مقبوضہ کشمیر : حملہ آوروں کی فائرنگ ، 28 سیاح ہلاک : 3 سے 4 نقاب پوش واردات میں ملوث ، بھارتی فوج اور ایجنسیوں پر سوالات اٹھنے لگے ، امریکی نائب صدر کی آمدپرفالس فلیگ آپریشن، پاکستان نے انڈین پرا پیگنڈا مسترد کردیا

نئی دہلی ،سرینگر( اے ایف پی،مانیٹرنگ ڈیسک)مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر مسلح افراد کے حملے میں 28 افراد ہلاک ہونے کا دعوٰی کیا گیا ہے ۔مرنے والے سیاحوں میں دو غیرملکی بھی شامل ہیں۔۔۔
جن میں سے ایک کا تعلق اٹلی جبکہ دوسرے کا اسرائیل سے ہے ، سیاحوں میں سے بیشتر کا تعلق بھارتی ریاست گجرات اور کرناٹکا سے ہے ۔حملے میں بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے متعدد کی حالت نازک بتائی گئی ہے ۔مسلح افراد کی فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی جس کے بعد مزید کئی افراد زخمی ہو گئے ۔سکیورٹی فورسز نے زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔بھارتی میڈیا پر دکھائی جانے والی ویڈیوز میں فوجی دستے جائے وقوعہ کی جانب بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں لاشوں کو ایک میدان میں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ لوگ روتے ہوئے مدد مانگ رہے ہیں۔ایک سینئر پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے ۔ حملے کے وقت سیاحوں کا گروپ ایک سرسبز چراگاہ کے پاس موجود تھا۔ پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ تاحال کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی،صرف غیر مسلموں کو نشانہ بنایا گیا، 3 سے 4نقاب پوش واردات میں ملوث ہیں ۔یاد رہے پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں واقع مشہور سیاحتی مقام ہے جو مرکزی شہر سرینگر سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔واقعے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہدایت پر وزیر داخلہ امیت شاہ سرینگر پہنچ گئے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ واقعے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہوں نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا کہ دہشتگردی سے لڑنے کا ہمارا عزم غیر متزلزل ہے اور یہ اور بھی مضبوط ہو گا۔ادھر بھارتی میڈیا کے مطابق پہلگام میں حملے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی دو روزہ دورہ سعودیہ مختصر کر کے نئی دہلی پہنچ گئے ۔مقبوضہ خطے کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ یہ حالیہ برسوں میں شہریوں پر کیا جانے والا سب سے بڑا حملہ ہے ۔امریکا کے صدر ٹرمپ نے مقبوضہ کشمیر میں حملے کی مذمت کی ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ ان کا ملک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انڈیا کے ساتھ کھڑا ہے ۔ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کشمیر سے انتہائی پریشان کن خبر ملی ہے ۔ امریکا مضبوطی سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انڈیا کے ساتھ کھڑا ہے ۔مسلح افراد کے سیاحوں پر حملے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اچانک فائرنگ سے وہاں بھگدڑ کا سماں پیدا ہو گیا تھا۔گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اس گروپ میں شامل تھے جس پر فائرنگ کی گئی۔ان کے مطابق اچانک فائرنگ سے افراتفری مچ گئی اور لوگوں نے چیختے چلاتے ہوئے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔بھارتی میڈیا کی جانب سے ہمیشہ کی طرح حملے کے فوراً بعد ہی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم چلائی جارہی
ہے ۔ہندوستانی میڈیا اور بالخصوص ’’را‘‘سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے حملے کے فوری بعد پاکستان کے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیا۔ حملے میں مذہب کا استعمال کرتے ہوئے غیر مسلموں کو نشانہ بنانے کا ڈرامہ بھی کیا گیا۔ذرائع کے مطابق بھارت روایتی طور پر کسی غیر ملکی سربراہ کے دورے یا اہم موقع پر فالس فلیگ کا ڈرامہ رچا کر دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں قابو سے باہر سکیورٹی حالات سے ہٹانا چاہتا ہے ۔یہ محض اتفاق نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر مُبینہ حملہ اس وقت کیا گیا جب امریکی نائب صدر بھی ہندوستان کا دورہ کررہے ہیں۔اس سے پہلے بھی مودی حکومت سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے متعدد بار فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچاتی رہی ہے ۔بھارتی حکومت اور بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں اپنی ظالمانہ پالیسیوں کی بدولت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔واضح رہے پہلگام کو مقبوضہ کشمیر کا سوئٹزرلینڈ کہا جاتا ہے اور اس کے سرسبز ماحول کی وجہ سے ہر سال ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں۔حملے کے بعد کشمیر میں سیاحت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں تقریباً 35 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا جن میں اکثریت ملکی سیاحوں کی تھی۔خیال رہے کہ اس حملے سے قبل عام شہریوں پر حملے کا بڑا واقعہ جون 2024 میں پیش آیا تھا جب ہندو یاتریوں کی بس پر شدت پسندوں کی فائرنگ سے نو افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوئے تھے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ پہلگام میں سیاحوں پر حملے کا پہلا واقعہ نہیں۔ چار جولائی 1995 کو پہلگام سے چھ غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ان میں دو امریکی، دو برطانوی، ایک جرمن اور ایک نارویجین شہری شامل تھا۔ اس واقعے کی ذمہ داری الفاران نامی تنظیم نے قبول کی تھی اور حرکت الانصار کے رہنما مولانا مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔اغوا کے چار دن بعد ایک امریکی سیاح اغوا کاروں کی گرفت سے بچ نکلا تھا جبکہ چند ہفتے بعد نارویجین سیاح کی سربریدہ لاش ملی تھی جس کے سینے پر الفاران کندہ تھا۔ دیگر چار سیاحوں کی آج تک کوئی خبر نہیں ملی تاہم ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ چاروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اسلام آباد(خبر ایجنسیاں ،مانیٹرنگ ڈیسک) پہلگام میں نہتے سیاحوں پر حالیہ حملہ جس میں 28 ہلاکتیں ہو چکی ہیں بھارت کی فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ ہے ، جہاں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام دھر دینا معمول بن چکا ہے ۔ یہ عمل دراصل بھارت کی ہائبرڈ جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا، داخلی عوامی توجہ ہٹانا اور سیاسی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے ، بھارت کی تاریخ اس طرح کے جھوٹے پراپیگنڈے سے بھری پڑی ہے ۔پاکستان نے انڈین پراپیگنڈا مستر د کر دیا ہے ۔ 2007 کا سمجھوتہ ایکسپریس دھماکا، جس میں 68 افراد جاں بحق ہوئے اور بعد میں ہندو انتہا پسند، حتیٰ کہ بھارتی فوج کا میجر رمیش بھی اس میں ملوث پایا گیا، 2008 کے ممبئی حملے ، جنہیں انسدادِ دہشتگردی قوانین کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا اور 2013 میں سی بی آئی کے سابق افسر کے انکشافات نے کئی پردے ہٹا دئیے ،2018 میں انتخابات سے پہلے سیاحوں پر حملے ، پلوامہ 2019 کا واقعہ، جہاں بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، اور بعد میں خود بھارت کے سابق گورنر نے حقائق سے پردہ اٹھایا، 2023 میں راجوری کا واقعہ، جو بی جے پی کے انتہا پسندانہ بیانیے کے عین مطابق سامنے آیااور اب 2025 کا پہلگام حملہ کسی ڈرامے سے کم نہیں ۔یہ سب واقعات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بھارت کی ریاستی مشینری فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے ایک مربوط بیانیہ تشکیل دیتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر جیسے مکمل سکیورٹی لاک ڈاؤن والے علاقے میں، جہاں ہر ساتویں شہری پر ایک بھارتی سپاہی تعینات ہے ، ایسے حملے کیسے ممکن ہیں۔۔۔؟ بھارت کا بیانیہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ حقائق کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے ۔ بھارت نے ہمیشہ ایسے جعلی حملے اہم غیر ملکی معززین کے دوروں کے دوران رچائے ، اور اس بار بھی امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔ بھارت کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ادارے اس طرح کی کارروائیوں میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ بھارتی میڈیا اس ریاستی بیانیے کو تقویت دینے والا اہم پروپیگنڈا ہتھیار ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حالیہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد بے بنیاد اور اپنی سکیورٹی کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔
بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق حملے کی ذمہ داری ایک کشمیری مزاحمتی گروپ نے قبول کی ہے ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واقعہ مقامی سطح پر پیش آیا۔ بھارت کو اس بات پر شرم آنی چاہیے کہ مقبوضہ وادی میں سات سے آٹھ لاکھ فوجی تعینات ہونے کے باوجود وہ نہتے سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے فتنہ الخوراج اور بی ایل اے جیسے دہشتگرد گروہوں کو منظم اور عسکری حکمت عملی سے زیر کرلیا ہے اور پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بھی تعمیری تعلقات قائم ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی جانب سے بھی معاملات ٹھیک روش پر چل رہے ہیں ملک میں بھی سیاسی استحکام آرہا ہے تو یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے ناکام مگر طے شدہ عسکری آپشن آزمانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ پاکستان کو اپنے پراکسی گروہوں کے ذریعے غیر مستحکم کرے اور فوجی محاذ پر الجھائے مگر بھارت یہ بات بھول جاتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج شہادت کو عزیز رکھتی ہیں اور ہندوتوا کے فاشزم کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دینا اس کیلئے باعث فخر ہے ۔پہلگام واقعہ کے حوالے سے کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے یہ دعویٰ جھوٹ، بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈا نظر آتا ہے ، دیکھا جائے تو یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر ہوا ہے ، اگر نقشہ کو دیکھا جائے تو حیران کن بات سامنے آئے گی کہ یہ علاقہ پاکستانی سرحد سے کافی دور واقع ہے ۔ یہ علاقہ کسی طرح بھی پاکستان کا سرحدی شہر نہیں بنتا جہاں باآسانی کو ئی سرحد پار کرکے یہ سب کچھ کر جائے ۔ پہلگام پاکستانی سرحد سے تقریباً 400 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے اور سری نگر کے مغرب میں تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ درمیان میں بھارت کی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشتگرد باآسانی وہاں پہنچ کر یہ سب کچھ کر جائیں۔ اس لیے یہ واقعہ یقینی طور پر مقامی سطح پر ہوا ہے ، چاہے وہ کشمیری عسکریت پسندوں کے ذریعے ہو یا بی جے پی کے حامیوں کی کسی کارروائی کا نتیجہ ہو۔