ۔ اب دنیا کو ایران کی ان سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہیے ۔ ایران کو اپنی ایٹمی سرگرمیاں بند کرنی چاہئیں۔ ایران تشدد پھیلاتا رہا تو خطے میں امن نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک میں صدر ہوں ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے ۔ انہوں نے داعش کے خلاف مل کر کام کرنے کے لیے ایران کو پیش کش بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ داعش کی تباہی ایران کے لیے فائدہ مند ہوگی، ایران دہشت گردی ترک کر دے تو خوشحال ہو سکتا ہے ۔ ٹرمپ نے کہا امن کے خواہشمند تمام ممالک کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں، امریکا کے پاس دنیا کی طاقت ور ترین فوج ہے ، جو کسی بھی قسم کے حالات کے لیے تیار ہے ۔ بہترین اور طاقت ور فوج کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے استعمال کریں گے ، ہمارے پاس جدید اور مہلک ہتھیار ہیں، ہمارے میزائل انتہائی طاقت ور اور تباہ کن ہیں لیکن ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے ۔ امریکی صدر نے کہا امریکا انرجی میں خودکفیل ملک بن گیا ہے ، ہمیں اب مشرق وسطیٰ کے تیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں نیٹو سے کہتا ہوں کہ مشرق وسطیٰ میں مزید متحرک کردار ادا کرے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا قاسم سلیمانی نے عراق میں موجود امریکی فوجیوں پر حملے کے احکامات دیئے ، سلیمانی کے ہاتھ امریکی اور ایرانیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے ، ان کو بہت پہلے مار دینا چاہیے تھا۔ قاسم سلیمانی کو مار کر ہم نے دہشت گردوں کو پیغام دیا کہ وہ دہشت گردی سے باز رہیں۔ انہوں نے کہا ماضی میں ایران سے احمقانہ معاہدہ کیا گیا، معاہدے کے بعد ایران نے یمن، لبنان، عراق اور افغانستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ ایران مہذب دنیا کو خوف زدہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے ،ایران نے حالیہ دنوں میں دو امریکی ڈرون بھی تباہ کیے ، ایران کی دہشت گردی، قتل اور فساد کی پالیسی مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت نے مظاہروں کے دوران اپنے ہی 1500 لوگوں کو قتل کیا۔ انہوں نے کہا میرے دور میں داعش کے ہزاروں افراد مارے گئے ، تین ماہ پہلے ہم نے داعش کو سو فیصد ختم کر دیا تھا، داعش کا سربراہ البغدادی دوبارہ سے داعش کو منظم کر رہا تھا، جس کی وجہ سے اسے مارنا پڑا۔ انہوں نے کہا لگ رہا ہے ایران پیچھے ہٹ رہا ہے جو اچھی بات ہے ، دونوں ممالک کو مل کر مشترکہ دشمنوں کے خلاف لڑنا چاہیے ۔صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا ایران نے ان میزائلوں سے حملہ کیا ہے جو بقول ان کے سابق صدر باراک اوباما کے دور میں ایران کو فراہم کی گئی بھاری مالی امداد سے بنائے گئے تھے ۔ اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ ہوا ، جس میں عراق میں اتحادی فورسز کے ٹھکانوں پر ایرانی میزائل حملوں کے بارے میں بات چیت کی گئی ۔ رپورٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے کہا وزیراعظم جانسن نے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے کشیدگی میں کمی کی اہمیت اور بحران کے سفارتی حل کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ قبل ازیں ایران کے حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ایران نے عراق میں دو فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن آل از ویل(سب کچھ ٹھیک) ہے ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ حملے میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے ،اب تک سب کچھ بہتر ہے ۔حملے کے بعد وائٹ ہاؤس میں امریکا کی قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی ہوا، جس کی صدارت ٹرمپ نے کی ۔وزیردفاع مارک ایسپر، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور دیگر حکام اجلاس میں شریک ہوئے ۔